ترکی: 300 محنت کشوں کاقاتل طیب اردگان ہے

ترکی کے شہر سوما میں کوئلے کی کان میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کی تعداد 274 ہوگئی ہے جبکہ 100 سے زائد مزدور تاحال زیر زمین پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ حادثہ ترکی میں گزشتہ ایک دہائی کی نام نہاد ’’معاشی ترقی‘‘ میں پوشیدہ بدترین استحصال کی صرف ایک جھلک ہے۔ ترکی کے عوام اس وقت شدید صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ میڈیا پر ہلاک ہونے والے محنت کشوں کی لاشوں کی فوٹیج چلنے کے بعد عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت حادثے کی جگہ پر امدادی کارکنان کے علاوہ سینکڑوں محنت کش آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ جمع ہیں۔

 اب تک کی اطلاعات کے مطابق بجلی کے ایک ناقص ٹرانفارمر میں دھماکے کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ دھماکے کے بعد بجلی کی رسد منقطع ہونے سے نہ صرف ہوا کی سپلائی کا نظام بند ہوگیا بلکہ روشنی کا انتظام اور لفٹ بھی ناکارہ ہوگئی۔ دھماکے کے بعد بھڑکنی والی آگ سے صورتحال اور بھی بدتر ہوگئی۔ آج تمام دن امدادی کارکنان ،کان میں آکسیجن پمپ کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن تازہ کوئلے میں آکسیجن جذب کرنے کی خاصیت ہوتی ہے، لہٰذا پھنسے ہوئے محنت کشوں کے بچنے کے امکانات محدود ہیں۔ علاوہ ازیں آگ سے پیدا ہونے والی زہریلی گیس پھیلنے کی وجہ سے بھی امدادی کام میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

حادثہ اس وقت پیش آیا جب مزدور شفٹ تبدیل کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ بدھ کی صبح، دھماکے کے اٹھارہ گھنٹے بعد بھی شعلے بھڑک رہے تھے۔ کانکنی کے شعبے میں پیش آنے والا یہ ترکی کی تاریخ کا بدترین حادثہ ہے۔

اردگان کی منافقت

  حادثے کے بعد ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے، تاہم ترکی کے عوام اس رجعتی شخص کی منافقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ صرف دو ہفتے پہلے اردگان کی سیاسی جماعت (AKP)نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی طرف سے جمع کروائی جانے والی قراردار مسترد کی تھی جس میں سوما کے علاقے میں کانکنی کے حادثات کی تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

قراردار میں واضح طور پر درج تھا کہ ’’ہم مطالبہ کرتے ہیں سوما میں ہونے والے کانکنی کے تمام حادثات کی تحقیقات کی جائیں تاکہ وجوہات کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی اموات کے ذمہ داران کا تعین ہوسکے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔ اس کے علاوہ قانون کے نفاذ اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

29اپریل کو اپوزیشن کے ایک رہنما نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’2013ء کے سال میں سوما کے علاقے میں 5000 حادثات پیش آئے ہیں۔ 90فیصد حادثات کانوں میں ہوئے۔ زیادہ تر متاثرین آگ سے جھلس کر زخمی ہوئے تھے لیکن اس علاقے کے ہسپتالوں میں برن یونٹس ہی نہیں ہیں۔ ‘‘یاد رہے کہ ترکی میں کام کے دوران حادثوں میں مرنے والے محنت کشوں کی تعداد یورپی یونین سے 8.5 گنا زیادہ ہے۔ 2002ء سے 2013ء تک کام کی جگہوں پر آٹھ لاکھ سے زائد حادثات ہوئے جن میں 13442 مزدور ہلاک ہوئے۔ 2002ء میں حادثوں سے 872 اموات واقع ہوئیں جبکہ 2013ء میں مرنے والے محنت کشوں کی تعداد 1235 تک جاپہنچی ہے۔ اپوزیشن کی قرارداد کو اردگان حکومت نے یہ کہ کر مسترد کردیا کہ ’’یہ حادثات تو کانکنی کے پروفیشن کا حصہ ہیں۔‘‘

