خواتین کا حق رائے دہی اور طبقاتی جدوجہد!

خواتین کے اس عالمی دن کے موقع پر ہم اپنے قارئین کے لئے عظیم انقلابی رہنما روزا لکسمبرگ کی تقریر کا اردو ترجمہ شائع کر رہے ہیں جو کہ روزا لکسمبرگ نے 1912ء میں جرمنی میں خواتین کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئی کی۔ اس تقریر میں روزا یہ بیان کرتی ہے کہ خواتین کے یکساں سیاسی حقوق کے حصول کیلئے عوامی تحریک، محنت کش طبقے کی آزادی کی عمومی لڑائی کے اظہار کے سوا کچھ بھی نہیں، اسی میں اس کی طاقت اور مستقبل پوشیدہ ہے۔

[source]

جرمنی میں محنت کش خواتین کی کوئی تنظیم کیوں نہیں ہے؟ آخر کیوں ہمیں محنت کش خواتین کی کسی تحریک کے بارے میں بہت کم سننے کو ملتا ہے؟ ان سوالات کو لے کر 1898ء میں ایما اہرر، جن کا شمار جرمنی میں محنت کش خواتین کی تحریک کے بانیوں میں ہوتا ہے، نے اپنا مضمون بعنوان ’’طبقاتی جدوجہد میں محنت کش خواتین‘‘ پیش کیا۔ اس بات کو ابھی بمشکل 14 سال کا عرصہ ہی بیتا ہے کہ ہم محنت کش خواتین کی تحریک میں بڑے پیمانے پر پھیلاؤ دیکھتے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد خواتین یونینز کی شکل میں منظم ہو چکیں ہیں اور محنت کش طبقے کی معاشی جدوجہد میں سب سے لڑاکا پرتوں کا حصہ ہیں۔ سیاسی طور پر منظم ہزاروں خواتین سوشل ڈیموکریسی کے جھنڈے تلے مظاہرے جمع ہوچکی ہیں۔ خواتین کے سوشل ڈیموکریٹک پرچے ’’ڈی گلائیک ہائٹ‘ کے ایک لاکھ سے زائد قاری ہیں، ایسے حالات میں خواتین کا حق رائے دہی سوشل ڈیموکریسی کے پلیٹ فارم پر ایک اہم ایشو بن چکا ہے۔

ہو سکتا ہے یہ حقائق آپ کو خواتین کے حق رائے دہی کی لڑائی کی اہمیت کو کم کرنے کی طرف لے جائیں۔ ہو سکتا ہے آپ یہ سوچیں کہ جب خواتین کے یکساں سیاسی حقوق کی عدم موجودگی میں ہی ہم نے ان کو نظریات سے لیس کرنے اور منظم کرنے میں عظیم کامیابیاں حاصل کر لیں ہیں تو حق رائے دہی کی لڑائی کی کیا ضرورت ہے؟ لہٰذا خواتین کے لئے حقِ رائے دہی فوری طور پر ضروری نہیں۔ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ دھوکہ کھا رہے ہیں۔ محنت کش خواتین کی تنظیمی اور سیاسی طور پر بیداری میں پچھلے پندرہ سالوں میں شاندار اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہوا ہے کے محنت کش خواتین نے خود سیاسی حقوق سے محروم ہونے باوجود اپنے طبقے کی سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد میں جاندار دلچسپی لی ہے۔ ابھی تک محنت کش خواتین کی سیاسی حمایت کو مردوں کے متاد کار نے برقرار رکھا ہے ، جس (مردوں کے حق رائے دہی) میں محنت کش خواتین اگرچہ بالواسطہ لیکن حصہ ضرور لیتی ہیں۔محنت کش مرد و خواتین کی بھاری اکثریت پہلے ہی الیکشن مہم کو ایک مشترکہ مقصد سمجھتی ہے۔ تمام سوشل ڈیموکریٹک انتخابی میٹنگز میں خواتین ایک خاطر خواہ تعداد میں موجود ہوتی ہیں اور بعض اوقات تو اکثریت میں ہوتی ہیں۔ وہ اس حوالے سے ہمیشہ دلچسپی دکھاتی ہیں اور جوش و جذبہ سے حصہ بھی لیتی ہیں۔تمام اضلاع میں جہاں مضبوط سوشل ڈیموکریٹک تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے، وہاں عورتیں مہم میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ اور یہ خواتین ہی تھیں جنہوں نے لیف لیٹس کی تقسیم اور سوشل ڈیموکریٹک پریس کے قاریوں کی تعداد بڑھانے میں گراں قدر حصہ ڈالا، جو کہ مہم کا سب سے اہم ہتھیار ہے۔

