امریکہ۔چین تجارتی تنازعہ: ٹرمپ کی حماقتیں‘ عدم استحکام میں اضافہ

سرمایہ دارانہ نظام کے سنجیدہ نمائندے اس خدشے کو لے کر سخت خوفزدہ ہیں ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری یہ تجارتی تنازعہ کہیں کھلی معاشی جنگ میں نہ تبدیل ہو جائے۔ فنانشل ٹائمز کے ایک حالیہ اداریے میں ایسوسی ایٹ ایڈیٹر مارٹن وولف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چین کے ساتھ 337 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کی غرض سے چینی مصنوعات پر (آنے والے دو سالوں میں) 200 ارب ڈالر کے ٹیرف لاگو کرنے کے منصوبے کو انتہائی غیر ذمہ داری پر مبنی پاگل پن قرار دیا۔ مگر ٹرمپ کے پاگل پن میں ہی اس کا طریقہ واردات چھپا ہے۔ وہ غالباً ڈرا دھمکا کر بدمعاشی سے ڈیل کرنے کے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بہر طور ٹرمپ کا اشتعال انگیز رویہ پہلے سے ہی زبوں حال عالمی معیشت کو مزید عدم استحکام کی طرف لے جا رہا ہے۔

[Source]

پچھلے چند مہینوں سے امریکہ چین کے ساتھ کچھ ماہ سے انتقامی تحفظاتی نوک جھونک میں پھنسا ہوا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے پہلا وار 23 مارچ کو سٹیل کی درآمد پر 25 فیصد اور ایلومینیم پر 10 فیصد ٹیرف کی صورت میں ہوا، جس میں یورپ، کینیڈا، میکسیکو، ارجنٹینا، آسٹریلیا اور برازیل کو یکم جون تک استثنیٰ حاصل ہے۔ چین کی طرف سے اس وار کا جواب 2 اپریل کو 128 امریکی مصنوعات (جن میں امریکہ کی پورک جیسی اہم برآمدات شامل ہیں) پر 15 سے 25 فیصد ٹیرف لگا کر دیا گیا۔ اس کے بعد امریکیوں نے 3 اپریل کو 1333 نئی مصنوعات (جن کی سالانہ درآمدی مالیت 50 بلین ڈالر ہے) پر 25 فیصد ٹیرف لاگو کرنے کی دھمکی دی، جس میں خاص طور پر چین کی انٹلیکچوئل پراپرٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ اگلے دن چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) میں شکایت درج کروا دی اور ساتھ ہی انتقامی کاروائی کے طور پر امریکہ کی مزید 50 بلین ڈالر مالیت کی برآمدات (خاص طور پر سویابین) پر ٹیرف لاگو کرنے دھمکی بھی دے ڈالی۔

ایک ناممکن پیشکش

آخری چال کے بعد مئی کے شروع میں بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات میں ٹرمپ نے ٹیرف کی لڑائی ختم کرنے کے لیے لمبی چوڑی شرائط سامنے رکھ دیں، جنہیں مالی جنگ کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ تجارتی خسارے میں 200 بلین ڈالر کی کمی کے علاوہ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ’’مارکیٹ میں بگاڑ پیدا کرنے والی سبسڈیز‘‘ کا خاتمہ کیا جائے: جدید ٹیکنالوجی کے فروغ میں حکومتی امداد، جیسا کہ برقی گاڑیوں کی پیداوار۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ چین پائیریسی کے خلاف سخت اقدامات کرے۔ اس کی مزید یہ خواہش بھی ہے کہ چین 2020ء تک ’’غیر اہم شعبوں‘‘ میں اپنا ٹیرف کم کر کے امریکہ کے برابر لائے۔ سب سے بڑھ کر اس کا اصرار ہے کہ چین اپنی WTO کی درخواست سے دستبردار ہو جائے اور امریکہ کے(ٹرمپ کے معیارات کے مطابق) ’’موثر، شفاف اور غیر جانبدار منڈی‘‘ کے چلن کو قبول کرے، اور اس تمام ذلت کو امریکی اشیاء کے خلاف کوئی جوابی کاروائی کیے بنا برداشت کرے۔ جیسا کہ وولف نے خلاصہ کیا ہے: ’’امریکہ ہی منصف ہو گا، وکیل بھی ہو گا اور جلاد بھی۔ جبکہ چین کو جوابی کاروائی کرنے یا WTO کی طرف رجوع کرنے کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے گا‘‘۔