بدترین استحصال

سوما کے علاقے میں کام کرنے والے محنت کشوں کے مطابق سیفٹی کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حالیہ حادثے میں بچنے والے ایک محنت کش نے اپنے بیان میں کہا ’’کوئی بھی حادثہ اچانک نہیں ہوجاتا۔ ۔ ۔ ان اموات کی وجہ پیسہ ہے۔ ہمیں کام پر زبح ہونے والے بکروں کی طرح بھیج دیاجاتا ہے۔ ہماری حفاظت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ ‘‘ دوسرے محنت کشوں کے مطابق حادثے میں مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اس وقت کان میں بہت سے غیر مستقل یا دیہاڑی دار مزدور بھی موجود تھے جن کا ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔

جس کان میں دھماکہ ہوا ہے اسے 2005ء میں نجکاری کے ذریعے اردگان کے ایک قریبی عزیز کو بیچ دیا گیا تھا۔ کانکنی کی صنعت کی نجکاری کے بعد سے ترکی میں حادثات کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ کانکنی کی لیبر یونین (Turkish Labour Union of Mine Search and Enterprises) کے صدر تیفن گارگن کے مطابق ’’جوں ہی نجکاری کا عمل شروع ہوا حادثات بڑھنے لگے۔ لوگ انتہائی کم اجرتوں اور غیر قانونی طور پر کانوں میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ حفاظتی انتظامات کو پس پشت ڈال دیا گیا تاکہ لاگت میں کمی کی جاسکے۔ حکومتی انسپکٹر ان خامیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مالکان کا واحد مقصد منافع کمانا ہے۔ یہ حادثہ نہیں قتل عام ہے جس کے ذمہ دار انسپکٹر، وزراء کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم بھی ہے۔‘‘

مزدور رہنما کے اس بیان کی تصدیق سوما میں کام کرنے والی کمپنی ’’ایگیان‘‘ کے مالک الپ گرکان کے ایک انٹرویو سے ہوتی ہے جس میں اس نے بڑے فخر سے بتایا تھا ’’ہم نے فی ٹن کانکنی کی لاگت 140 ڈالر سے کم کر کے 23 ڈالر کردی ہے۔‘‘ موصوف کے مطابق ’’یہ نجی شعبے کی شاندار کارکردگی کا نتیجہ ہے۔‘‘ یہ بات بالکل واضح ہے آج سینکڑوں کی تعداد میں مرنے والے محنت کش دراصل اردگان حکومت کی نجکاری اور نیولبرل معاشی پالیسیوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔

مرنے والوں میں 15 سال کا ایک نوجوان کیمال یلڈیز بھی شامل ہے۔ اردگان حکومت نے کچھ عرصہ پہلے کام کی کم سے کم عمر 16 سال سے تبدیل کر کے 14 سال کردی ہے جس سے چائلڈ لیبر کا راستہ بھی کھل گیا ہے۔

’’یہ تو ہوتا رہتا ہے‘‘

 اردگان کے رویے میں ذرا سی شرمندگی یا افسوس بھی موجود نہیں ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد اس کی رعونت اور ڈھٹائی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ حادثے کے بعد سوما کے دورے کے دوران جب اردگان سے کانکنی میں محنت کشوں کے بدترین حالات اور حفاظتی انتظامات کی عدم موجودگی پر رائے طلب کی گئی تو اس کا جواب کچھ یوں تھا: ’’1838ء میں کان بیٹھ جانے سے 204 لوگ مرے تھے۔ 1866ء میں برطانیہ میں 361 کانکن ہلاک ہوئے۔ 1894ء میں 290 لوگ مرے۔ ۔ ۔ 1942ء میں چین میں 1549 کان کن جاں بحق ہوئے۔ ۔ ۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔‘‘ اردگان اس بات پر بضد تھا کہ سوما کی کانوں میں حفاظتی انتظامات بالکل مناسب ہیں۔ اردگان کے یہ الفاظ دراصل پورے سرمایہ دار طبقے کی نفسیات کی غمازی کرتے ہیں۔ سرمایہ داروں کے نزدیک مزدور صرف ایک پرزہ ہے جسے ٹوٹ جانے پر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

