خود سے برسر پیکار سماج

15جون بروز اتوار کی صبح شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں سینکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ کاروائی کا آغاز فضائی حملوں سے کیا گیا۔ 18 جون کو آنے والی خبروں کے مطابق عسکریت پسندوں کے 60 فیصد ٹھکانے تباہ کر دئیے گئے ہیں جبکہ علاقے کے 40 فیصد حصے پر فوج نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ آپریشن کی فوری وجہ کراچی ایئرپورٹ پر ازبک دہشت گردوں کے حملے کو قرار دیا جارہا ہے۔ اس حملے کے بعد ریاست کے حاوی حصوں کی جانب سے راست قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری بیانات جو بھی ہوں گرین سگنل عسکری قیادت نے ہی دیا۔ عسکری قیادت کی جانب سے جمودتوڑنے کا فیصلہ کرنے کی بنیادی وجہ فوج کی نچلی پرتوں میں پنپنے والا شدید دباؤ ہے۔ ریاستی مشینری کے بالائی حصوں میں دولت کی سرایت اور سماج میں فیصلہ کن ریاستی اداروں کی گرتی ہوئی ساکھ کے پیش نظر یہ قدم اٹھانا شاید ناگزیر ہوچکا تھا۔

ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی مکمل عدم موجودگی میں آپریشن میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ فوج کے اپنے بیانات کے مطابق اب تک ہلاک ہونے والوں میں کراچی ایئرپورٹ حملے کے ازبک ماسٹر مائنڈ سمیت ملکی اور غیر ملکی گروہوں کے جنگجو شامل ہیں۔ امریکی ڈرون حملے بھی جاری ہیں۔ 18جون کو میران شاہ میں ایک گاڑی پر ہونے والے حملے میں 6جبکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہونے والے تین ڈرون حملوں میں مجموعی طور پر22ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ شمالی وزیرستان کے باقاعدہ میدان جنگ بننے کے بعد علاقے سے بڑے پیمانے پر ہجرت شروع ہوگئی ہے۔ مقامی آبادی کا بڑا حصہ پہلے سے تباہ حال افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔

سیاسی فرنٹ پر دیکھا جائے تو حکمران سیاسی جماعت سمیت افق پر موجود تمام پارٹیاں کھل کر فوج کی حمایت کر رہی ہیں۔ واحد استثنا ’فی الوقت‘ جماعت اسلامی کو حاصل ہے جس کی وجوہات ہمیشہ کی طرح ’پراسرار‘ ہیں۔ پختونخواہ میں جماعت اسلامی کی ’اتحادی‘ تحریک انصاف نے بھی اپنی ’کور کمیٹی‘ کے اجلاس میں روایتی یو ٹرن لیتے ہوئے آپریشن کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما آپریشن کے سب سے بڑے اور پرجوش حمایتی بنے ہوئے ہیں۔ یہ حضرات شاید فوج کے ساتھ پارٹی کے تلخ تعلقات کی لمبی تاریخ بالکل ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ مذہبی دایاں بازو اور نام نہاد ’’کالعدم‘‘ تنظیمیں بھی آپریشن اور فوج کی حمایت میں دوسروں پر بازی لے جانے کی پوری کوشش کررہی ہیں۔ 2007ء میں عدلیہ بحالی کی ’’تحریک‘‘ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ قدامت پرستوں، مذہبی جماعتوں اور انتہائی دائیں بازو سے لے کر لبرل، سیکولر، نام نہاد بائیں بازو اور ’سول سوسائٹی‘ تک، ’’ملک و قوم‘‘ کی بقا کے لئے سب یکجا ہوگئے ہیں۔ ایئر کنڈیشنر میں بیٹھ کر ڈرائنگ روم سیاست کرنے والے ان خواتین حضرات کی اکثریت سنجیدگی سے سمجھتی ہے کہ ایک فوجی آپریشن سے ملک میں دہشت گردی کا نیٹ ورک ٹوٹ جائے گا اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ ان کی سمجھ بوجھ اور ریاست، سیاست اور معیشت کے ادراک کا معیار بس اتنا ہی ہے۔

