انہیں کیڑے کھانے دو۔ ۔ ۔ ’’غذا اور سرمایہ داری کا مستقبل‘‘

حالیہ دنوں میں خوراک اور زراعت کی تنظیم (FAO) نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں یہ دلچسپ خیال پیش کیا گیا کہ ’’ دنیا کو کیڑے کھانے پر قائل کیا جائے تاکہ بڑے پیمانے کی بھوک سے بچا جا سکے۔‘‘حقیقتاً آج لوگوں کو کیڑے کھلائے بغیر ان کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ’مارکیٹ ‘ یعنی سرمایہ داری ہے۔

تعارف: مالتھس کی واپسی

تقریباً دو صدیوں پہلے مالتھس نے یہ خیال پیش کیا کہ غریبوں کی مدد کرنا غلطی ہے۔ ان کو فاقوں سے مر جاناچاہئے کیوں کہ فطرت سب کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔ اگرچہ بہت سے مفکرین، بشمول مارکس اور اینگلز، نے اس نظریے کی عیاری کو واضح کیا لیکن یہ بورژوازی ہی تھی جس نے عملاً اس نظریے کو مسترد کر دیا کیونکہ مالکان کو مختلف شعبوں، میدان جنگ، کارخانوں اور فیکٹریوں کے لیے انسانی قو ت محنت کی ضرورت تھی۔

دہائیوں تک آبادی کی بڑھوتری کے لیے پروپیگنڈہ کیا گیا کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت تھی۔ صحت عامہ کی بہتری، ویکسی نیشن وغیرہ کے ذریعے انسانی آبادی کو سرمایہ داری کی افرادی قوت کی بھوک کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ آج عالمی سطح پر سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں مالتھس کی انسان دشمن تھیوری کی طرف پھر رجوع کیا جارہا ہے۔ بڑھتی آبادی کے خطر ا ت اور زندگی کے ناخوشگوارحقائق کو برداشت کرنے کے لیے پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اس احیا کا سب سے بیہودہ پہلو یہ ہے کہ بہت سے خود ساختہ بائیں بازو کے دانشور بھی یہ باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا نعرہ یہ ہے ’’ہمیں زمین کو انسانوں سے بچانا ہے۔ ‘‘ دراصل یہ سبز سیاست (Green Politics) کے لبادے میں کٹوتیاں (Austerity) کرنے کی واردات ہے۔

200 سال کے سائنسی ثبوت مالتھس کو جھٹلانے کے لیے کافی ہیں۔ مالتھس کے پیروکاروں نے ہر بار قیامت کے آنے کا دعویٰ کیا جب دنیا کی آبادی ایک ارب، پھردو ارب اور پھر تین ارب ہوئی۔ اب اقوام متحدہ کے اعدادو شماریہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2050ء تک دنیا کی آبادی 9 ارب ہو جائیگی۔ اس حقیقت سے قطع نظر، کہ اس پیشگوئی کی درستگی مشکوک ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ چالیس سالوں میں طلب کو پورا کرنے لیے غذائی پیداوار میں 60 فیصد اضافہ در کار ہے۔ مقداری حوالے سے یہ قابل حصول ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک فیصد سے کچھ زیادہ کی سالانہ مجموعی نمو ہے۔

مسئلہ اس سیارے پر رہنے والے انسانوں کی تعداد کا نہیں ہے۔ جس طرح سرمایہ داری زمین اور اس کے قدرتی وسائل کیساتھ سلوک کر رہی ہے اس عمل کو زیا دہ عرصہ جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ زمین کو نوع انسان تباہ نہیں کر رہی بلکہ سرمایہ داری اور اس کی منافع کی مسلسل ہوس زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اس کا اظہار بظاہر متفرق نظر آنے والے مظاہر جیسے گلوبل وارمنگ، موٹاپا، جنگلات کی کٹائی یا پاگل گائے کی بیماری (Mad Cow Disease) میں ہوتا ہے۔ یہ تمام تر مسائل ہمیں بتاتے ہیں کہ وقت بہت کم ہے۔ جب تک سرمایہ داری رہے گی ماحول کو اتنے ہی زیادہ خطرات کا سامنا ہو گا اور اس نظام کے خاتمے کا فریضہ اتنا ہی فوری نوعیت کا ہو گا۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ آبادی دراصل سکڑ رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے نکتہ نظر سے آج عالمی سطح پر ہر کسی کی غذائی ضروریات سے زیادہ خوراک پیدا کی جا سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا اور ہمیں اسکی وجوہات کو تلاش کرنا ہو گا۔ ایف اے او (FAO) کی رپورٹ کے مطابق، ’’آج بھی انسانیت کو دائمی غذائی کمی کی تلخ حقیقت کا سامنا ہے جو 800 ملین لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ جس میں سے 17 فیصد ترقی پذیر ممالک، 34 فیصدافریقہ اور کچھ دیگر ممالک میں ہیں۔

اس کا فطری قوانین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ زمین کے باسیوں پر مسلط کی گئی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کانتیجہ ہے۔ بہت سے ممالک، جن کی آبادی کے بڑے حصے کو قحط کا سامنا ہے، کو خوراک کی بڑی مقدار قرضوں کی ادائیگی کی مد میں برآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ مثلاً گیمبیا اور سری لنکا اپنی زرعی پیداوار کا 60 فیصد برآمد کرتے ہیں جبکہ خود اناج کے بڑے درآمد کنندگان ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں بینکوں نے انسانی زندگیوں کی قیمت پر بڑے بڑے منافعے حاصل کیے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کو نہ صرف ساہوکاروں کے قرضے ادا کرنے بلکہ اپنی معاشی پالیسیاں بھی تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ خوراک کی خود کفالت کی بجائے انہیں عالمی منڈی کے لیے کافی یا پھو ل اگانے پر مجبور کیا گیا۔ یقیناً اس کی بنیاد اس مضحکہ خیز سوچ پر تھی کہ عالمی منڈی ایک بے عیب اور آزاد جگہ ہے جہاں کامیابی کی بنیاد مقابلہ بازی ہے۔ نتائج تباہ کن تھے۔ جہاں سامراجی ادارے معاشی ذرائع سے مقابلہ نہ کر سکے وہاں غریب ممالک کی طرف سے لگائے گئے تجارتی محصولات کو بزور طاقت ہٹا دیا گیا۔ مغربی کمپنیوں اور ان کے کرائے کے غنڈوں (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ) نے ’’ابھرتے‘‘ہوئے ممالک کو قحط زدہ کر دیا۔

