برطانیہ: بریگزٹ اور بربادی

بورس جانسن اپنے بریگزٹ معاہدے کا بڑی دھوم دھام سے اعلان کرتے ہوئے ایک خوشحال اور آزاد مستقبل کی نوید سنا رہا ہے۔ لیکن برطانوی سرمایہ داری پر تاریک بادل منڈلا رہے ہیں اور ایک ہولناک طوفان پنپ رہا ہے۔ اس غلیظ ٹوری حکومت کو ختم کرنا پڑے گا۔


[Source]

ہمیں اپنا منصوبہ انسانوں کی اس نئی دنیا سے اخذ کرنا ہے
اور ہمارے کام کو پرومیتھیوس کی نسبت سے پکارا جائے گا۔
(شیلے)

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

جب ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ برطانیہ کے حالات اب مزید خراب نہیں ہو سکتے، پچھلے ہفتے ہی کورونا وباء کے پھیلاؤ میں تباہ کن اضافہ ہو گیا۔ یہ خبر بریگزٹ کی بربادی کے ساتھ ہی نازل ہوئی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ برطانوی بندرگاہیں برِ اعظم (یورپ۔مترجم) جانے والی ہزاروں لاریوں سے جام ہو چکی ہیں۔

اس ہیجان اور بحران کے دوران بورس جانسن نے پوری ڈھٹائی سے پوری قوم کے سامنے نئے سال کے آغاز سے پہلے اپنے بریگزٹ معاہدے کا اعلان کیا۔ ریت میں منہ چھپائے شتر مرغ کی طرح وزیرِ اعظم نے غرور سے انکشاف کیا کہ تجارت میں غیر محصولاتی پابندیاں نہیں ہوں گی لہٰذا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔

اس صورتحال میں 1920ء کی دہائی کے ٹوری وزیرِ اعظم سٹینلے بالڈوِن کے الفاظ یاد آ جاتے ہیں۔ بالڈوِن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”یورپ ایک پاگل خانہ ہے“ جس کا جواب لیون ٹراٹسکی نے ان الفاظ میں دیا تھا کہ ”ہاں، لیکن برطانیہ محض یورپی پاگل خانے کا آخری وارڈ ہے، ایسی جگہ جہاں سب سے زیادہ بدحال اور پرتشدد مریض رکھے جاتے ہیں“۔

آج کے برطانیہ کو بیان کرنے کے لئے اس سے بہتر الفاظ موجود نہیں۔ 2021ء اور اس کی پہلی پرانتشار دہائی میں خوش آمدید!

اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا

2020ء کے اختتام پر برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین کے ساتھ ٹوری معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ تحفہ ملنے پر خوشی سے نڈھال بچے کی مانند بورس جانسن نے فاتحانہ انداز میں ”آزاد“ برطانیہ کے لئے ایک سنہرے مستقبل کا اعلان کر دیا۔ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارتے ہوئے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی قائد نے ایک ایسا تجارتی معاہدہ کر لیا ہے جو اس کے اپنے ہی ملک کو غریب کر دے گا۔

عملیت پسندی کے پیکر سر کیئر سٹارمر نے فوری طور پر اپنے ممبران پارلیمنٹ کو متحرک کر دیا کہ وہ بورس کے بریگزٹ معاہدے کی ”قومی مفاد“ میں توسیع کریں۔ لیبر قائد نے کہا کہ ”خاموش تماشائی“ رہنے سے اس کی پارٹی کی ”ساکھ“ مجروح ہو گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بغیر کسی تعطل معاہدہ پارلیمنٹ میں منظور ہو گیا۔

جانسن نے شیخی ماری کہ معاہدے کے نتیجے میں ”ایک دیو ہیکل فری ٹریڈ زون“ تشکیل پائے گا۔۔جبکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ برطانیہ اسی فری ٹریڈ زون یعنی یورپی یونین کی مارکیٹ اور محصولاتی یونین سے خارج ہو گیا ہے۔ نئے معاہدے سے نئی بیوروکریٹک سر دردیاں جنم لیں گی اور نئی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی۔
بریگزٹ کی مخالفت بڑے کاروباروں نے کی ہی اس لئے تھی کیونکہ انہیں اربوں کا منافع ڈوبتا نظر آ رہا تھا۔ معاہدے کے نتیجے میں برطانوی صنعت کے اخراجات بڑھیں گے، نئی محصولات لاگئی جائیں گی، نئی کوالٹی قدغنیں، نئے سرحدی طریقہ کار اور نیا گنجلک نظام۔