اصل مسئلہ چین کے ’’ناجائز‘‘ اقدامات نہیں ہیں۔ امریکہ خود اپنے بڑے سرمایہ داروں کو ہر سال کھربوں ڈالر کی سبسڈی سے نوازتا ہے۔ امریکہ کی سب سے مشہور برقی گاڑیاں بنانے والی کمپنی Tesla کو کم از کم 5 ارب ڈالر کی سبسڈی دی گئی ہے جس کے بغیر وہ دیوالیہ ہو جاتی۔ اصل مسئلہ چین کی جانب سے ’’تجارتی اصولوں‘‘ کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ چین کی جدید شعبوں میں اپنی معیشت کو ترقی دینے کی کوشش ہے جن پر امریکہ دہائیوں سے بغیر کسی شراکت کے قابض ہے۔ اپنی نئی صنعتی پالیسی کے مطابق (جس کی تفصیل 2015ء میں چھپنے والی دستاویز Made in China 2025 میں موجود ہے) چین 10 جدید ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے جن میں روبوٹکس، سیمی کنڈکٹرز اور برقی گاڑیاں شامل ہیں۔

عالمی معیشت کی نازک صورتحال کی بدولت اپنی معاشی ترقی برقرار رکھنے کے لیے چین اپنی موجودہ حدود سے باہر نئے شعبوں کی طرف آنے پر مجبور ہے۔ جبکہ امریکہ، جو پہلے ہی عالمی سامراجی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے، کے لیے یہ راستہ موجود نہیں ہے۔ امریکہ اپنے بنیادی معاشی مفادات غصب ہوتے اور عالمی معیشت پر اپنا شکنجہ ڈھیلا پڑتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس کے علاوہ اس کے عزائم چین کے عزائم سے بالکل برعکس ہیں، وہ اپنا بحران پوری دنیا میں برآمد کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ پالیسی کا نچوڑ یہ ہے: پوری دنیا قیمت چکائے اور امریکہ فائدہ اٹھائے۔

ٹرمپ اور حکمران طبقے کا وہ دھڑا جس کی یہ نمائندگی کرتا ہے، بدمعاشی اور وحشیانہ طاقت کے استعمال سے دوسری اقوام کو ہار ماننے پر مجبور کرنے کے درپے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ ٹرمپ کسی قسم کی مصالحت سے قبل حالات کو مکمل تباہی کی نہج تک لے جانے کا عادی ہے۔ مارٹن وولف نے ٹرمپ کے چین سے مطالبات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’ذلیل کرنے‘‘ کی شعوری کوشش ہے اور کوئی بھی ’’خود مختار طاقت‘‘ انہیں کبھی بھی تسلیم نہیں کر سکتی۔ مگر ٹرمپ اور اس کی اتحادیوں کو اس بات کا یقین ہے کہ امریکی سامراج کی گیدڑ بھبکیاں ہی چینیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کافی ہوں گی۔ وہ ایک ڈیل کرنے کا سوچ رہا ہے اور اپنا پلہ بھاری کرنے کے چکروں میں ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ مضبوط پوزیشن پر ہے کیونکہ تجارتی جنگ کا امریکہ کو اتنا نقصان نہیں ہو گا جتنا چین کو ہو گا۔ مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ چین ایک چھوٹا کمزور ملک نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی سرمایہ دار قوت ہے۔ یہ دونوں معیشتیں مل کر پوری دنیا کی معیشت کا 40 فیصد بنتی ہیں۔ چین اتنی آسانی سے گھٹنے نہیں ٹیکے گا اور یہ سب عالمی منڈی کی لیے ان دیکھے تباہ کن نتائج کا باعث ہو گا۔

سمجھوتے کا فن؟

ایسا ہی ایک نتیجہ ٹرمپ کے چین کے مقابلے میں آنے کے اعلان کے فوری بعد دیکھنے میں آیا۔ چین کی سب سے بڑی لسٹڈ ٹیلی کام کمپنی ZTE پر امریکی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے پر 7 سال کی پابندی لگنے کے بعد کاروبار سے تقریباً باہر ہو گئی۔ یہ عمل امریکہ کے کامرس ڈیپارٹمنٹ کے اس فیصلے کے بعد سامنے آیا کہ ZTE نے حساس امریکی ٹیکنالوجی اور پرزے ایران اور شمالی کوریا کو برآمد کیے تھے۔