ملٹی نیشنل کارپور یشنوں کے طریقہ واردات سے صرف غریب ممالک میں ہی بھوک نہیں بڑھی، ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسا ہی ہوا۔ امریکہ خوراک کا بڑا برآمد کنندہ ہے اور اپنے لوگوں کو ان کی ضروریات سے زیادہ غذا فراہم کر سکتا ہے۔ جبکہ امریکی ادارہ برائے زراعت کے مطابق 2012ء میں تقریباً 1 کروڑ 80 لاکھ گھرانے خوراک کی کمی کا شکار تھے اور 70 لاکھ گھرانے مشکل سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے تھے۔ کیا کوئی شخص سنجیدگی سے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ امریکی زراعت امریکی شہریوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں کرسکتی ؟

(خوراک کے) ضیا ع کا مسئلہ بھی ہے۔ ایک تہائی سے نصف تک خوراک ضائع ہوجاتی ہے۔ اگر اس ضیاع کو ختم کیا جائے تو یہ خوراک پورے سیارے کو ضرورت سے زیادہ کھلانے کے لیے کافی ہے۔ خوراک کا ضیاع کوئی تکنیکی مسئلہ نہیں ہے جیسے خوراک کی ترسیل وغیرہ۔ ۔ یہ قیمتوں کا مسئلہ ہے۔ منڈی کی حکمت عملی ہے۔ جس طرح سرمایہ داری میں لاکھوں خالی گھروں کی موجودگی میں بے گھر لوگوں کی ایک فوج ہوتی ہے، اسی طرح زراعت میں بھی زمینوں کو غیر کاشت شدہ رکھا جاتا ہے یا قیمتوں کو اونچا رکھنے کے لیے خوراک کو ضائع کر دیا جاتا ہے کیونکہ منافع بڑھانے کا یہی طریقہ ہے۔ خوراک کے ضیاع سے قطعْ ْ نظر، موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداوار میں سادہ بڑھوتری بھی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔ اصل مسئلہ منافع ہے نہ کہ بڑھتی ہوئی آبادی۔

ہم وہی ہیں جو ہم کھاتے ہیں!

’’بتاؤ تم کیا کھاتے ہو، پھر میں بتاؤں گا کہ تم کیا ہو۔‘‘ ہم جانتے ہیں کہ کلاسیکی معیشت کے دنوں سے اجرت محنت کشوں کو بحیثیت طبقہ دوبارہ پیدا کرنے کی قیمت ہے۔ جتنا اس قیمت کو کم کیا جائے اجرت بھی اتنی ہی کم کی جا سکتی ہے جس سے منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا سرمایہ داری کے آغاز کے دنوں سے ہی بورژوازی نے محنت کشوں کے زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیا کو سستا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ اس وقت کمتر اخراجات (Low Cost) کی اصطلاح ایجاد نہیں ہوئی تھی لیکن یہ خیال نیا نہیں ہے۔ اچھے معیا ر کی غذا پر رہنے والے محنت کش گھٹیا معیار کی غذا پر رہنے والے محنت کشوں سے مہنگے ہوتے ہیں۔ منافع بڑھانے کے لیے گھٹیا معیا ر کی غذا کو معمول بنانا ضروری ہے۔

حصول منافع کی دوڑ انسانیت کے لیے خطرناک نتائج کی حامل ہے۔ مثلاًمویشی بد ترین ماحول میں رہتے ہیں۔ یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ ہمارے لیے بھی خطرناک ہے۔ جانوروں کو کم سے کم جگہ میں رکھا جاتا ہے۔ حرکت نہ کر سکنے کی وجہ سے وہ کمزور ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو اینٹی بائیوٹک، ہارمون وغیرہ کے انجیکشن لگائے جاتے ہیں تاکہ ان کی جلدی بڑھوتری ہو اور مخصوص وقت تک زندہ رہ سکیں۔ انسانوں کی طرح ان کی خوراک کو بھی سستے سے سستا ہوناچاہیئے۔ اس لیے ان کو مردہ جانوروں بشمول کتے اور بلیوں سے بنائی گئی غذا دی جاتی ہے جوان سبزی خور جانوروں کے لیے مکمل غیر فطری ہے۔ بہترین صورتحال میں انہیں مکئی دی جاتی ہے لیکن چونکہ وہ اسے صحیح طرح ہضم نہیں کر پاتے تو اس سے زیادہ میتھین پیدا ہوتی ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ میتھین کے کل اخراج کا آدھا حصہ زرا عت سے ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کا باعث ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سے بہت سے ترقی پذیر ممالک کی غذائی درآمدات پر انحصار بڑھ جائے گا۔ پھلوں اور سبزیوں کی حالت بھی اسی طرح ہے جن میں کیڑ ے مار ادویات اور دوسرے اجزا بھی مدغم ہیں۔ اس کے علاوہ غذا کو زیادہ لمبے عرصے تک محفوظ کرنے کے لیے اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے تاکہ لمبے عرصے تک استعمال کیا جا سکے لیکن اس اثنا میں اس کا ذائقہ ختم ہو جاتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ گوشت اور پھلوں کی غذائیت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ ماحول سے ایک حد تک ہی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یورپ میں بیچی جانے والی زیادہ تر مچھلی غیر یورپی پانیوں سے پکڑی جاتی ہے کیونکہ حد سے زیادہ شکار کی وجہ سے مقامی ذخائر ختم ہو چکے ہیں۔ باقی سمندروں میں بھی حالت اسی طرح ہے۔ FAO کے مطابق گذشتہ صدی کے اختتام تک سمندروں کے تین چوتھائی مچھلی کے ذخائر کو پائیدار پیداوار کی آخری حد تک بے دریغ شکار کیا گیا کیونکہ اس سے بے پناہ منافع حاصل ہوتا ہے لیکن ماحولیاتی توازن کو تباہ کرنے کی قیمت پر۔ یہ سب پیداوار کے بڑے حجم سے منسلک ہے۔ بڑی کشتیاں سمندروں کوزیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔

مقداری معاشیات کے حصول کی دوڑ میں بڑے شہروں میں مویشیوں کو بڑ ی تعداد میں جمع کیا جاتا ہے جس سے واضح خطرات بھی ہیں۔ شہر میں موجود بڑے بڑے مذبح خانے خوفناک بد بو پھیلا کر سر درد اور دوسری بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔ سور کے فضلے سے ہونے والے اخراج کا حجم اور نقصان تیل کے بڑے اخراج سے مختلف نہیں۔ زیادہ سنجیدہ امر یہ ہے کہ زیادہ مویشی کا مطلب زیادہ جنگلات کا کٹاؤ۔ 90ء کی دہائی میں دنیا سے 94 لاکھ ہیکٹر جنگلات ختم ہوئے۔ بیلجیم کے رقبے کے تین گنا کے برابر۔

غذائی پیداوار کے موجودہ حالات کار مزدوروں کے لیے بھی نا گفتہ بہ ہے۔ ہم غریب ممالک میں کام کرنے والے کسانوں یا جنوبی یورپ یا امریکہ میں کام کرنے والے تارکین وطن کی بات نہیں کر رہے۔ مذبح خانوں میں حالات کار دانتے کی رزمیہ نظم ’’نرک‘‘ سے مماثل ہیں۔ سینکڑوں مزدور ذبح ہونے والے انہی جانوروں کی طرح ایک ساتھ مرتکز ہوتے ہیں جبکہ ان کے پاؤں خون میں غرق ہوتے ہیں۔ کاٹنے کی رفتار کے ساتھ حادثات بھی بڑھتے ہیں۔ جہاں تک پیداوار کی کوالٹی کا تعلق ہے تو ایک خاص رفتار کو برقرار کھنے کے لیے جانوروں کو ان کے فضلے میں ہی ذبح کیا جاتا ہے۔ بعد میں لوگوں کو یہی چیزیں کھانے کو ملتی ہیں۔

سرمایہ داری میں ہر معاشی شعبہ مسلسل ارتکاز کی جانب گامزن ہے۔ ماضی کی چھوٹی کمپنیاں بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں بن چکی ہیں۔ زراعت میں بھی یہی ہو رہا ہے جہاں لاکھوں چھوٹے کسان ان دیو ہیکل کمپنیوں کی مقابلہ بازی میں ہار کے شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، سور کی پیداوار کی سب سے بڑی امریکی کمپنی سمتھ فیلڈ جب مشرقی یورپ منتقل ہوئی تو پانچ سال کے اندر رومانیہ کے سور پالنے والے کسانوں کی تعداد 90 فیصد کم ہوئی۔ 10 بڑی ایگرو کیمیکل کمپنیاں عالمی منڈی کے81 فیصد کو کنٹرول کرتی ہیں۔ 10 کمپنیاں بیج کی عالمی منڈی کے 37 فیصد، 10 کمپنیاں ادویات کی عالمی منڈی کے 43 فیصد کو کنٹرول کرتے ہیں۔ پیداواری شعبے میں چار کمپنیاں سور کے گوشت کی امریکی منڈی کا آدھا حصہ، چھوٹے گوشت کی پیکینگ کا 80 فیصد اور سور کے گوشت کی پیکینگ کی منڈی کا 60 فیصد کنٹرول کرتی ہیں۔ تقسیم کار کا بھی یہی حال ہے جہاں وال مارٹ جیسی بڑی کمپنیاں امریکہ میں غالب ہیں۔ ’ ’آزاد منڈی‘‘ کی باتیں محض جھوٹ کا پلندہ ہے۔ چھوٹے کسانوں کو بڑی کمپنیوں کی تعین کردہ قیمت پر ہی بیچنا پڑتا ہے۔

اجناس کی آئندہ تجارت (Future Trading) کے ذریعے مستقبل کی قیمتیں بھی بڑی کمپنیاں اور بینک ہی متعین کرتے ہیں۔ ایگرو بزنس کی اجارہ داریوں اور بڑے بینکوں کا زراعت اور معیشت پر مکمل تسلط 2008ء میں ابھر کر سامنے آیا جب دنیا کے 37 فیصد غریب ممالک میں غذائی فسادات ہوئے۔ چند مہینوں میں چاول، سویا بین اور گندم کی قیمتیں دو گنی ہو گئیں جس سے غریب ممالک پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوئے جہاں اجرتوں کا 50 فیصد سے 70 فیصد حصہ غذا پر خرچ ہوتا ہے۔ ان واقعات کا آبادی میں اضافے یا غذائی پیداوار سے کسی بھی طرح کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق بڑے بینکوں اور اجارہ داریوں کی منا فع کی ہوس سے ہے۔ سرمایہ دارانہ حکمرانی کا مطلب صرف چند کمپنیوں کا منڈی پر تسلط ہی نہیں ہے۔ پیداوار کا رخ ان فصلوں اور مویشیوں کی طرف ہے جو سرمایہ دارانہ استحصال کے لیے موزوں ہیں۔ اس عمل میں علاقائی تنوع اور ماحولیات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

فاسٹ فوڈ کی دنیا

’’یہ قصاب، خمیر کش یا نان بائی کا احسان نہیں ہے کہ ہمیں کھانا ملتا ہے بلکہ ان کا اپنا مفاد ہمیں کھانا دینے سے وابستہ ہے۔‘‘ (ایڈم سمتھ)

سرمایہ داری مسلسل خراب ہوتی ہوئی غذا کے رجحان پر منحصر ہے۔ فاسٹ فوڈ سے اس رجحان نے ایک معیاری چھلانگ لی ہے۔ فاسٹ فوڈ وہی کردارادا کر رہی ہے جو صنعتی انقلاب کے دوران برطانوی کوئلے نے ادا کیا تھا۔ ایک سستی لازمی چیز جو ملکی ضرورت کی کسی بھی طرح کی مصنوعات میں استعمال کی جا سکتی تھی۔ فاسٹ فوڈ نہ صرف ایک اہم معاشی شعبہ ہے بلکہ آج کی سرمایہ داری میں کام کے سخت اوقات کار اور کمتر معیار کی غذا کی علامت ہے۔ بہت سے امریکی خاندانوں کو اس کا براہ راست تجربہ ہے۔ نہ صرف بحیثیت صارف بلکہ ہر دسویں امریکی مزدور کو اس شعبے میں کام کا تجربہ بھی ہے۔ یہ ملک میں سب سے بڑی نجی آجر ہے اور مزدوروں اور صارف کے بے رحمانہ استحصال کے حوالے سے مشہور ہے۔