اردگان حکومت کی جانب سے سرمایہ داروں کے جرم کی پردہ پوشی پر ترک عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ متعلقہ کمپنی اور حکومت کی بے حسی پر پورے ترکی میں چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ٹویٹر پر کل تمام دن #kazadegilcinayet کے ہیش ٹیگ سے لوگ پیغامات ارسال کرتے رہے جس کامطلب ہے ’’حادثہ نہیں قتل‘‘۔ استنبول میں پولیس کی جانب سے گیزی پارک اورتکسیم اسکوائر کا علاقہ بند کئے جانے کے باوجود ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ انقرہ، سوما، ازمیر اور دیارباکرمیں بھی مظاہرے ہوئے۔ مختلف علاقوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

اردگان کے سوما پہنچنے پر شہریوں کا غم، غصے میں تبدیل ہوگیا۔ اردگان کی حفاظت کے لئے 3500 سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ عوام کے ردعمل کے پیش نظر اردگان کو بھاگ کر قریبی سپر مارکیٹ میں پناہ لینی پڑی۔ سوما کے شہری سیٹیاں بجا کر ’’قاتل‘‘ اور ’’چور‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ بعد ازاں مظاہرین نے AKP کے ریجنل دفتر پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ بھی کی۔ترکی کی تمام بڑی ٹریڈ یونینز نے کل عام ہڑتال کی کال دی ہے۔ ہڑتال میں چھ لاکھ سے زائد مزدوروں کو منظم کرنے والی چار بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشنز شامل ہیں۔ ترکی کی بڑی ٹریڈ یونین DISK نے دوسری مزدور تنظیموں کے ساتھ مل کر عوام سے اپیل کی ہے کام چھوڑ کر وزارت محنت کے سامنے احتجاج کئے جائیں۔ کالے فیتے باندھے جائیں اور گھروں کی بالکونی پر کالے بینر آویزاں کئے جائیں۔ بائیں بازو کی ٹریڈ یونینز کے علاوہ ایک بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشن (Turk-is) نے بھی ہڑتال کی کال دی ہے جس کے ممبران کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔

تحریک کا تسلسل

ایک سال پہلے گیزی پارک میں ایک چھوٹے سے مظاہرے پر پولیس کے تشدد نے ملک گیر حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے شعلے بھڑکا دئیے تھے۔ ترک محنت کش اور نوجوانوں دائیں بازو کی اردگان حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ 2002ء میں AKPکے برسر اقتدار آنے کے بعد سے امارت اور غربت کی خلیج میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اردگان کے گرد جمع سرمایہ داروں کا ٹولا ریاست کو لوٹنے اور اپنے رشتہ داروں کو نوازنے میں مصروف ہے۔ ترک سماج میں طبقاتی تضادات شدت سے سلگ رہے ہیں۔ اردگان حکومت گیزی پارک سے شروع ہونے والے عوامی تحریک سے اس لئے بچ گئی تھی کیونکہ تحریک کے پاس ایک ٹھوس پروگرام، لائحہ عمل اور قیادت موجود نہ تھی۔ یہ تحریک وقتی طور پر پسپا تو ہوئی ہے لیکن مری نہیں ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ترکی میں ایجی ٹیشن اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

سینکڑوں محنت کشوں کی ہلاکتوں کے بعد سطح کے نیچے موجود عوام کی بے چینی اور اضطراب منظر عام پر آرہا ہے۔ محنت کش عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ صرف ’’حادثہ‘‘ نہیں ہے اور سوما میں ہونے والی اموات کے اصل ذمہ داران سماج اور ریاست پر براجمان سرمایہ دار اور ان کے حواری ہیں۔ ترکی میں کل کی ایک روزہ عام ہڑتال طیب اردگان کی عوام دشمن حکومت پر ایک کاری ضرب ثابت ہوسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک روزہ ہڑتال سے آگے بڑھ کر AKP حکومت کے خاتمے تک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کی کال دی جائے۔ اس سلسلے میں محنت کشوں کو منظم اور متحرک کرنے میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنان اور ٹریڈ یونینز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 300 سے زائد محنت کشوں کی ہلاکت کا بدلہ اسی طرح سے لیا جاسکتا ہے!

  • اردگان حکومت مردہ باد!
  • قاتلوں اور لٹیروں کا را ج مردہ باد!
  • محنت کشوں کی موت کے ذمہ داران تمام وزراء اور مالکان کو پھانسی دی جائے!
  • نجی شعبے کو بیچے گئے تمام اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے!

Source