Urdu

’’جرنیلوں نے جب فوجی کُو کرنا ہوتا ہے تو میڈیا پر باقاعدہ اعلان کے بعد کور کمانڈروں کی میٹنگ اور پھر پریس ریلیز جاری نہیں ہوا کرتی۔ ۔ ۔‘‘

ISIL کی جانب سے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ’’خلافت‘‘ کے نفاذ اور کرد انتظامیہ کی طرف سے کردستان میں ریفرنڈم کے اعلان کے بعد عراق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ممکنہ جغرافیائی تقسیم کا تناظر زیادہ واضح ہوگیا ہے۔ مسلح جنگجوؤں کی نسبتاًچھوٹی تعداد کے ہاتھوں عراق کے بڑے علاقوں پر تیزی سے قبضہ کرنے سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ شمال میں موصل جیسے شہروں پر قبضہ کرنے والے گروپوں پر عراقی مسلح افواج کوبہت زیادہ عددی برتری حاصل تھی لیکن عراقی فوج ہوامیں اڑ گئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ گہرائی میں کچھ ہو رہا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ انتخابات نے پورے براعظم کے سیاسی منظرنامے کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ فرانس، یونان اور بر طانیہ جیسے ممالک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹیوں نے بڑی فتوحات حاصل کی ہیں جس کی وجہ سے بڑی سیاسی پارٹیوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی ہیں۔ یہ موقف مکمل طور غلط ثابت ہو چکا ہے کہ یہ الیکشن دائیں بازو اور یہاں تک کہ فاشزم کی طرف جھکاؤ کا اظہار کررہے ہیں۔

15جون بروز اتوار کی صبح شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں سینکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ کاروائی کا آغاز فضائی حملوں سے کیا گیا۔ 18 جون کو آنے والی خبروں کے مطابق عسکریت پسندوں کے 60 فیصد ٹھکانے تباہ کر دئیے گئے ہیں جبکہ علاقے کے 40 فیصد حصے پر فوج نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ آپریشن کی فوری وجہ کراچی ایئرپورٹ پر ازبک دہشت گردوں کے حملے کو قرار دیا جارہا ہے۔ اس حملے کے بعد ریاست کے حاوی حصوں کی جانب سے راست قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری بیانات جو بھی ہوں گرین سگنل عسکری قیادت نے ہی دیا۔ عسکری قیادت کی جانب سے جمودتوڑنے کا فیصلہ کرنے کی بنیادی وجہ فوج

...

کراچی ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ایک عرصے سے دہشت گردی کا ناسور ایک معمول بن کر اس سماج میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس دہشت گردی کی کئی اقسام ہیں۔ ظاہری مقاصد اور تراکیب بھی مختلف ہیں۔ لیکن کراچی سے لے کر خیبر تک ہونے والی دہشت گردی میں ایک قدر بہر حال مشترک ہے: کاروائیاں کروانے والوں کی مسلسل اور بھاری سرمایہ کاری۔ ان بھاری رقوم کو دہشت گردی پر صرف کر کے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرنے والوں کے مقاصد سمجھے بغیر اس بربریت کی اصل وجوہات تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ بیماری کی تشخیص کے بغیر اس کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔

نریندرا مودی کی جانب سے حلف برداری کی تقریب پر میاں نواز شریف کو دی جانے والی دعوت، میاں صاحب کی قبولیت اور راشتریا بھون پہنچ جانے کے واقعات کو علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر غیر معمولی کوریج تو ملی ہے لیکن یہ سارے اقدامات اور واقعات بحث وتکرار اور تنازعات کا باعث بھی بنے ہیں۔

مریکیوں کے خوراک سے متعلق خراب رویوں کا شورتو بہت مچایا جاتا ہے لیکن ان رویوں کے اسباب پر بات نہیں ہوتی۔ مارکس نے واضح کیا تھا کہ حالات شعور کا تعین کرتے ہیں۔ آپ کا مادی اور سماجی ماحول آپ کے انتخاب کے حدود کا تعین کرکے چیزوں کی پسند و نا پسند کا فیصلہ کرتا ہے۔ زیادہ تر امریکیوں کے لیے خوراک کا انتخاب آمدن، وقت، دستیابی، تشہیر اور آس پاس رہنے والے انسانوں کے سماجی معیار پر منحصر ہے۔ انفرادی خواہشوں کا انحصار بھی سماجی اور ثقافتی روایات پر ہوتا ہے، جن کا تعین مادی حالات کرتے ہیں۔ اگر تمام انسان سائنسی طورپر تیار کردہ سستی اور نمکیات، چربی اورنشاستہ کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے والی غذا خرید سکتے ہوں تو آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی ’’مرضی‘‘ کیا ہوگی؟

عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کی بڑے پیمانے پر فتح اور دائیں بازو کے پاپولسٹ سیاسی رہنما کے طور پر نریندرا مودی کے ابھار نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں لبرل اور سیکولر دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو حیران و پریشان کردیا ہے۔ یہ حضرات امید لگائے ہوئے تھے کہ شاید انتخابات کے نتائج کارپوریٹ میڈیا کی پیشین گوئی سے مختلف ہوجائیں لیکن BJP نے نہ صرف لوک سبھا میں گزشتہ کئی دہائیوں کی سب سے بڑی اکثریت حاصل کی ہے بلکہ کانگریس کے کئی سینئر رہنماؤں کو بھی خاک چاٹنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ کانگریس کی شکست میں اگرچہ کرپشن اور مہنگائی جیسے عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے تاہم BJP کی فتح کی وجوہات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہیں۔

ترکی کے شہر سوما میں کوئلے کی کان میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کی تعداد 274 ہوگئی ہے جبکہ 100 سے زائد مزدور تاحال زیر زمین پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ حادثہ ترکی میں گزشتہ ایک دہائی کی نام نہاد ’’معاشی ترقی‘‘ میں پوشیدہ بدترین استحصال کی صرف ایک جھلک ہے۔ ترکی کے عوام اس وقت شدید صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ میڈیا پر ہلاک ہونے والے محنت کشوں کی لاشوں کی فوٹیج چلنے کے بعد عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت حادثے کی جگہ پر امدادی کارکنان کے علاوہ سینکڑوں محنت کش آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ جمع ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کل پیپلز پارٹی قیادت نواز شریف کی تعریفوں کے پل باندھنے کے لئے کسی موقع کی تلاشِ مسلسل میں مصروف رہنے لگی ہے۔ 12 مئی کو پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جاری رکھنے کے اقدام کو نواز شریف کا عظیم کارنامہ قرار دیا ہے۔ یہ سیاستدان بھی کیسے بھلے مانس ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ خارجہ پالیسی کا تعین کہیں اور ہوتا ہے، ایک دوسرے کو کبھی لعن طعن تو کبھی مبارک بادیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ ریاست، سیاست اور معیشت کے ایسے کلیدی فیصلے سیاسی حکمران نہیں بلکہ مالیاتی سرمائے کے حاوی دھڑے اور سامراجی آقا کرتے ہیں۔

قدر کیا ہوتی ہے؟ انسانی ذہن 2000 سے زائد برسوں سے اس سوال میں الجھا ہوا ہے۔ کلاسیکی بورژوا ماہرین معیشت اور مارکس اس سوال کو حل کرنے کی جستجو کرتے رہے۔ بہت غور و فکر کے بعدانہیں درست طور پر سمجھ آ گیا کہ محنت ہی قدر کا ماخذ ہے۔ قدر کی یہی تھیوری بورژوا سیاسی معیشت کی بنیاد بنی، جس کا آغاز ایڈم سمتھ سے ہوتا ہے۔ اس سوال پر مارکس اور کلاسیکی بورژوا ماہرین معیشت میں اتفاق پایا جاتا ہے۔

آج کل برصغیر پاک و ہند میں مذہب کے ٹھیکیداروں اور قومی شاونسٹوں کی خوب چاندی ہورہی ہے۔ ہندوستان میں نریندرا مودی پاکستان دشمنی کو جواز بنا کر ہندو بنیاد پرستی اور بھارتی نیشنل ازم کی آگ اگل رہا ہے تو پاکستان میں عمران خان، حمید گل اور حافظ سعید جیسے حضرات، جواب میں ’’قومی غیرت‘‘ کے نام پر مذہبی جنون، تعصب اور نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں ہی منافرت پھیلانے والے ان قدامت پرست عناصر کا مقصد عوام کے ذہنوں پر رجعت مسلط کر کے اپنی سیاسی طاقت اور مال میں اضافہ کرنا ہے۔

اس سال یوم مئی ایک ایسی نیم مذہبی سرمایہ دارانہ حاکمیت میں منایا جارہا ہے جو محنت کشوں پر معاشی حملوں کی انتہا کررہی ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پورا کرہ ارض شدید انتشار اور تلملاہٹ سے لرز رہا ہے۔ ایک عہد کی کوکھ سے دوسرا عہد جنم لے رہا ہے۔ 2014ء کا یوم مئی محنت کش طبقے اور نسل انسانی کے مقدر کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ رجعت کے ایک ایسے گھناؤنے دور کا اختتام ہورہا ہے جس میں تمام بنیادی انسانی قدریں پامال ہوکر رہ گئی تھیں۔