ان سالوں میں فاسٹ فوڈ نے نہ صرف گلی کوچوں بلکہ امریکی شہریوں کی زندگیوں پر بھی غلبہ پا لیا۔ خاص طور پر اس صنعت کی سکولوں تک رسائی بہت نقصان دہ تھی۔ چونکہ سکول تعلیم کی جگہ ہے اس لیے طلبا کو اس بات پر قائل کیا گیا کہ انہیں یہی غذا کھانی چاہئے۔ تعلیمی اخراجات میں کٹوتی کی وجہ سے درسگاہیں ان سپانسروں کو مسترد بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ یہ نجی سپانسر ز طلبا کے لیے تعلیمی نصاب بھی تیار کرتے ہیں۔ ہم اس نصاب کے مواد کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ حال ہی میں میکڈونلڈ کو نرسری سکولوں میں بھی رسائی دے دی گئی ہے۔

زندگی کو فاسٹ فوڈ کی طرف راغب کرنے کی بنیاد مقداری معاشیات ہے جس کا مطلب غذا کی یکسانیت ہے۔ سرمایہ داری سے قبل ہر علاقے کی اپنی غذائی پہچان تھی۔ دوسری چیزوں کی طرح، زبان، لباس اور غذائی عادات میں بھی سرمایہ داری نے یکسانیت متعارف کی ہے۔ پہلے پنیر کے ہزاروں اقسام ہوتے تھے، پھر سینکڑوں اور پھر درجن تک محدود ہو گئے۔ آج فاسٹ فوڈ کی عملداری میں آپ ایک قسم کی غذا دنیا کے کسی بھی حصے میں کھا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے غذائی پیداوار کو یکسر تبدیل کیا گیا۔ اب فطرت اور کھانا پکانے کی مہارت کی کوئی جگہ نہیں بلکہ صرف کیمسٹری کی اہمیت ہے۔

حالات کار اور غذا کے معیار کی ابتری کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے صنعت نے خوراک کی مقدار بڑھا دی جو لوگوں کی صحت کے لیے نقصان دہ تھی۔ مشہور فلم’Super Size Me‘ میں درست طریقے سے اس حقیقت کو دکھایا گیا ہے۔

امریکی شہریوں کی بدلتی ہوئی جسمانی ہئیت فاسٹ فوڈ کی صنعت کی کامیابی کی غماز ہے۔ دہائیوں پر محیط فاسٹ فوڈ کے غلبے سے اب امریکی مزدور اپنے ہی وزن کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ حقیقتاً امریکی دنیا میں سب سے زیادہ موٹاپے کا شکار ہیں۔ دو تہائی آبادی زیادہ وزن اور 20 فیصد موٹاپے کا شکار ہے۔ یہ اعدادو شمار پچھلے تیس سالوں میں دو گنے ہو گئے ہیں اور ذیابیطس کی وبا کی طرح اپنے مضر اثرات کے ساتھ یہ رجحان جاری رہے گا۔ لگ بھگ تیس لاکھ امریکی شہری ہر سال موٹاپے سے منسلک بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ یہ پینٹاگان کے لیے بھی مسئلے کا باعث ہے، کیونکہ، ’’20 فیصد بھرتی شدہ مرد اور 40 فیصد خواتین زیادہ وزن کی وجہ سے فوجی عہدے پر رہنے کے اہل نہیں۔‘‘

موٹاپا پچھلی چند دہائیوں کے دوران امریکی سرمایہ داری کے بنیادی رجحانات کی وجہ سے ہے۔ بالخصوص، حقیقی اجرتوں میں کمی کی وجہ سے نہ صرف والدین کو زیادہ کام کرنے پر مجبور کیا گیا جس سے انہیں گھر میں صحت مند غذا تیار کرنے کا وقت نہیں ملا، بلکہ سکولوں کی فنڈنگ میں کٹوتی کی وجہ سے انہیں اچھے معیار کے کھانوں کی بجائے فاسٹ فوڈ پر انحصار کرنا پڑا۔ فاسٹ فوڈ کے غلبے کی ایک وجہ غربت بھی ہے۔ 50 فیصد امریکی بچوں کو اپنے بچپن کے کسی نہ کسی مرحلے پر غذائی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ امداد کی مد میں ملنے والے پیسوں سے اچھی خوراک نہیں خریدی جاسکتی۔

فاسٹ فوڈ کی صنعت نے ہر ممکنہ طریقے سے جارحیت جاری رکھی۔ انہوں نے موٹاپے کی وبا کی ’سائنسی‘ طریقے سے ’جینیاتی‘ وجوہات پیش کیں جو انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ بڑے پیمانے کی موٹاپے کی وبا ایک حالیہ مظہر ہے۔ اس کے علاوہ کم کاربوہائیڈریٹ والی غذاؤں کی حوصلہ شکنی کی گئی کیونکہ وہ فاسٹ فوڈ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہمیں پہلے یہ پتا ہوتا تھا کہ کونسی غذا ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔ جدید میڈیکل سائنس کے آغاز سے 1960ء تک تمام محققین اس بات پر متفق تھے کہ فاسٹ فوڈ میں موجود اجزا انسان کو موٹا اور بیمار کر دیتے ہیں۔ پھر جب فاسٹ فوڈ غذائی صنعت پر غلبہ حاصل کرنے لگا تو سائنسدانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے موقف کو تبدیل کریں اور فاسٹ فوڈ ریستورانوں میں بڑے پیمانے پراستعمال ہونے والی سیریلز اور سوڈا کے حق میں جواز تراشے گئے۔ دوسرے شعبوں کی طرح یہاں بھی ڈی ریگولیشن کے ذریعے منافع کے حصول کا عمل شروع ہوا۔ وفاقی اداروں کو ہٹا کر دنیا کی غذائی فراہمی کا اختیار نجی شعبے کو دے دیا گیا۔

