چلی: صدارتی انتخابات میں بائیں بازو کا امیدوار کامیاب

اپرو ایبو دِگنی داد (بائیں بازو کی پارٹیوں کا اتحاد) کے امیدوار گیبریئل بورِک نے 56 فیصد ووٹ حاصل کر کے صدارتی انتخابات جیت لیے ہیں۔ انتخابات میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے، جن میں 46 لاکھ ووٹ بورک کو پڑے جبکہ اس کے مقابلے میں ماضی کے آمر پنوشے کے پیروکار ہوزے اینتونیو کاست کو 10 لاکھ ووٹ کم پڑے، جس نے 44 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پہلے مرحلے میں کم ٹرن آؤٹ (47 فیصد) آنے کے بعد اپرو ایبو دگنی داد نے محنت کش طبقے کے بیچ اور گنجان آباد ضلعوں کے اندر لوگوں کو ووٹ کے لیے متحرک کرنے کی مہم چلائی، جس کا انہیں بڑا فائدہ ہوا، جیسا کہ پوینتے التو (70 فیصد) اور مئی پُو (66 فیصد) میں، اور دوسرے مرحلے میں ٹرن آؤٹ 55 فیصد تک چلا گیا۔ امیر ضلعوں کے اندر ووٹ میں اوسط اضافہ 4 فیصد، جبکہ اس کے مقابلے میں غریب شہری ضلعوں کے اندر 10 فیصد دیکھنے کو ملا۔ طبقاتی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے محنت کش اور نوجوان کاست کو شکست دینے کے لیے متحرک ہو گئے۔ دوسرے مرحلے میں مجموعی طور پر ووٹوں میں 12 لاکھ 50 ہزار کا اضافہ ہوا۔

شمالیس شہر اینتو فگستا کے اندر دوسرے مرحلے کے نتائج حیران کن تھے، جہاں بورک کو 20 فیصد زیادہ ووٹ پڑے۔ شمال میں پہلے مرحلے کے دوران پاپولسٹ امیدوار پاریسی کو سب سے زیادہ ووٹ پڑے تھے، جس نے بعد میں کاست کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ مگر اس کے باوجود بورک اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا، اور کان کنی والے خطے میں بائیں بازو کی روایتی حمایت کو بحال کر دیا۔

”جوان“ صدر

بین الاقوامی پریس میں بورک کو بائیں بازو کے ”جوان“ کا نام دیا جا رہا ہے۔ بورک کی عمر 35 سال ہے، جو ملکی تاریخ میں سب سے کم عمر صدر بن چکا ہے۔ پریس کے بعض تجزیہ نگاروں نے اس کے سوشل ڈیموکریٹک پروگرام کا موازنہ کاست کے قدامت پسند اور رجعتی خیالات کے ساتھ کیا ہے۔

ہسپانیہ کی پوڈیموس اور یونان کی سائریزا پارٹی کے ساتھ موازنے پہلے سے ہی زبان زدِ عام ہیں۔ یقیناً اپرو ایبو دگنی داد، جو کمیونسٹ پارٹی سمیت بائیں بازو کی مختلف پارٹیوں کا اتحاد ہے، کا کردار بائیں بازو کی اصلاح پسندی والا رہے گا۔ مگر سرمایہ دارانہ بحران ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے جس میں اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ نئی سیاسی گروہ بندیاں انتخابات کے اندر اس لیے دیکھنے کو مل رہی ہیں کیونکہ پچھلی دہائیوں میں حکومت کرنے والی روایتی پارٹیاں تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ وہ ان نوجوانوں اور محنت کشوں کی ان پرتوں کو اپنی جانب راغب کر رہی ہیں جو بڑے پیمانے پر اصلاحات کے خواہشمند ہیں، مگر ترقی پسند حکومتیں سرمایہ دارانہ بحران کے باعث ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتیں۔

موجودہ صورتحال میں، دو سال سے جاری وباء اور معاشی بحران کے ہوتے ہوئے، ایسی حکومت کے لیے اہم اصلاحات کرنے کی گنجائش بہت زیادہ کم ہے۔ مزید برآں ماہرین کے مطابق 2022ء کے اندر معاشی سست روی دیکھنے کو ملے گی۔

بہرحال، بورک نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے کا کوئی پروگرام دیا بھی نہیں ہے۔ وہ مالیاتی ذمہ داری، اور ”آہستہ مگر مضبوط اقدامات“ کی بات کرتا ہے۔ وہ اپنے پروگرام میں اصرار کرتا ہے:

”ہماری حکومت قرض کے سلسلے پر قابو پانے اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کو ترجیح دے گی۔“