کرہ ارض پر کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری سماجی انتشار، بھوک، غربت، جہالت اور اخلاقی پستی کا سبب نہ بن رہی ہو۔ ایسی صورتحال میں محنت کش طبقہ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے بارہا روایتی سیاسی پارٹیوں کو ٹھوکر مار کر تاریخ کے میدان میں اترتا رہا ہے لیکن کسی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یہ تحریکیں وقتی طور پر پسپائی کا شکار ہو رہی ہیں۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ ’’انسانی سماج کی تمام تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔‘‘ حکمران طبقہ مختلف حیلے بہانوں سے کبھی ملکی سالمیت اور حب الوطنی کا واسطہ دے کر تو کبھی مذہبی تعصب اور قومیت کے نعروں سے محنت کش طبقے کو تقسیم کر کے کچلتا ہے مگر پھر تاریخ میں وہ

...

گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہونیوالی احتجاجی تحریک اپنے فوری مطالبات سے آگے بڑھ کرسول نافرمانی اور انقلابی بغاوت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ گلگت کے گڑی باغ چوک اور سکردو کے یادگار چوک (جسے مظاہرین نے تحریر اسکوائر کا نام دیا ہے) میں ہزاروں افراد گزشتہ دو ہفتوں سے گندم کی سبسڈی میں خاتمے کے ساتھ ساتھ مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، ریاستی جبر اور استحصال کے خلاف دھرنا دئیے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ اس دھرنے میں شامل ہورہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی نظام کا عروج ہو یا زوال، حکمران اس کی قیمت محکوم طبقے سے ہی وصول کرتے ہیں۔ آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی تین سو سالہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا کوئی طریقہ اس نظام کے معیشت دانوں کے پاس نہیں ہے۔ تیسری دنیا کے سابق نو آبادیاتی ممالک میں آبادی کی وسیع اکثریت کو مغرب کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کا بلند معیار زندگی نصیب نہیں ہوا۔ لیکن یورپ اور امریکہ میں بھی وہ مراعات اور سہولیات محنت کش طبقے سے چھینی جارہی ہیں جو انہوں نے کئی صدیوں کی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں۔

حالیہ دنوں میں خوراک اور زراعت کی تنظیم (FAO) نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں یہ دلچسپ خیال پیش کیا گیا کہ ’’ دنیا کو کیڑے کھانے پر قائل کیا جائے تاکہ بڑے پیمانے کی بھوک سے بچا جا سکے۔‘‘حقیقتاً آج لوگوں کو کیڑے کھلائے بغیر ان کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ’مارکیٹ ‘ یعنی سرمایہ داری ہے۔

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں سیاست کے ناخداؤں اور معیشت کے ماہرین کے پاس معاشی شرح نمو میں اضافے کے لئے بیرونی سرمایہ کاری یا فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (FDI) کا نسخہ ہی بچا ہے۔ سماج کے سب کے اہم پہلو، یعنی معیشت کے بارے میں سیاسی افق پر مسلط تمام سیاسی جماعتوں کی پالیسی مشترک ہے۔ لبرل اور سیکولر سیاستدان ہوں، شریعت کے نفاذ کی بات کرنے والی اسلامی پارٹیاں یا پھر دائیں بازو کے اصلاح پسند رجحانات، سب نیو لبرل سرمایہ داری، آزاد منڈی کی معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ عمران خان ’’ڈالروں کی بارش‘‘ کروانے کے چکر میں ہیں تو جماعت اسلامی جیسی مذہبی پارٹیاں امیر اسلامی ممالک کے متعلق العنان بادشاہوں اور آمروں سے ’’اسلامی سرمایہ کاری‘‘

...

ہندوستان ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بدعنوان ترین سیاست کے حوالے سے بھی مشہورہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت میں دولت کی طاقت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ امریکہ سے لے کر جنوبی افریقہ تک، تمام انتخابات پیسے کے بلبوطے پر لڑے جاتے ہیں اور اصل مقابلہ مالیاتی سرمائے کے مختلف جگادریوں کے درمیان ہی ہوتا ہے۔ آخری تجزئیے میں جیتتا ہمیشہ امیر ہی ہے اور شکست غریب کا مقدر بنتی ہے۔ یہی اس طبقاتی نظام کا دستور ہے اور اس سرمایہ دارانہ سماج میں رہتے ہوئے اس کے برعکس توقع کرنا محض خودفریبی اور دھوکہ دہی ہے۔