ثقافتی شعبے میں اس صنعت نے ایک عیارانہ نظریاتی تبلیغ شروع کی۔ غریبوں کو ہدف بنا کر، جو اس سے سب سے زیادہ متاثر تھے، بسیار خوری کو پروان چڑھایا گیا، ’’موٹاپا خوبصورتی ہے۔‘‘ اس سوچ کو تقویت دی گئی کہ خوش رہنے کے لیے چست اور تندرست ہونے کی ضرورت نہیں۔ فاسٹ فوڈ میں سیچوریٹڈ فیٹس اور شوگر زیادہ ہونے کی وجہ سے منشیات کی طرح ان کی عادت پڑ جاتی ہے۔ بڑے پیمانے کی غربت کے ادوار میں انہیں ’غذائی افیون‘کے طور پر استعمال کیا گیا۔ چونکہ والدین کے پاس بچوں کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے اس لیے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے وہ بچوں کو ہر سستی چیز کھانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کو یہ پروپیگنڈا بھی روکتا ہے کہ بچوں کو کھانے کے معاملے میں ٹوکنا نہیں چاہئے۔ جو کچھ وہ کھانا چاہیں کھانے دو۔ بڑی بجٹ کے اشتہاری مہم کے ذریعے تباہ کن غذائی کھپت کے طریقہ کار کو لوگوں پر حاوی کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں صحت مند غذا کو پروان چڑھانے کے لیے بجٹ کی رقم مضحکہ خیز تھی۔ یہ اشتہارات اس وجہ سے بھی خطرناک تھے کہ ان کا ہدف بچے تھے۔ اس شعبے کی لابنگ کا کوئی ثانی نہیں۔ جب بچے موٹے ہوئے تو ان کے لباس کی پیمائش بھی بڑھ گئی اورتفریح کی صنعت نے موٹے ریپرز(Rappers) کو فروغ دینا شروع کیا۔ لوگوں کو صحت مند بنانے کی بجائے دنیا کو موٹا ہو نے کی ترغیب دی گئی۔

F.A.O کی رپورٹ

جیسا کہ ہم نے کہا کہF.A.O (اقوام متحدہ کا خوراک اور زراعت کا ادارہ) نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں دنیا کو کیڑے مکوڑے کھانے کے لیے کہا گیا۔ اس سوچ کے فروغ کے لیے ایک ویب سائٹ بھی تیار کی گئی ہے۔ 2008ء میں انہوں نے ایک میٹنگ کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں کیڑے مکوڑے کھانے کے فوائد کی وضاحت کی گئی۔ اس کی منطق واضح ہے۔ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ قابل کاشت زمین شہروں کے پھیلاؤ کی وجہ سے کم ہو رہی ہے۔ سمندروں میں بڑے پیمانے پر شکار کیا گیا ہے اور ماحولیاتی تبدیلی روایتی کاشتکاری کو روک رہی ہے۔ ’’انہیں کیڑے کھانے دو‘‘ یہ میری اینٹونیٹ (Marie Antoinette) کے غذائی مشورے کا تسلسل ہے۔ فرانس کی شہزادی نے تو کیک کھانے کو کہا تھا لیکن آج کا حکمران طبقہ کیڑے مکوڑے کھانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا چند صدیوں میں کتنی بگڑ گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:

دنیا میں 1900 اقسام کے خوردنی کیڑے ہیں جن میں سے سینکڑوں آ ج بھی بہت سے ممالک میں غذا کا حصہ ہیں۔ در حقیقت دو ارب لوگ باقاعدگی سے مختلف اقسام کے کیڑے پکاکر یا خام حالت میں کھاتے ہیں۔ عام گوشت کی طرح ان کی اکثریت میں پروٹین، فائبرز، گُڈ فیٹس اور اہم نمکیات پائی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مصنفین لکھتے ہیں، ’’ غذائی نکتہ نظر سے کیڑے کھانے سے عمومی نفرت کا کوئی جواز نہیں۔ ‘‘اس کے علاوہ گائے، سُور اوربکریوں کے مقابلے میں کیڑے مکوڑوں کی پرور ش کے لیے کم زمین کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیڑے مویشیوں کے مقابلے میں خوراک کو زیادہ مؤثر انداز میں پروٹین میں تبدیل کر تے ہیں یعنی اُنہیں خوردنی مواد بنانے کے لیے کم تر خوراک کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ عام مویشیوں کے مقابلے میں کم تر گرین ہاؤس گیسیں خارج کر تے ہیں کیونکہ وہ سرد خون والے جانور ہیں۔ یقیناًاُنہیں فضلہ ختم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہی اُن کی خورا ک ہے۔ اس کے علاوہ کیڑے مکوڑے پالنے سے روزگار اور آمدنی کے نئے ذرائع بھی پیدا ہو تے ہیں۔ بالخصوص استوائی ممالک میں جہاں خوردنی کیڑوں کی اکثریت پا ئی جا تی ہے۔ دراصل کیڑے مکوڑوں کی زیادہ تر کھپت گرم علاقوں میں ہو تی ہے کیونکہ استوائی علاقوں کے کیڑے زیادہ بڑے، بڑی تعداد میں اور سارا سال پا ئے جا تے ہیں۔ یہ بات ترقی پسندانہ لگتی ہے۔ غریب کسان جینیاتی طور پر تبدیل شدہ غذا کاشت کر نے کی بجائے کیڑے مکوڑوں کی پرورش کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ صنعتی تنصیبات کے پہلومیں کیڑے مکوڑوں کے بڑے بڑے فارم بنائے جائیں۔ ان کیڑوں کو فضلے کھلائے جائیں گے جن کو یہ حیوانی پروٹین میں تبدیل کر دیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کیڑے پہلے سے ہی مغربی خوراک جیسے فرانسیسی اور اطالوی پنیر کا حصہ ہیں۔ کیلیفورنیا اور فرانس میں کچھ ریستورانوں میں بھی کیڑے دستیاب ہیں۔ کچھ کمپنیاں کیڑے مکوڑوں سے بنی غذا فروخت کرتی ہیں۔ 1996ء میں چینی حکام نے درجنوں ایسی غذائی اجناس کی منظوری دے دی جن کے اجزا میں چیونٹیاں شامل تھیں۔ جب تک کیڑوں کی کھپت جاری رہے گی تب تک سب کچھ ٹھیک ہے۔