یقیناً اس کا مقصد ایپل جیسی بڑی امریکی ٹیلی کام کمپنیوں کو چینی کمپنیوں کے مقابلے سے بچانا اور امریکی منڈی میں ان کی اجارہ داری قائم رکھنا تھا۔ چین کا سمارٹ فونز سے متعلق بڑے پیمانے پر امریکہ پر انحصار ہے اور ZTE ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ معاشی تعلقات کے نتیجے میں ہونے والا پہلا بڑا سنجیدہ نقصان ثابت ہوئی۔ امریکہ سے چین برآمدات کا سب سے بڑا حصہ سیل فونز پر مبنی ہے (کل برآمدات کا 14 فیصد) اور منڈی کا حجم دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر چین جوابی کاروائی کرتا ہے تو اس شعبے کو کس قدر تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ٹرمپ کو فوری طور پر پیچھے ہٹتے ہوئے ذاتی مداخلت کرنا پڑی۔ اس نے کامرس ڈیپارٹمنٹ سے ZTE کو بچانے کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں کمپنی کو صدارتی معافی مل گئی۔ ٹرمپ نے اپنے اس ’’رحمدل‘‘ رویے سے متعلق ٹویٹ بھی کیا:

یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ٹرمپ نے وہ پابندیاں واپس لی ہیں جو امریکہ کے معاشی مفادات کو شدید نقصان پہنچا سکتی تھیں۔ اپریل میں ایلومینیم کے قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد امریکہ نے عندیہ دیا کہ وہ روسی ایلومینیم کمپنی Rusel پر لگائی جانے والی پابندیاں اٹھانے کو تیار ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح ٹرمپ کی احمقانہ اور تنگ نظر حرکات ایسے فساد کھڑے کر دیتی ہیں جن کا اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔

تجارتی جنگ کا بیہودہ ناچ

ٹرمپ نے 13 مئی کو ورجینیا گالف کلب سے واپسی پر کیے گئے ٹویٹ میں اپنے غیر مستقل رویے کی تصدیق کر دی:

مگر ٹرمپ کی کھوپڑی میں یہ بات نہیں سماتی کہ جب وہ ایک عمل شروع کر دیتا ہے، تو پھر وہ عمل اپنی منطق کے مطابق چلتا ہے۔ اس موقع پر آپ ’’ٹھنڈے ہو کر‘‘ چیزوں کو واپس ان کی پہلے سی حالت میں نہیں لا سکتے۔ ٹرمپ ان طاقتوں سے کھیل رہا ہے جو اس کے قابو میں نہیں ہیں۔ حال ہی میں وہ ریپبلیکنز، ڈیموکریٹس اور یورپی یونین کی چین کے متعلق اپنے سخت موقف کی حمایت میں اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مگر اس اتحاد میں ابھی سے دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ امریکہ کی ایران نیوکلیئر ڈیل سے یکطرفہ دستبرداری نے اس کے کئی یورپی اتحادیوں کو حیران پریشان اور ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔ یورپ کو ایران سے اربوں ڈالر مالیت کی تجارت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور خدشہ ہے کہ سابقہ اتحادی کاروبار میں نقصان کو پورا کرنے کے لیے چین کے ساتھ معاہدے کرنے طرف جائیں گے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، امریکہ کے جاپان اور جنوبی کوریا جیسے دوسرے روایتی حلیف بھی اپنا آزاد رستہ اختیار کر سکتے ہیں۔

امریکہ میں موجود سیاسی مخالفین نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کے چین کی طرف ظاہری نرم رویے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ مارکو روبیو نے ٹویٹ کیا:’’ ZTE کا مسئلہ تجارت یا نوکریاں نہیں ہے، یہ قومی سلامتی اور جاسوسی کا معاملہ ہے۔۔۔ امید کرتا ہوں کہ یہ چین کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی شروعات ثابت نہیں ہو گی‘‘۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے لیڈر چک شومر کہا کہ ٹرمپ کی اس حرکت کا ’’ایک ہی مقصد تھا: چین کو پھر سے عظیم بنانا۔‘‘

امریکی حکمران اشرافیہ کے دیگر افراد کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ٹرمپ مزید دباؤ ڈال کر جامع مراعات حاصل کرنے بجائے جلدی میں صرف تجارتی خسارے پر سمجھوتہ کر لے گا۔ اس حقیقت نے کہ ZTE رنگے ہاتھوں امریکہ کی تجارتی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑی گئی اور اسے معاف بھی کر دیا گیا، ان کے خدشات کو مزید ہوا دی ہے۔ رابرٹ لائتھزر اور پیٹر نوارو جیسے ’’چین کے شکاری‘‘ چاہتے ہیں کہ فوری طور پر 150 ارب ڈالر کے ٹیرف لاگو کر کے چینیوں سے بڑی مراعات نکلوائی جائیں۔ ٹوکیو میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفیر ٹیری برینسٹیڈ نے بہتری کی امیدیں مدھم کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور چین اپنے تجارتی جھگڑے میں ’’ابھی ایک دوسرے سے بہت دور‘‘ ہیں۔ برینسٹیڈ نے کہا کہ امریکہ پیچھے ہٹنے سے پہلے چین کی طرف سے ٹھوس یقین دہانی چاہتا ہے۔