وہ خود کو سرمایہ دار طبقے کے کاروباری مفادات کا اچھا ناظم ثابت کرنا چاہتا ہے تاکہ بورژوازی کو مطمئن کر سکے۔ سرمایہ داروں کے لیے اس کا پیغام ہے کہ ”سماجی تقسیم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک ترقی کر سکے۔“ بہ الفاظِ دیگر، اس کا پروگرام طبقاتی مفاہمت پر مبنی ہے۔

کاست نے انتخابات میں انتہائی رجعتی اور شدت پسند دائیں بازو کی ان پرتوں کی حمایت حاصل کی ہے جن کے مفادات 2019ء کی عوامی بغاوت سے خطرے میں پڑ گئے تھے۔ انتخابات سے چار دن قبل ہی پنوشے کی بیوہ لوسیا ہریارت کی موت نے سیاسی منظرنامے پر پنوشے آمریت کی یاد تازہ کر دی۔ پہلے مرحلے کے نتائج کے بعد، پنوشے کے پیروکار کاست کی کامیابی سے سویلین ملٹری آمریت کی وحشتوں اور مظلوموں کے جمہوری حقوق کو درپیش خطرے کی یادیں تازہ ہو گئیں، جس کے مقابلے میں گیبریئل بورک کی معتدل تجاویز بہت بڑے متبادل کی طرح معلوم ہونے لگیں۔ جیسا کہ ہم نے وضاحت کی، پہلے مرحلے کے بعد یہ واضح تھا کہ محنت کش طبقے کی اکثریتی پرتیں فطری طور پر کاست کی حکومت بننے سے روکنے کے لیے متحد ہونے کی طرف جائیں گی کیونکہ اس سے ان کی جمہوری آزادیوں پر شدید حملوں کا خطرہ تھا۔

ضرورت کے اس احساس کا بھرپور اظہار اتوار کو انتخابات کے دن ہوا، جب غریبوں اور محنت کشوں کے علاقوں کے اندر ووٹنگ میں خلل ڈالنے کے لیے حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ کو سبوتاژ کیا۔ ایک ٹرانسپورٹ یونین کے قائد نے وضاحت کی کہ ٹرانسپورٹ کمپنیاں کیسے یہ تخریب کاری کر رہی ہیں، جو ڈرائیوروں کو چھٹی دے رہی تھیں تاکہ بسوں کی اکثریت نہ چل سکے۔ اس صورتحال میں اپنی مدد آپ کے تحت یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا اور جن کے پاس اپنی گاڑیاں موجود تھیں، وہ لوگوں کو قریبی پولنگ سٹیشن چھوڑنے لگے۔ شاید ان حربوں کے استعمال کے بغیر ٹرن آؤٹ اس سے بھی زیادہ دیکھنے کو ملتا۔

بعض کاروباری اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اشخاص غیر پارلیمانی طریقے استعمال کرنے کے لیے بھی تیار تھے، جس کی وجہ سے آگے آنے والے واقعات اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اس کی جھلک تب دیکھنے کو ملی جب ٹرک مالکان کے قائد سرہیو پیریز نے اپرو ایبو دگنی داد کی ریل ٹرانسپورٹ والی تجویز کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مالکان کی اسی تنظیم نے وباء کے دوران ملک میں سپلائی روکنے کی دھمکی دی تھی، جبکہ قبائلی علاقوں میں فوج کی موجودگی برقرار رکھنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ آنے والے عرصے میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہوگا کہ مالکان کی تخریب کاری کو محنت کشوں کی یکجہتی اور ذیلی بنیادیں رکھنے والی تنظیم ہی شکست دے سکتی ہے۔

”معاہدے“ کی تشکیل

اکتوبر 2019ء میں جب میٹرو کا کرایہ 30 پیسوز بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ نعرہ مشہور ہوا کہ ”مسئلہ 30 پیسوز کا نہیں، 30 سالوں کا ہے“، جو آمریت کے بعد حکومت کرنے والی پارٹیوں کو مسترد کرنے کا اظہار تھا، جنہوں نے سرمایہ دارانہ معاشی نظام برقرار رکھ کر نجکاری جاری رکھی اور انسانی حقوق کی پامالی کی سزائیں نہیں دیں۔ آمریت کے خاتمے کے بعد صدر بننے والے کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے پاتریسیو ایلوین کا مشہور قول ہے، ”انصاف جہاں تک ممکن ہو“۔ آمریت کے بعد معاہدوں کی پالیسی اپنا کر دائیں بازو اور بڑے کاروباروں کے ساتھ مفاہمت کی گئی، جن کے مفادات 1973ء میں چلی کے محنت کش طبقے کی تاریخی شکست کے بعد 1980ء کے آئین کے تحت محفوظ کیے گئے تھے۔