عام طور پرجب معاشی یا مادی طور پر کوئی اور چیز دستیاب نہ ہوں تو ہر جگہ کیڑے مکوڑوں کو ایمرجنسی غذا کے طور پر استعمال کیا جا تا ہے۔ تھائی لینڈ جیسے ملک میں جہاں انہیں پکوان کا درجہ حاصل ہے وہا ں پر بھی یہ خوراک کا بہت معمولی حصہ ہو تے ہیں۔ مثلاً چین میں جہاں لاروا اور پیوپا عمومی طور پر کھایا جا تا ہے، لو گ جیسے جیسے امیر ہو تے ہیں وہ یہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ غریب لوگ ہی کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں۔ عوام اس بات کو ایف اے او سے زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔

اگر ہم کیڑے مکوڑوں کی اپنی خوراک کا جائزہ لیں تو یہ کھانے کے قابل ہی نہیں ہے کیونکہ غذائی قوانین عام طور پر فضلے اور گندگی سے جانوروں کی پرورش سے منع کرتی ہیں لیکن دراصل انہی چیزوں پر تو کیڑے مکوڑے زندہ رہتے ہیں اور ایف اے او کی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسی تحقیق بھی موجود نہیں ہے کہ کیڑے مکوڑے کس طرح کیمیائی مرکبات جیسے کیڑے مار ادویات یا دوسری ملنے والی خوراک کو رفع کر تے ہیں۔

آخر میں ایف اے او انسانوں کو کیڑے مکوڑ ے کھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ دراصل وہ یہ کہہ رہا ہے کہ چونکہ ہم غریب تر ہوتے جارہے ہیں اس لیے ہمیں اپنی غذا کو بھی اپنی حالت سے مشابہ بنا نا چاہیے۔ یہ تجویز واضح کر تی ہے کہ عالمی سطح پر قحط کا مقابلہ کر نے کے لیے پچھلے ساٹھ سال سے قائم ادارے بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ حقیقت میں ایف اے او نے 2006ء میں اعتراف کیا کہ 2015ء تک بھوک کے مارے انسانوں کی تعداد کو نصف کرنے کا ہدف ناقابل حصول ہے۔ یہ بحران (2008ء) سے پہلے کی بات ہے۔ آج بھوک سے متاثرہ لوگوں کی تعداد 1990ء سے بھی زیادہ ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے نہیں بلکہ غریب ممالک پر لاگو کی گئی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے۔ دوسرے لفظوں میں اس تجویز کا مطلب یہ بھی ہے کہ غریب کسانوں کی حالت زندگی کو بہتر کرنے اور غذائی پیداوار کے مسئلے کو حل کر نے کی بجائے، ایف اے او یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ایک ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہمیں اپنی خوراک نالیوں سے ڈھونڈنا پڑے گا۔

کیا ہمیں اس کی ضرورت ہے؟

چیونٹیاں کھانے کے خلاف سب سے فیصلہ کن دلیل یہ ہے کہ ہمیں یہ سب کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اول تو غذا کی طلب اور رسد ہم آہنگ ہے۔ زراعت کابڑا حصہ پسماندہ طریقوں پر رائج ہونے کے باوجود اب بھی روایتی فصلوں کی پیداوار 1فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے جو آج کی آبادی کی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔ غریب کسانوں کو جدید طریقہ کار سے آراستہ کر کے دہائیوں تک پیداوار کو بڑھایا جا سکتاہے۔ اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ 50 فیصد غذا کو ضائع کر دیا جا تا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ اُنہی کیڑوں کی خوراک بنتی ہے جن کو ہمیں کھانے کی ترغیب دی جا تی ہے۔

ایک اور طریقہ جس سے پیداوار کو بڑھا کر اربوں نئے انسانوں کو غذا دی جا سکتی ہے، آبپاشی ہے۔ سیراب کی ہو ئی زمین سے زیادہ غذا پیدا ہو تی ہے۔ چونکہ زمین کا زیادہ تر حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے، اس لیے اصل مسئلہ اس کو محفوظ کر نا اور دوبارہ استعمال کے قابل بنا نا ہے کیونکہ انسانی استعمال کے قابل تازہ پانی کا 70 فیصد زراعت میں صرف ہو جا تا ہے۔ آبی ذخائر کے اُوپر جنم لینے والے سفارتی تنازعات کی بجائے تعاون اور ذخائر کی عالمی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داری کے تحت مستقبل میں حالات اس سے بھی بد تر ہونگے اور آبی ذخائر کے تصرف پر جنگیں بھی ہوں گی۔ ہزاروں سال پہلے انسانی تہذیب پانی کے بنیادی ڈھانچے پر قائم ہو ئی تھی اور آج اسی وجہ سے ختم بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم پانی کی قلت فطری نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ داری اور اس کے کنٹرول کا سوال ہے۔

جیسا کہ تمام اعداد و شمار ظاہر کر تے ہیں کہ خوراک کی قلت ایک افسانہ ہے۔ یہ منافع کی ہوس ہے جو انسانوں کی بڑی تعداد کو بھوکے رہنے پر مجبور کر تی ہے۔ جاری سائنسی پیشرفت سے قطع نظر سائنسی طور پر آج بھی دس نہیں بلکہ بیس ارب انسانوں کو غذا فراہم کی جا سکتی ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم مختصراً متبادل کی بات کریں یہ ضروری ہے کہ ہم اُس چیز کی بھی بات کریں جو قطعاً متبادل نہیں ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں مقامی کسانوں اور صارفین کے درمیان لین دین کے بڑھنے کے ساتھ نامیاتی غذااور زیرو فوڈ مائلز والی غذاؤں کی فروخت بہت بڑھ چکی ہے۔ یہ غذائیں بہتر لیکن بہت مہنگی ہو تی ہیں لہٰذا بڑے پیمانے کی بیروزگاری اور کم اجرتوں کے دور میں یہ عام مزدور کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ سماجی نکتہ نظر سے یہ زراعت پر اجارہ داریوں کے غلبے کو چیلنچ نہیں کر تی۔