آج نام نہاد ’’جمہوری‘‘ حکومت کے عہد میں ملک کے طول و عرض میں فوجی کی موجودگی ماضی کے مارشل لاؤں اور فوجی حکومتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپریشن کے آغاز کے فوری بعد کے مناظر فوجی کُو سے مماثل تھے۔ ہر بڑے شہر میں فوجی گاڑیاں گشت کررہی ہیں اور کھمبیوں کی طرح اگتی چیک پوسٹوں نے عوام کی زندگی کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔ دارالحکومت کو پہلے ہی فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی ٹانگیں محافظین کی فوج ظفر موج کے سائے میں بھی کانپ رہی ہیں۔ شیروں کے حفاظت کے لئے لاکھوں روپے کے ’امپورٹڈ‘کتے خریدے جارہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی پنجاب کے نڈر وزیر اعلیٰ شہبار شریف نے لاہور گیریژن کے کور کمانڈر سے فوجی سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔ پنجاب کے کل بجٹ کا 12فیصد ہڑپ کرنے والی ایک لاکھ چھیانوے ہزار کی پولیس فورس اپنے ’’خادم اعلیٰ‘‘ کی حفاظت سے قاصر ہے۔ پنجاب پولیس ویسے بھی نہتے شہریوں پر نشانہ بازی کرنے اور اپنی نگرانی میں گاڑیوں کو شیشوں سے پاک کروانے کی ہی ماہر ہے۔

حالیہ آپریشن سے پہلے بھی اس خطے میں فوجی آپریشنوں کی ایک تاریخ ہے۔ ان میں سے بیشتر ادھورے کیوں چھوڑے گئے یہ آپریشن کرنے اور کروانے والے ہی بہتر جانتے ہیں۔ 1990ء کے بعد سے کراچی مسلسل ملٹری اور پیرا ملٹری آپریشنوں کی زد میں رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی برسر اقتدار آنے کے بعد ایک آپریشن کا آغاز کیا تھاجو میڈیا کی بدلتی ہوئی شہ سرخیوں میں کہیں کھو گیا۔ روشنیوں کے اس شہر پر آج ماضی کی نسبت کہیں گہری تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں کئی سالوں سے فوجی آپریشن جاری ہے۔ درجنوں ریاستی، نیم ریاستی اور غیر ریاستی مسلح گروہوں کی موجودگی میں زندگیاں برباد ہورہی ہیں۔ فرقہ وارانہ ، معاشی اور اسٹریٹجک بنیادوں پر علاقائی اور عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ بلا روک ٹوک جاری ہے جس کا ایندھن عوام بن رہے ہیں۔