اس عبوری دور میں حکومت یہ باور کراتی رہی کہ آمریت کا خاتمہ 1988ء کے ریفرنڈم کے ذریعے ہوا تھا، یعنی محض پنسل اور کاغذ کے ذریعے۔ ملک گیر سطح کے احتجاجوں کے دوران بڑے پیمانے پر عوامی تحرک کی اہمیت کو لوگوں کے ذہنوں سے مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ان لاکھوں افراد کو بھلا دیا گیا جو بہتر زندگی کی امید لیے آمرانہ حکومت کے خلاف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑے تھے۔ کرسچن ڈیموکریٹک صدر ایلوین، جس نے پنوشے کی آشیرباد سے صدارتی عہدہ سنبھالا، نے 70ء کی دہائی میں سوشلسٹ سالوادور ایلیندے کے خلاف ’کُو‘ منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ آمریت کے خاتمے کے بعد کنسرتیسیون پارٹیوں (خصوصاً سوشلسٹ اور کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی) کے ساتھ پرانے ماڈل کی معاشی و نظریاتی بنیادیں قائم رکھنے اور مسلح افواج کو سزائیں نہ دینے کے سلسلے میں خفیہ معاہدے کیے گئے۔ حالیہ انتخابات میں کنسرتیسیون نے متحد ہو کر بورک کی حمایت کی۔

30 سال بعد، 2019ء میں اکتوبر بغاوت کے دوران ایک نئی نسل، جس نے آمریت نہیں دیکھی تھی، نے اپنے آباء و اجداد کی روایات کو دوبارہ زندہ کیا۔ وہ ”انصاف جہاں تک ممکن ہو“ کی پالیسی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر کے اس زندگی کے لیے لڑنا چاہتے تھے جو زندگی کہلانے کے لائق ہو۔ دائیں بازو کے صدر پِنئیرا نے غریبوں اور محنت کشوں کے خلاف جنگ شروع کر دی، مگر غم و غصّے سے بھرے عوام نے اس کی نافذ کی ہوئی ایمرجنسی کو شکست دے دی۔ عام ہڑتال سے حکومت کے قدم ڈگمگانے لگے۔ مگر معاہدوں اور استثنا کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔ نام نہاد ”امن معاہدہ اور نیا آئین“، جس میں بورک نے کلیدی کردار ادا کیا، دراصل پارٹیوں کے بیچ سیبستیان پنئیرا کی مجرمانہ حکومت بچانے کا معاہدہ تھا۔ امن کی بجائے جابرانہ قوانین جاری رہے اور قبائلی علاقوں میں فوج کی موجودگی برقرار رہی۔ پنئیرا آج بھی اپنے عہدے پر اس بغاوت کے بعد براجمان ہے جس میں اس کے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اب گیبریئل بورک کو اس سے آشیرباد حاصل کر کے اپنا عہدہ سنبھالنے کا ”اعزاز“ ملے گا۔

بورک ایک ایسے سیاستدان کے طور پر سامنے آیا ہے جو صحیح جگہ پر صحیح وقت میں موجود رہتا ہے، جو معاہدے تشکیل دینے کے لیے خود کو ”مذاکرات“ میں ملوث کرتا ہے اور اپنا سیاسی کیرئیر بناتا ہے۔ آج ”بروڈ فرنٹ“ کے تحت کام کرنے والے گروہوں کی ٹوٹ پھوٹ، اتحادوں اور اندرونی تنازعات سے ابھرنے والا وہ سب سے بڑا مگرمچھ ہے۔ تاریخ میں بورک کو اس قائد کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اس ”معاہدے“ کو تشکیل دیا جو بورژوا اور ریاستی بنیادوں پر اکتوبر بغاوت کی گمراہی کا باعث بنا۔ بورک کی حکومت عوامی بغاوت کا راستہ اختیار کرنے کے مقابلے میں ”معاہدوں“ کا پارلیمانی طریقہ کار اپنانے کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس حوالے سے بورک کی کامیابی کا مطلب اوپری سطح پر معاہدہ کر کے 2019ء کی بغاوت کا خاتمہ ہے۔

نئی پارلیمنٹ میں حکومت کی اتنی اکثریت نہیں ہے کہ اپنی اصلاحات کو منظور کروا سکے۔ دوسری جانب، اپرو ایبو دگنی داد اب آئینی سلسلہ جاری رکھے گی۔ جس کا ناگزیر مطلب قابلِ نفرت ”معاہدوں کی پالیسی“ تک محدود رہنا ہے۔