سرمایہ دارانہ ریاست (محنت کش) خواتین کو سیاسی زندگی کے ان تمام فرائض اور کوششوں سے باز رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ قدم بقدم (جدوجہد کے نتیجہ میں) ریاست کو درحقیقت ان کو یونین سازی اور اسمبلی حقوق کا حق اور ضمانت دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اب خواتین صرف آخری سیاسی حق سے محروم ہیں: ووٹ دینے اور بلاواسطہ انتظامیہ اور مقننہ میں اپنے نمائندگان چننے کا حق اور خود ان اداروں کے ممبران منتخب ہونے کا حق۔ لیکن سماج کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی(ریاست کا) نعرہ ایک ہی ہے ’’چیزوں کو سرے سے شروع ہی نہ ہونے دو‘‘ لیکن چیزیں شروع ہو چکی ہیں۔ موجودہ ریاست کو اس وقت گھٹنے ٹیکنے پڑے جب ان کو عوامی اسمبلیوں اور سیاسی انجمنوں میں محنت کش خواتین کی شمولیت کو قبول کرنا پڑا۔اور ریاست نے یہ (حق) رضاکارانہ طور پر نہیں دیا تھا، بلکہ محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے زیر اثر یہ ضروری ہو گیا تھا۔ یہ محنت کش خواتین کی ولولہ انگیز جدوجہد کا بڑھتا دباؤ ہی تھا جس نے پروشو۔جرمن جیسی پولیس ریاست کو سیاسی انجمنوں کے اکٹھ میں مشہور ’خواتین کے لئے مخصوص جگہ‘ کو ختم کرنا پڑا اور خواتین کیلئے سیاسی تنظیموں کے در وا کرنا پڑے۔ اس کے بعد صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہونے لگی ہے۔ محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد کی ناقابل تسخیر فتوحات کے تھپیڑے خواتین کے حقوق بھی سیاسی دھارے کے بھنور میں لے آئے ہیں۔ اپنے یونین سازی اور اسمبلی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش خواتین نے پارلیمانی زندگی اور الیکشن مہمات میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ اس تحریک ہی کا ناگزیر اور منطقی نتیجہ ہے کہ آج لاکھوں محنت کش خواتین باغیانہ انداز میں نہایت خود اعتمادی کے ساتھ یہ نعرہ لگاتے سنائی دیتی ہیں: ’’ہمیں حق رائے دہی چاہیے!‘‘

1848ء سے قبل کے مطلق العنانی کے ’’خوبصورت‘‘ دور میں ایسا بھی وقت تھا کہ جب سارے محنت کش طبقے کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس کا سیاسی شعور ’’اتنا پختہ‘‘ نہیں کہ سیاسی حقوق سے بہرہ ور ہوسکیں۔ لیکن آج محنت کش خواتین کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ بارہا اپنی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ محنت کش خواتین کی پر جوش مدد کے بغیر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نہ 12 جنوری 1912ء کی شاندار کامیابی حاصل کر سکتی تھی نہ ہی چالیس لاکھ سے زائد ووٹ۔ کسی بھی قیمت پر، محنت کش طبقے کو عوام کے کامیاب انقلابی ابھار کے ذریعے اپنی سیاسی آزادی کے کے حصول کیلئے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا پڑتا رہا ہے۔ جب تخت پر براجمان ’مقدس ہستی‘ اور قوم کے نابغہ روزگار اور شرفا نے حقیقت میں محنت کش طبقے کے آہنی مکے اپنے آنکھوں کے سامنے لہراتے دیکھے اور ان کے گھٹنوں کو اپنے سینوں پر محسوس کیا تب جا کر ہی ان کو عوام کی سیاسی ’بلوغت‘ پر یقین آیا اور ایسا بجلی کے کوندے کی تیزی سے ہوا۔ آج یہ محنت کش خواتین کی باری ہے کہ وہ اس سرمایہ دارانہ ریاست کو اپنی سیاسی بلوغت سے باور کرائے۔ ایسا محنت کشوں کی جدوجہد اور دباؤ کے تمام حربے آزماتے ہوئے ایک مستقل اور طاقتور عوامی تحریک کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔

خواتین کا حق رائے دہی ہمارا مقصد ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کیلئے درکار عوامی تحریک صرف خواتین کا فریضہ نہیں ہے، بلکہ یہ محنت کش مرد و خواتین کا مشترکہ طبقاتی فریضہ ہے۔ جرمنی میں خواتین کو سیاسی حقوق کی عدم دستیابی اس رجعت کی، جو عوام کی زندگیوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہے، کی صرف ایک کڑی ہے۔ اور یہ رجعت کے دوسرے ستون یعنی بادشاہت کیساتھ بہت قریب سے جڑی ہوئی ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ، صنعتی، بیسویں صدی کے جرمنی میں، بجلی، اور ہوائی جہازوں کے عہد میں، عورتوں کو سیاسی حقوق کی عدم دستیابی، تخت پر براجمان ’مقدس ہستی‘ کی طرح مردہ ماضی کی رجعتی باقیات ہے۔ کسی خدائی اختیار بطور سب سے اہم سیاسی طاقت اور خانگی زندگی کی مصنوعی شرم و حیا میں جکڑی عورت کی سماجی زندگی کے طوفانوں، سیاست اور طبقاتی جدوجہد سے بے نیازی۔۔۔ان دونوں مظاہر کی جڑیں فرسودہ ماضی میں پیوست ہیں، جیسے مزارعت کے وقتوں میں دیہاتوں اور قصباتی گلڈز میں ہوتا تھا۔ان وقتوں میں تو اس کا جواز بھی موجود تھا اور یہ ضروری بھی تھا۔ لیکن بادشاہت اور عورتوں کی حقوق سے محرومی کو تو سرمایہ داری کی ترقی نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا، پر یہ آج بھی اپنی بھونڈی ترین شکلوں میں موجود ہیں۔ مگر یہ آج بھی بس اس وجہ سے موجود نہیں ہیں کہ لوگ انھیں ختم کرنا بھول گئے تھے اور نہ ہی حالات کی سختی یا جمود کی وجہ سے۔ بلکہ یہ اس لیے موجود ہیں کہ یہ دونوں آج ان لوگوں کے مفادات کے ہتھیار بن چکے ہیں جو عوام کے دشمن ہیں۔ محنت کش طبقے کے استحصال اور غلامی کے بد ترین اور ظالم ترین وکیل تاج اور قتل گاہوں کے پیچھے مورچہ زن ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں کی سیاسی غلامی کے پیچھے بھی چھپتے ہیں۔ مطلق العنانی اور عورتوں کی حقوق سے محرومی کی حکمران سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی کے اہم ترین ہتھیار ہیں۔

حقیقت میں ریاست ووٹ کا حق صرف محنت کش خواتین ہی سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ اور ان کا خوف بجا ہے کہ وہ ( محنت کش خواتین) طبقاتی حکمرانی کے روایتی اداروں کیلئے خطرہ بن جائیں گی، مثال کے طور پر عسکریت پسندی( جس کی کوئی بھی باشعور محنت کش خاتون سوائے دشمن کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتی)، مطلق العنانیت، کھانے پینے کی اشیاء پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی منظم چوری وغیرہ۔ خواتین کا حق رائے دہی موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کیلئے خوف اور بھیانک خواب ہے کیونکہ اس کے پیچھے وہ لاکھوں خواتین کھڑی ہیں جو ان کے دشمن انقلابی سوشل ڈیموکریسی کو مضبوط کریں گی۔ اگر یہ حکمران طبقہ کی خواتین کے ووٹ کا معاملہ ہوتا تو سرمایہ دار ریاست کو اس سے کوئی مسئلہ نہ ہوتا کیونکہ ان کی مدد سے وہ رجعت کی موثر حمایت حاصل کر سکتے تھے۔ بہت سی بورژوا خواتین جو ’’مردانہ استحقاق‘‘ کے خلاف شیرنیوں کی طرح دھاڑتی نظر آتی ہیں، انھیں اگر ووٹ کا حق مل جائے تو وہ بھاگ کر فرمانبردار بھیڑوں کی طرح قدامت پرست اور مذہبی رجعتی کیمپوں میں جاتی ہوئی نظر آتیں۔بلاشبہ وہ اپنے طبقے کے مردوں سے زیادہ رجعتی ثابت ہوتیں۔ سوائے چند ایک کہ جو کسی کام یا پیشے سے منسلک ہیں، بورژوا طبقے کی خواتین سماجی پیداوار میں حصہ نہیں لیتی۔ وہ اپنے مردوں کی محنت کشوں سے کشید کردہ قدر زائد کی صارف کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ وہ سماج کے طفیلیوں کی بھی طفیلیاں ہیں۔ اور صارف عام طور پر بطور طفیلیہ اپنے ’’حق‘‘ کے دفاع میں، طبقاتی حکمرانی اور استحصال کے بلاواسطہ اداکاروں سے زیادہ خطرناک اور ظالم ثابت ہوتے ہیں۔ تمام عظیم انقلابی جدوجہدوں کی تاریخ نہایت خوفناک انداز میں اس امر کی تصدیق کرتی ہے۔ عظیم فرانسیسی انقلاب کی ہی مثال لے لیں۔ جیکوبنز کی ہار کے بعد جب رابسپئیر کو زنجیروں میں جکڑے پھانسی گھاٹ کی طرف لیجایا جا رہا تھا تو فتح کے نشے میں دھت ننگی ویشیا بورژوا خواتین گلیوں میں ناچ رہی تھیں اور انقلاب کے ہیرو کی نعش کے گرد بے شرم ناچ جاری تھا۔ اور 1871 میں پیرس میں جب عظیم پیرس کمیون کو مشین گنوں سے شکست دے دی گئی تو محنت کش طبقے سے خونی بدلہ لینے کی دوڑ میں پاگل بورژوا خواتین اپنے پاگل ترین مردوں سے بھی آگے نکل گئیں۔ ملکیت رکھنے والے طبقے کی خواتیں ہمیشہ پاگل پن کی حد تک استحصال اور غلامی کا دفاع ہی کریں گی کیونکہ اس میں ہی وہ اپنے بیکار سماجی وجود کی بقا کے ذرائع تلاش کرتی آئی ہیں۔