یہ صرف مصنوعات کا فرق ہے۔ جیسے گاڑیاں بنانے والے لگژری اور فیملی کار بیچتے ہیں۔ سپر مارکیٹیں نامیاتی اور غیر نامیاتی غذا بیچتی ہیں۔ پہلے ہی نامیاتی غذا بنانے والی کمپنیوں کو بڑی کمپنیاں اپنے اندر ضم کر رہی ہیں جس سے مضحکہ خیز انداز میں نامیاتی غذائیں آسانی سے دستیاب ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر شعبوں کے کوآپریٹو کمپنیوں کی طرح جب کوئی فرم سرمایہ دارانہ ماحول میں آگے بڑھتی ہے تو یہ اُنہی کے رنگ میں ڈھل جا تی ہے۔ اگر ایک نامیاتی غذا بنانے والا اس شعبے کے بڑے کھلاڑیوں کے برابر ہو تو ’’کاروباری اقدار‘‘ کے ضمن میں وہ ان سے مختلف نہیں ہوگا۔ جہاں تک ’’زیرو فوڈ مائلز‘‘ کا تعلق ہے تو عالمی تقسیم محنت کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک ملک کو عالمی منڈی سے الگ کیا جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ کون سا طبقہ عالمی سطح پر معیشت کو کنٹرول کرتا ہے۔ لہٰذا اگر خوراک پر بڑی اجارہ داریوں کے غلبے کو ختم کر نے کی کوششوں کو سراہا بھی جائے تب بھی چھوٹے پیمانے کی کاشت کاری کوئی حل نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گھوڑا کبھی بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی گاڑیوں کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔

سائنس کے میدان میں بڑے پیمانے پر اُمید افزا تحقیق موجود ہے۔ ان میں سے کچھ پہلی نظر میں افسانہ لگتے ہیں۔ لیکن وہ پہلے ہی مارکیٹ میں لانے کے قابل بن چکے ہیں۔ مثلاً ناسا ’’پرنٹڈ فوڈ‘‘ (Printed Food) پر تجربات کر رہی ہے تاکہ خلائی مشن پر موجود عملے کو خوراک فراہم کی جاسکے۔ سائنسدان مصنوعی خمیر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور مصنوعی گوشت تو پہلے ہی تیار کر لیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے نہ صرف جانوروں کو ذبح کرنے بلکہ اس سے منسلک خوفناک مضمرات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ ایک ٹیکنالوجی جو پہلے ہی زیر استعمال ہے وہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ غذا ہے۔

جینیاتی طور پر تبدیل شدہ غذا Genetically Modified Food

جی ایم غذائیں زراعت میں سب سے متنازعہ ایجاد ہے۔ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ایف اے او جیسی عالمی تنظیمیں یقینااس کے حق میں ہیں جبکہ بائیں بازو اور ماحولیاتی تحفظ کے کارکنان اس کے خلاف ہیں۔ یہاں مسئلہ صرف سائنس کا نہیں ہے۔ بحیثیت مارکسسٹ ہم جانتے ہیں کہ سائنس خلا میں جنم نہیں لیتی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سائنس کو کون کس سمت میں اور کیوں دھکیل رہا ہے۔ اب تک جی ایم غذائیں زراعت پر سرمایہ دارانہ غلبے کی خالص ترین پروڈکٹ ہیں۔ اس نظام میں جی ایم غذائی صنعت کا استعمال کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہوسکتا۔ حقیقتاً ہم مونسینٹو یا ایف ڈی اے، جس نے اسے کنٹرول کرنا ہے، پر کبھی بھی اعتبار نہیں کر سکتے۔ اگر بڑی کمپنیوں اور اُن کے منتظمین کو ان مصنوعات سے جنم لینے والے مسائل کا پتہ بھی ہو، تب بھی وہ ان کو چھپاتے ہیں۔ جس طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تمباکو، ایسبیسٹاس اور دوسری مصنوعات کے معاملے میں کیا بھی۔

خاص طور پر زرعی شعبے کے بہت سے معاملات میں حقائق کو دہائیوں تک چھپا یا گیا۔ جیسے مویشیوں میں پھیلنے والی Mad Cow Disease کی بیماری۔ سب سے پہلا کیس 1984ء میں سامنے آیا لیکن اس کے باوجود گائیوں کو جانوروں کی باقیات سے تیا ر کردہ خوراک کھلانے کا عمل حالیہ دنوں تک جاری رہا۔ اسی طرح ڈائیوکسن زدہ مرغیا ں اور پانی وغیرہ کے معاملات میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ہر دفعہ جب کوئی سکینڈل سامنے آتا تو اسے ایک استثنائی انفرادی واقعہ بنا کر پیش کیا جاتا اورکچھ عرصے بعد اخبارات کی شہ سرخیوں سے غائب ہو جا تا۔ اس معاملے میں جی ایم غذاؤں کے خلاف سرگرم کارکنان صحیح کہتے ہیں۔

جی ایم غذائی صنعت کسانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلام بناتی ہیں کیونکہ انہیں ہر سال نیا بیج خرید نا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کمپنیاں سستے بیجوں سے آغاز کر کے کسانوں کی ’’مدد‘‘ کرنے کے لیے اتنی بے چین ہیں۔ جس طرح ایک منشیات فروش سکول کے باہر کھڑے ہو کر پہلے پہل مفت میں منشیات تقسیم کر تا ہے۔ کسان مکمل طور پر ان کمپنیوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایف اے او، جو اس کی بھر پور حمایت کرتی ہے، خود کہتی ہے، ’’یہ مصنوعات ترقی یافتہ ممالک کی بڑی صنعتوں اور کسانوں کے لیے ہیں جس سے ترقی پذیر ممالک کے وسائل سے محروم کسان کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔‘‘ وہ اس حقیقت کو بھی اُجاگر کر تی ہے کہ بیج کی صنعت میں اجارہ داری اور منڈی کے ارتکاز کی وجہ سے کسانوں کے انتخاب اور کنٹرول ختم ہو جاتے ہیں جس سے انہیں ہر بار بیج کی زیادہ قیمت ادا کر نا پڑتی ہے۔ صرف ایک کمپنی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ کپاس کی منڈی کا 80 فیصد اور سویا بین کا 30 فیصد کنٹرول کر تی ہے۔ اگر کسی کے پاس پیسے نہیں تووہ یہ بیج استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ جملہ حقوق محفوظ ہیں۔