گو کہ امریکہ ابھی بھی سب سے طاقتور سرمایہ دارانہ قوت ہے، مگر اب اس کی طاقت کم ہو چکی ہے۔ ٹرمپ کی واہیات مانگیں معاشی لحاظ سے پیونگ یانگ پر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیوں کے مترادف ہیں۔ وہ تجارتی جنگ کا تیسری عالمی جنگ سے زیادہ خواہش مند تو نہیں ہے۔ وہ صرف گفت و شنید میں امریکی سرمایہ داری کے لیے جس قدر ہو سکے فائدے اور بہتر ڈیل حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور دوسری جانب چینی بھی جنگ کے لیے بیتاب نہیں ہیں۔ مئی میں ہونے والے بیجنگ مذاکرات بھلے کسی کروٹ نہ بیٹھ سکے لیکن چین نے خیر سگالی کی پیشکش کے طور پر نئے سرمایہ کاری کے ضابطے متعارف کروائے جس کے تحت بیرونی سرمایہ کار سیکیورٹی کمپنیوں میں بڑے حصوں کے مالک بن سکتے ہیں اور زیادہ امریکی سپر کنڈکٹر خریدنے کا وعدہ بھی کیا۔ چینی ٹرمپ کے ارادوں کو خوب سمجھتے ہیں اور کچھ لین دین کے ساتھ معاملات سلجھانے کو تیار بھی ہیں، مگر چینی سرمایہ داری کے پاس بھی ایک خاص حد سے زیادہ مراعات دینے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ وینگ چونگ لیو، جو چینی تھنک ٹینک چارہار انسٹیٹیوٹ میں چین امریکہ تعلقات کا ماہر ہے، نے یہاں تک کہہ دیا:

’’ٹرمپ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ چین کبھی بھی اپنے بنیادی مفادات سے متصادم مطالبات تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ محض سودے بازی اور بھاؤ تاؤ کے ہتھکنڈے ہیں (ٹرمپ کی طرف سے)۔ لیو ہی (چین کا نائب صدر اور شی جن پنگ کا مشیر برائے معاشیات) امریکہ کو یہ بتانے واشنگٹن جا رہا ہے کہ ہم کیا دے سکتے ہیں‘‘۔

استحکام کی بیکار تلاش

درحقیت چین اور امریکہ کے حکمران طبقے کا سنجیدہ دھڑا استحکام کا متلاشی ہے، خاص طور پر اب جب عالمی منڈیاں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ غالباً ٹرمپ انتظامیہ میں شامل ٹھنڈے دماغوں نے ہی اسے ZTE کو بچانے کا مشورہ دیا تھا تاکہ ایک بے قابو چپقلش کو ٹالا جا سکے۔ لیکن ساتھ ہی وہ عالمی معیشت میں امریکہ کی برتر حیثیت کو بچانے کے لیے بھی بیتاب ہیں۔ معاشی جمود اور بحران کے دور میں یہ صرف دوسری معیشتوں کی قیمت پر ہی ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیاں اسی معاشی لازمیت کا اظہار ہیں۔ لیکن ٹرمپ ایک سٹے باز ہے جو ایک بہت خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور چین کی سرمایہ داری ایک دوسرے کے مخالف آ کھڑی ہوئی ہیں۔ اس تضاد کے مضمرات کا تعین عالمی معیشت کے تعطل سے ہوتا ہے۔ چین کو اپنا زائد پیداوار کا بحران حل کرنے کے لیے نئی منڈیاں درکار ہیں۔ وہ یہ مقصد صرف جدید انڈسٹری لگا کر اور نئے تجارتی رشتے بنا کے ہی حاصل کر سکتا ہے (جیسا کہ بیلٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ)۔ یہ سب کرنے سے وہ ان حدود کا تقدس پامال کر رہا ہے جن پر امریکی حکمران اشرافیہ اپنا حق تصور کرتی ہے۔

ہر حکمران طبقہ اپنے معاشی مفادات کی حفاظت چاہتا ہے، جو تحفظاتی رجحانات کو جنم دیتا ہے۔ لیکن تحفظیت مزید تحفظیت کو جنم دیتی ہے، اور دوسری معیشتوں کی قیمت پر ترقی کرنے کا حکمران طبقوں کا طرز عمل ایک اور عالمی بحران کے لیے عمل انگیز کا کام کر سکتا ہے۔ عالمی منڈیوں کی غیر مستحکم صورتحال کے باعث کوئی بھی طاقت مزید عدم استحکام پھیلائے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ چین اور امریکہ تھوڑے عرصے کے لیے ایک ’’مِنی ڈیل‘‘ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، اس سے سطح کے نیچے موجود تضادات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جو تمام مسائل کی اصل جڑ ہیں۔