معاشی اور سماجی طور پر، استحصالی طبقات کی خواتین آبادی کا کوئی آزاد و خود مختار حصہ نہیں ہوتیں، ان کا واحد سماجی فریضہ حکمران طبقے کی نئی نسل کو جنم دینا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف محنت کش طبقے کی خواتین معاشی طور پر آزاد ہوتی ہیں۔ وہ اپنے مردوں کی طرح سماج کیلئے مفید ہوتی ہیں۔ اس سے میری مراد بچے پالنا اور گھر کے دوسرے کام نہیں جن کی وجہ سے ان کے مرد اس قابل ہوتے ہیں کہ باہر جا کر معمولی اجرت پر مزدوری کر سکیں، اس قسم کا کام موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کے قوانین میں ہرگز مفید نہیں خواہ اس کیلئے کتنی ہی محنت اور قربانی کیوں نہ دی گئی ہو۔ یہ ایک نجی نوعیت کا ہی کام ہے، اس وجہ سے یہ موجودہ سماج کیلئے وجود نہیں رکھتا۔جب تک سرمایہ داری اور اجرت پر مبنی سماجی نظام کی حکمرانی ہے، اس کام کو ہی مفید گردانا جاتا رہے گا جو قدر زائد تخلیق کرتا ہو اور جو منافع پیدا کرتا ہو۔ اس نکتہ نظر سے کسی کلب کی ڈانسر، جس کی ٹانگوں کی حرکت کلب کے مالک کی جیب میں منافع جمع کرتیں ہیں، ایک مفید ورکر ہے، جبکہ محنت کش طبقے کی خواتین اور مائیں، جو گھر کی چار دیواری میں رہیں، غیر مفید ہیں۔ سننے میں یہ بہت ظلم اور پاگل پن لگتا ہے لیکن یہ ظلم اور پاگل پن تو موجودہ سرمایہ دارانہ معیشت کا خاصہ ہیں۔ اور اس ظلم اور پاگل پن کو دیکھنا اور محسوس کرنا محنت کش طبقے کی خواتین کا اولین فریضہ ہے۔