عالمی اور ملکی حکام نے جس طرح غذاؤں اور حتیٰ کہ جینز کے حقوق فروخت کیے ہیں اس سے اشیا میں خوفناک بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ ڈائمنڈ اور چکربرتی کے بد نام زمانہ کیس کے بعد امریکی حکام نے یہ فیصلہ دیا کہ ایک زندہ جسم کو بھی نجی طور پر ملکیت میں رکھا جاسکتا ہے۔ جس سے بڑی زرعی کمپنیوں نے بڑی گرم جوشی سے بیجوں کے حقوق حاصل کر لیے۔ نتائج تباہ کن ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ کسی بھی کمپنی کو اپنے بیج فروخت کرنے میں براہ راست دلچسپی ہو تی ہے۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ اگر جینیاتی تبدیلی کا یہ عمل جانوروں تک پھیل گیا تو حیاتیاتی تنوع مزید کم ہوگی۔ یہ ایک دلچسپ نکتہ ہے کہ حیاتیاتی تنوع، جو فطرت کی بنیادی خاصیت ہے، سرمایہ داری سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مجموعی طور پر، جب تک پوری معیشت کو محنت کشو ں کے کنٹرول میں نہیں لایا جاتا، اُس وقت تک جی ایم غذائی صنعت کوئی حل نہیں بلکہ خود ایک مسئلہ ہے۔

دوسری طرف اس بات پر یقین کرنا بہت بڑی نادانی ہوگی کہ جی ایم صنعت کی مخالفت کر نے والے ممالک ماحول دوستی کی وجہ سے یہ سب کر رہے ہیں۔ یہ در اصل ایک تجارتی جنگ ہے۔ جی ایم ایف کی ٹیکنالوجی زیادہ تر امریکی ملکیت میں ہے۔ جغرافیائی طور پر ان کا استعمال بہت محدود ہے۔ اس کی 99 فیصد پیداوار چار ممالک تک محدود ہے۔ 69 فیصد پیداوار صرف امریکہ میں ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے یورپی یونین جی ایم غذاؤں کے خلاف ہے۔ کیونکہ یورپی کمپنیاں حقوق اور دستیاب زمینوں کے زمرے میں مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی صحت کی قیمت پر منافع حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتے۔ اس لیے انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا۔ Mad Cow Disease کا معاملہ انکے حقیقی رویوں کی صحیح عکاسی کر تا ہے۔ ہم نہ بڑی امریکی کمپنیوں اور نہ ہی اُن کے چھوٹے یورپی مد مقابل پر اعتبار کر سکتے ہیں۔ مسئلہ جی ایم غذاؤں کے محفوظ ہونے یا نہ ہونے کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بڑی اجارہ داریاں خوراک کو منافع خوری کا ذریعہ بناتے رہیں گے تب تک انسانیت محفوظ نہیں ہے۔

صحت مند غذا کے لیے مزدوروں کا کنٹرول

غذا کی پیداوار اور تقسیم کو تبدیل کر نے کے لیے سماج کو مجموعی طور پر تبدیل کر نا ہوگا۔ ہم ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں خوراک کی اجارہ داریوں کے خلاف کسانوں اور مزدوروں کی اُبھرنے والی تحریکوں کا خیر مقدم کر تے ہیں تاہم صرف مزاحمت کافی نہیں۔ نہ ہی ہم ہر نئی تکنیکی ترقی کو انسانوں کے خلاف سازش سمجھتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ روایتی کاشتکاری کے طریقہ کار سے بھی استحصال اور ظلم جاری رہتا ہے۔ سرمایہ داری ہماری زندگیوں اور ماحول کو بر باد کر رہی ہے۔ نامیاتی غذا جیسے آدھے حل سے کچھ نہیں ہو گا۔

سائنس انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ معیشت اور سائنسی تحقیق کس کے کنٹرول میں ہے۔ غذائی صنعت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی موجودگی سے معروضی طور پر وہ مواقع پیدا ہوگئے ہیں کہ عالمی سطح پر زمین کے ذخائر کو معقول اور ہم آہنگ طریقے سے ترتیب دیا جا سکے۔ موجودہ اور آئندہ کی ٹیکنالوجی نے نئے لا محدود امکانات پیدا کیے ہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ دنیا سے بھوک کا خاتمہ کر کے ہر کسی کو مناسب غذا دینا ممکن ہے اور بیماریوں کے شکار لوگوں کی غذا تبدیل کی جا سکتی ہے۔

تاہم جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی نجی ملکیت میں رہیں گے وہ اُنہیں اربوں انسانوں کی زندگی اور صحت سے قطع نظر اپنے منافع کے لیے استعمال کر تے رہیں گے۔ اُنہیں نہ تو ہماری اور نہ کیمیائی مواد اور جینیاتی انجینئرنگ کے غذائیت پر اثرات کی فکر ہے۔

محنت کشوں کے کنٹرول کے بغیر ٹیکنالوجی اپنے تیءں کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔ ہمیں نہ صرف ایگروکیمیکل کمپنیوں بلکہ تقسیم کے نیٹ ورک اور سپر مارکیٹس وغیرہ کو بھی قومیانہ ہوگا۔ معاشی ضرورتوں کے تمام شعبوں کی طرح غذ ا کے شعبے میں بھی منافع کے محرک کو ختم کر کے اُس کی جگہ مزدوروں کی فلاح کا محرک لانا ہوگا۔ عوامی ملکیت اور جمہوری منصوبہ بندی کے ذریعے ہی کرۂ ارض کے اربوں انسانوں کو، ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے، غذا فراہم کی جا سکتی ہے۔

عالمی بینک نے 1986ء کے اپنے رپورٹ میں پہلے ہی کہہ دیا تھا،

’’دنیا میں کافی غذا موجود ہے۔ عالمی غذائی پیداوارمیں اضافہ پچھلے چالیس سالوں کی آبادی میں بے نظیر اضافے سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن بہت سے غریب ممالک اور کروڑوں غریب لوگ اس غذائی افراط سے محروم ہیں۔ قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے وہ غذائی کمی کا شکار ہیں۔‘‘

یہی سرمایہ داری ہے جو اُس وقت سے اب تک زیادہ تبدیل نہیں ہو ئی ہے۔ کیڑے مکوڑے کھانے کی تجویز کا مطلب یہ ہے کہ انسان سرمایہ داروں کے آگے جھک جائے۔ ہمیں بھوک سے بچنے کے لیے کیڑے کھانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں کیڑوں کی طرح جینے کی بجائے سرمایہ داری کو ختم کرنا ہوگا!

Translation