مذہبی تہواروں پر سیکیورٹی کے معاملات ہوں یا سیلاب اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات پر امدادی کاروائیاں، فوج کو ہر غیر معمولی صورتحال میں طلب کرنے کا رواج سا پڑ گیا ہے۔ جوں جوں سماجی خلفشار بڑھ رہا ہے، معاشی بحران گہرا ہورہا ہے اور انفراسٹرکچر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے یہ غیر معمولی صورتحال اس ملک کا معمول بنتی جارہی ہے۔ فوجی کاروائیوں یا آپریشن کے نتائج کتنے ہی غیر واضح یا منفی کیوں نہ ہوں،شہری دفاع اور ریسکیو وغیرہ کے باقاعدہ اداروں کی ناکامی یا سرے سے عدم موجودگی کے پیش نظر سویلین حکمران فوج کی مددطلب کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ لیکن ہر معاملے میں فوج کی مداخلت سے اس ادارے پر دباؤ اوراس کی صفوں تناؤ بڑھتا جارہاہے۔ فوج نے ہندوستان سے تین جنگیں لڑی ہیں اور ملک میں چار آمریتیں نافذ کی ہیں۔ ان جنگوں میں سے کسی میں بھی فتح کا دعویٰ کرنا بڑا مشکل ہے۔ مارشل لاؤں نے بھی عوام کو محرومیوں اور ذلتوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ فوجی حکومتیں اگر ملک کے حکمران طبقے کے لئے مایوس کن ثابت ہوئی ہیں تو جمہوری حکومتیں سرے سے ہی نااہل نظر آتی ہیں۔ ایک جدید اور مستحکم سماج کی تعمیر میں حکمران طبقے کی ناکامی کی بنیادی وجہ اس معاشی نظام کی متروکیت ہے جس کی بنیاد پر پرریاست اور سیاست کے بالائی تعمیر ہوتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں اور اسلامی بنیاد پرستوں کے چھ بڑے گروہ سرگرم ہیں۔ ان میں گل بہادر گروپ، حقانی نیٹ ورک، ازبک جنگجوؤں کی مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، القاعدہ کی باقیات اور عرب جنگجو شامل ہیں۔ ان گروہوں کے پاکستانی ریاست، امریکی سامراج اور دوسری علاقائی قوتوں کے ساتھ تعلقات نادیرپا اور متضاد نوعیت کے ہیں۔ وفاداریاں اور اتحاد مسلسل بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ مذہبی دہشت گردوں کابڑا ذریعہ آمدن منشیات کا کاروبار، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے جرائم ہیں۔ کچھ گروہوں کی جڑیں کراچی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ خوف ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی بنیاد پر بھتہ اور تاوان لیا جاتا ہے۔ یہ گروہ ریاست کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے بھی مسلسل برسر پیکار رہتے ہیں۔

 

کالی دولت اور بے روزگار نوجوانوں کی نہ ختم ہونے والی سپلائی کے ذریعے یہ گروہ رفتہ رفتہ جدید ہتھیاروں سے لیس وسیع جنگی مشینری اور ملک گیر نیٹ ورک قائم کرچکے ہیں۔ دہشت کا یہ کاروبار اتنا پھیل چکا ہے کہ ملٹی نیشنل اجارہ داریاں اور سامراجی قوتیں اپنے مفادات کے تحت مختلف دہشت گرد گروہوں کی خدمات کرائے پر حاصل کرتی ہیں۔ ریاست کے کچھ حصوں کی جانب سے مختلف گروہوں کی پشت پناہی اوراستعمال بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔ لہٰذا چیزیں بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہیں اور کھیل بڑا پرفریب ہے۔ اس سارے معاملے کو سیدھی سیدھی فوجی مہم سمجھنے والے کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ آپریشن اگر آگے بڑھتا ہے تو ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ طالبان کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ فوجی حکمت عملی کے تحت ساز باز بھی ہوگی۔ ’’اسٹریٹجک گہرائی‘‘ کی پالیسی بھی جاری ہے۔ یہ ایک طویل، پرپیچ اور خونی جنگ ہے جس کے کسی واضح اور منطقی انجام تک پہنچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔

اگر آپریشن سے متوقع نتائج برآمد نہیں ہوتے یا صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے تو کیا ہوگا؟ اس بات پر غور کرنے کا حوصلہ بھی شاید حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔ سیکیورٹی کے حصار در حصار میں قائم عالیشان محلات میں بیٹھے ان ارب پتی حضرات کو شاید اتنی مغز ماری کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مرنا تو غریب نے ہے۔ اسے اگر کالے دھن پر پلنے والے مذہبی جنونی نہیں ماریں گے تو بھوک مار دے گی۔ جہاں ہر روز غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں سے 1184 بچے مرتے ہوں وہاں بم دھماکے بھی بے معنی ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب کھونے کو کچھ نہ بچے تو محرومی بھی طاقت بن جاتی ہے۔ یہ کروڑوں محروم جب طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر اس سماج کا انقلابی’’آپریشن‘‘ کریں گے تو سرمایہ داری کے اس ناسور کو ہی کاٹ پھینکیں گے جو ہر ذلت، محرومی اور دہشت کی جڑ ہے۔

Source