اس لیے اس نکتہ نظر سے محنت کش خواتین کا یکساں سیاسی حقوق کے حصول کا نعرہ، مضبوط معاشی مطالبات کی زمین میں پیوست ہے۔ آج مردوں کی طرح لاکھوں محنت کش خواتین فیکٹریوں، ورکشاپوں، فارمز، گھریلو صنعت ، دفتروں اور سٹورز میں کام کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ منافع پیدا کرتی ہیں۔ وہ موجودہ سماج میں مفید ہونے کی سخت ترین سائنسی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔ صنعت اور تکنیک میں ہونے والی ہر نئی ترقی خواتین کیلئے سرمایہ داروں کے منافع کیلئے نئے در کھول دیتی ہے۔اور نتیجتاًصنعتی ترقی کا ہر قدم اور ہر دن خواتین کے یکساں سیاسی حقوق کی بنیاد کو مضبوط کرتا جاتا ہے۔ خواتین کی تعلیم اور ذہانت خود معاشی عمل کیلئے ضروری ہو گئی ہے۔ پدر سری خاندانی نظام کی تنگ نظر اور پسماندہ خواتین آج بھی صنعت اور اقتصادیات کے ساتھ ساتھ سیاست کی اہمیت کو بھی جھٹلاتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست نے اس شعبہ میں بھی اپنے فرائض کو نظر انداز کیا ہے۔ ابھی تک یہ یونینز اور سوشل ڈیموکریٹک تنظیمیں ہی ہیں جنھوں نے خواتین کی شعوری اور اخلاقی تربیت کیلئے بہت کچھ کیا ہے۔ حتیٰ کہ دہائیوں پہلے بھی سوشل ڈیموکریٹس قابل اور ذہین جرمن ورکروں کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بالکل اسی طرح آج یونینز اور سوشل ڈیموکریسی نے محنت کش خواتین کو ان کے قیدی اور تنگ وجود سے بلند کیا ہے اور گھر سنبھالنے کے جھنجھٹوں سے آزادی دلوائی ہے۔ محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد ان کے دائرہ کار کو وسعت دی ہے، اس نے ان کے اذہان کو لچکدار بنا دیا ہے، ان کی سوچ کو ترقی دی ہے اور انھیں ان کی کوششوں کے نتیجہ میں عظیم مقاصد کے حصول کی راہ دکھلا دی ہے۔ سوشلزم کے نظریہ نے محنت کش خواتین کے اذہان میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ہے اور بلاشبہ اس عمل نے ہی ان کو سرمایے کیلئے مفید ورکر بننے کے قابل بنایا ہے۔

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محنت کش خواتین کے سیاسی حقوق کی کمی نا انصافی کی بدترین شکل ہے اور ایسے وقت میں جب وہ سیاسی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے رہی ہیں۔ تاہم سوشل ڈیموکریسی لفظ ’’نا انصافی‘‘ کو بطور دلیل استعمال نہیں کرتی۔ یہ ہم میں اور پہلے کی جذباتی، خیالی سوشلزم میں بنیادی فرق ہے۔ ہم حکمران طبقے کے ’’انصاف‘‘ پر انحصار نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف محنت کش طبقے کی انقلابی قوت اور سماجی عمل کے اس رستے پر انحصار کرتے ہیں جو اس عظیم طاقت (کے اظہار) کیلئے حالات تیار کرتی ہے۔لہٰذا ’’نا انصافی‘‘ اپنے آپ میں وہ دلیل نہیں ہے جس کی مدد سے موجودہ رجعتی اداروں کو گرایا جاسکے۔ جیسا کے عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ اگر سماج کے وسیع حصوں میں نا انصافی پر مبنی جذبات ابھر رہے ہیں تو یہ اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ سماج کی معاشی بنیادیں اپنی جگہ سے ہل چکی ہیں اور موجودہ صورتحال ترقی کے سفر میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ لاکھوں محنت کش خواتین کی اپنے سیاسی حقوق سے محرومی کے خلاف غم و غصہ اس حقیقت کا واضح اشارہ ہے کہ موجودہ نظام کی سماجی بنیادیں فرسودہ ہوچکی ہیں اور اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔

ایک سو سال پہلے اشتراکی اقدار کے پہلے پیغمبروں میں سے ایک چارلس فوریئر نے یہ تاریخی الفاظ لکھے تھے کہ کسی بھی سماج میں خواتین کی آزادی عمومی آزادی کا قدرتی پیمانہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے موجودہ سماج کیلئے مکمل طور پر درست ہے۔ خواتین کے یکساں سیاسی حقوق کے حصول کیلئے موجودہ عوامی تحریک، محنت کش طبقے کی آزادی کی عمومی لڑائی کے اظہار کے سوا کچھ بھی نہیں، اسی میں اس کی طاقت اور مستقبل پوشیدہ ہے۔ کیونکہ محنت کش خواتین کا حق رائے دہی کا حق، محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد کو مزید تیز اور شدید کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بورژوا معاشرہ خواتین کے حق رائے دہی سے خوف بھی کھاتا ہے اور نفرت بھی کرتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کے ہم اسے چاہتے ہیں اور حاصل کر کے ہی رہیں گے۔ خواتین کے حق رائے دہی کی لڑائی میں ہم اس تاریخی وقت کو بھی قریب لائیں گے جب پرولتاریہ کی انقلابی طاقت کے ہتھوڑوں کی زد میں آکر موجودہ سماج ٹوٹ کر تحلیل ہو کر رہ جائے گا۔