ماضی کے تمام دعوؤں کے برعکس معاہدے کے تحت آئرش سمندر میں ایک نئی تجارتی سرحد بھی شامل ہے جس سے نئے چیلنج اور کنٹرول سسٹم جنم لیں گے۔

جانسن نے نعرہ مارتے ہوئے کہا کہ ”ہم نے اپنے قوانین اور اپنی تقدیر کا کنٹرول واپس لے لیا ہے“ جو ”تیار شدہ“ معاہدے کے نعرے سے بھی زیادہ کھوکھلا ثابت ہوا ہے۔

انتشار اور قیمت

معاہدے میں معیشت کی 80 فیصد سروسز اور فنانشل سیکٹر کا ذکر ہی نہیں جن پر ابھی کام باقی ہے۔
آفس فار بجٹ رسپانسبلٹی کا کہنا ہے کہ ان سخت شرائط پر مبنی بریگزٹ کے تحت مجموعی طور پر برطانوی معیشت 4 فیصد سکڑے گی۔ لیکن بڑے کاروبار کسی بھی معاہدے کے بغیر بریگزٹ کے برعکس اس معاہدے کو عافیت سمجھ رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ معاہدہ سب سے کم تر تلخ آپشن تھا۔

فوڈ اینڈ ڈرنک فیڈریشن کے چیف ایگزیکٹیو ایان رائٹ کے مطابق ”اس ہفتے ڈووَر میں انتشار اور آخری لمحے پر اس معاہدے پر سمجھوتے کا مطلب یہ ہے کہ سپلائی میں شدید مسائل پیدا ہوں گے“۔

کولڈ چین فیڈریشن کے چیف ایگزیکٹیو شین برینان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی ”اگر سالوں نہیں تو مہینوں تک اشیاء خوردونوش سپلائی چین سست، زیادہ پیچیدہ اور زیادہ مہنگی ہو گی“۔

آنے والی تبدیلیاں

شدید تلخ کلامی اور اشتعال انگیز مذاکرات کے بعد مائیکل گروف کو امید ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین ایک ”خاص تعلق“ تعمیر کریں گے۔ جانسن نے ایک ”خوشگوار اور کامیاب مستحکم شراکت داری“ کی بات کی۔ ظاہر ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ یقینا یہ بریگزٹ نواز اپنے ہی کہے کسی ایک لفظ پر یقین نہیں کرتے۔

جانسن کا کہنا ہے کہ ”بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں“۔ اس حوالے سے ٹوری وزیرِ اعظم درست ہے۔۔لیکن تبدیلیاں وہ نہیں ہوں گی جن کی وہ امید لگائے بیٹھا ہے۔

برطانیہ برباد ہو چکا ہے۔ برطانوی سرمایہ داری کے شدید ہوتے بحران کے ساتھ ہمیں اگلے کئی سال معیارِ زندگی میں تیز ترین گراوٹ اور انتشار کا سامنا ہو گا۔ قوی امکانات ہیں کہ ملک ایک تیسرے قومی لاک ڈاؤن میں جائے گا جس کے بعد چوتھے اور پانچویں کی بھی باری آ سکتی ہے۔ نتیجتاً کاروبار ڈوبیں گے، بیروزگاری بے قابو ہو جائے گی اور قرضوں کا حجم ناقابلِ برداشت ہو جائے گا۔

حقائق سے مکمل چشم پوشی کرتے ہوئے برطانیہ کے چیف مذاکراتی نمائندے لارڈ فراسٹ کو یقین ہے کہ بریگزٹ معاہدہ ”قومی تجدید کا لمحہ“ ہے۔ ایک قدیم کہاوت ہے کہ خدا جن کو برباد کر نا چاہتے ہیں، انہیں پہلے پاگل بنا دیتے ہیں۔ کسی بھی ”تجدید“ کے بجائے معاشی اور سماجی گراوٹ میں تیزی آئے گی اور برطانیہ میں تضادات اور زیادہ گہرے ہوں گے۔

انحطاط اور موت

شاندار ”نشاۃِ ثانیہ“ کے برعکس، بریگزٹ برطانوی سرمایہ داری کی تمام کمزوریوں کو ننگا کر دے گا۔ عالمی سطح پر متحارب سامراجی قوتوں امریکہ، چین اور یورپی یونین میں پِس کر برطانیہ کا قد کاٹھ اور بھی چھوٹا ہو جائے گا۔

خیالی پلاؤ بناتے ہوئے اشتہاربازی ایگزیکٹیو مارٹن سورل نے کہا کہ ”ہمیں وہ کرنا ہے جو جرمن اتنے موثر طریقے سے کرتے آئے ہیں۔ اتنی برآمدات کریں کہ ہم تھک کر گر جائیں۔۔ہمیں ’سٹیرائڈز پر سنگاپور“ یا ”تھیمز (دریا) پر“ بننا ہوگا تاکہ ہم کنارے سے نہ لگ جائیں“۔

اس فریب کے باوجود یہ بہرحال ایک سنجیدہ وارننگ ہے۔ موثر طریقے سے برآمدات کرنے کے لئے آپ کو مضبوط صنعتی بنیادیں اور قابلِ ذکر سرمایہ کاری چاہیئے۔ لیکن کئی سالوں میں صنعتوں کی بندش اور وباء کی شکل اختیار کرتی ہوئی کم سرمایہ کاری کے بعد برطانوی سرمایہ داری کے پاس اب یہ بنیادی ستون موجود نہیں۔

اس لئے برطانوی کاروباروں کے پاس مسابقت کا ایک ہی طریقہ بچا ہے اور وہ ہے اخراجات میں کٹوتیاں۔۔خاص طور پر اجرتوں میں جو پہلے ہی بڑھتے روز مرہ اخراجات سے کم ہیں۔ محنت کش طبقے کو پیسنے کی کوششوں کا ناگزیر نتیجہ خوفناک طبقاتی جنگ ہو گا۔

پریشان کن تعلقات

بریگزٹ جنونیوں نے بالآخر ایک نئے معاہدے کی حمایت کر دی ہے اگرچہ وہ کوئی معاہدہ نہیں چاہتے تھے۔۔نام نہاد ”واشگاف قطع تعلقی“۔ جانسن خود اس کیمپ کا ممبر رہا ہے لیکن کھائی میں چھلانگ لگانا خود ٹوری قائد کے لئے بھی بہت بڑا قدم تھا۔

کینٹ میں ٹرکوں کا انتشار محض مستقبل کی نوید تھا۔ یورپی یونین کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں امریکہ کے ساتھ فوری معاہدے کا خواب چکنا چور ہو جانا تھا۔ برطانیہ اندھے کنویں میں جا گرتا۔ اس لئے آخری لمحے میں ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا۔

اگرچہ یورپی قائدین نے ”بریگزٹ کے اختتام“ پر سکھ کا سانس لیا ہے لیکن درحقیقت اس معاہدے کا نتیجہ برطانیہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں سالہا سال تناؤ کی صورت میں موجود رہے گا۔

اگر برطانوی مینوفیکچرر اجزاء کے حصول کے حوالے سے متعین کردہ قوانین کی پاسداری نہیں کرتے تو یورپی یونین کو محصولات لاگو کرنے کا حق حاصل ہے۔۔یہ کام وہ کرے گی۔ اس کے نتیجے میں یورپی یونین میں داخلے پر کچھ گاڑیوں پر محصولات لاگو ہوں گی۔ اس کے علاوہ معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فریق ”غیر منصفانہ“ سبسڈیوں کے جواب میں محصولات لاگو کر سکتا ہے۔

وباء کی وجہ سے پہلے سے کمزور چھوٹے کاروبار واضح طور پر متاثر ہوں گے۔ کم پیسے ہونے اور حکومت کی جانب سے کم وسائل دستیاب ہونے کی وجہ سے کئی کاروبار دیوالیہ ہو جائیں گے۔

اس کے علاوہ بریگزٹ معاہدہ یقینا سکاٹش آزادی تحریک کو تیز کرے گا۔ یورپی یونین سے اخراج کے نتیجے میں پیدا ہونے والا انتشار سکاٹ لینڈ اور ویسٹ منسٹر میں موجود قوم پرست ٹوری حکومت کے درمیان تناؤ کو مزید بڑھائے گا۔

بطور سوشلسٹ ہم تمام اقوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔۔جس میں آزادی کا حق بھی شامل ہے۔ لیکن یہاں ہم یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ سرمایہ داری کی بنیاد پر حقیقی آزادی کبھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

ہتھوڑوں کی برسات

وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہو جائے گا کہ یہ بریگزٹ معاہدہ برطانیہ میں ایک نئے پرانتشار دور کا آغاز ہے۔ عالمی کساد بازاری، بڑھتی وباء اور بریگزٹ کا انتشار، سماج اور شعور پر ہتھوڑوں کی مانند برسیں گے۔

پہلے ہی 2020ء میں برطانوی معیشت میں 11.3 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ بڑھتے ہوئے بحران اور مزید لاک ڈاؤن میں حقیقی معاشی بحالی دیوانے کا خواب ہے۔ ریزولوشن فاؤنڈیشن کے مطابق برطانوی معیشت ایک ماہ پہلے کی گئی پیشین گوئی کے برعکس مزید 6 فیصد سکڑے گی۔

اس کے محنت کش طبقے کے معیارِ زندگی پر خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ کروڑوں افراد کے لئے ایک ”روشن مستقبل“ کی بات کرنا گھناؤنا مذاق ہے۔ ”آزادی“ کے حوالے سے تمام تر ٹوری لفاظی مکر و فریب ثابت ہو گا۔ سرمایہ داری میں کروڑوں افراد کا مقدر امید نہیں بلکہ کٹوتیاں اور بحران ہے۔

سوشلزم یا بربریت

اس تجربے کی بنیاد پر محنت کش طبقے کو احساس ہو گا کہ نام نہاد ”منڈی کی معیشت“ انہیں اس بحران سے باہر نہیں نکال سکتی۔ سرمایہ داری کی بنیاد امراء اور طاقتوروں یعنی دیو ہیکل بینکوں اور اجارہ داریوں کے مالکان کی لالچ اور مسلسل بڑھتا منافع ہے۔

برطانیہ ایک امیر ملک ہے لیکن اس کی دولت ارب پتی سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ کچھ خوش فہموں کی امید کے برعکس سرمایہ داری کی ”اصلاح“ بالکل نہیں کی جا سکتی۔ آپ سرمایہ داری کو ایسی کسی چیز میں تبدیل نہیں کر سکتے جو وہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح سے آپ ایک آدم خور شیر کو سبزی خور نہیں بنا سکتے۔

حکمران طبقہ مکمل طور پر گل سڑ چکا ہے جو اس وباء میں بھی سماج کی قیمت پر ناقابلِ فہم دولت اکٹھی کر رہا ہے۔ ان کا حال رومن شہنشاہ نیرو کی طرح ہو چکا ہے جو روم کے جل کر بھسم ہونے کے دوران بانسری بجا رہا تھا۔

پیسہ لوٹنے والی اس قلیتی جونک کو تباہ و برباد کر کے ہی۔۔معیشت ان کے ہاتھوں سے چھین کر اور اکثریت کے مفاد میں پیداوار کی منطقی پلاننگ کر کے۔۔ہم اپنے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں۔

ہمارا مستقبل روزِ عیاں کی طرح روشن ہے۔ روزا لگسمبرگ کے الفاظ میں راستہ ایک ہی ہے۔۔سوشلزم یا بربریت۔