حکومت عوام کی جانب سے بہت بڑے دباؤ میں رہے گی۔ انتخابات کے نتائج کے بعد جشن منانے کے لیے نکالی جانے والی بہت بڑی ریلی میں 2019ء کی بغاوت کے قیدیوں کی رہائی اور نجی پنشن سسٹم کے خاتمے کے نعرے لگائے جا رہے تھے، جس کا بورک تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہا۔ بورک نے دائیں بازو کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”کاست کے ساتھ مل کر ہم تعمیراتی کام کریں گے تاکہ ہمارے ہم وطن بہتر زندگی گزار سکیں“، جس کے جواب میں عوام نے اس کے خلاف آوازیں بلند کیں۔

در حقیقت، آپ دائیں بازو کو جتنی رعایت دیں گے، ان کے حوصلوں میں اتنا ہی اضافہ ہوگا اور وہ واپس لڑ کر حالات اپنے قابو میں کرنے کا سوچیں گے۔ دائیں بازو کی جانب سے بنیادی تبدیلیوں کی روک ٹوک کے نتیجے میں عوامی ردعمل کو اشتعال ملے گا۔ ناگزیر طور پر حکومت کو چننا پڑے گا کہ عوامی تحریک کو دبائے یا اس پر انحصار کرتے ہوئے دائیں بازو کی روک ٹوک پر قابو پائے۔ عوام بورک کی معاشی پالیسیوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔ کمیونسٹ پارٹی بھی حیران و پریشان ہو کر پھنس جائے گی کہ ایک پاؤں حکومت میں اور ایک سڑکوں پر کیسے رکھے۔

اس کا موازنہ پیرو میں کاستیلو کی حکومت کے ساتھ کرنا مناسب رہے گا۔ کان کنی کی کمپنیوں کے حوالے سے کاستیلو کا پروگرام بورک والے پروگرام سے زیادہ لڑاکا تھا۔ بورک کی طرح کاستیلو بھی پارلیمنٹ کے اندر اقلیت میں شامل ہے۔ بورژوازی، فوج، بورژوا میڈیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دباؤ میں آ کر کاستیلو نے جلد ہی رعایتیں دینا شروع کر دیں اور اپنے پروگرام کے سب سے ترقی پسند نکات کو ترک کر دیا۔ بورک بھی اسی سمت میں جائے گا۔

سطح کے نیچے موجود سماجی و معاشی بحران سرمایہ دارانہ دائرہ کار کے اندر اصلاحات کی بنیادوں پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ لازمی طور پر جلد یا بدیر اکتوبر 2019ء کے مطالبات، جن پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا گیا، کے گرد دوبارہ اہم تحریکوں کا جنم ہوگا۔ کاست کی شکست نے عوام کی خود اعتمادی میں اضافہ کیا ہے، اور انتخابات کے ذریعے جس چیز کا اظہار ہوا ہے اس کا اظہار نئی حکومت سے مطالبات کے ذریعے ہوگا، اور اگر ان کو پورا نہیں کیا گیا تو عوام نئی حکومت کے خلاف بھی متحرک ہوں گے۔

آنے والے عرصے میں پانی کا بحران شدید ہوتا جائے گا۔ قبائلی علاقوں میں فوج کی موجودگی برقرار رہے گی، جس کا نتیجہ ان علاقوں میں انتہائی پیچیدہ ہوتے تصادم کی صورت نکلے گا جہاں دائیں بازو نے اپنے مضبوط گڑھ قائم کیے ہیں۔ اسقاطِ حمل پر قانونی پابندی کے خاتمے کا مطالبہ فیمنسٹ اور خواتین کی تحریک میں موجود رہے گا۔ اجرتوں اور حالاتِ کار کے حوالے سے مزدوروں کی جدوجہد میں شدت دیکھنے کو ملے گی۔

بنیادی تبدیلیوں کے ذریعے لوگوں کی معیارِ زندگی بہتر بنانے کے حوالے سے گیبریئل بورک کی غیر سنجیدگی بے نقاب ہوگی۔ سماج کی مکمل تبدیلی کے لیے ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے مزدور حکومت قائم کرنی پڑے گی۔ ہم محض محنت کش طبقے کے متحرک ہونے کی قوت اور منظم ہونے پر انحصار کر سکتے ہیں۔ ضرورت ایک ایسی انقلابی قیادت کو تعمیر کرنے کی ہے جو اکتوبر کی بغاوت میں اٹھائے گئے محنت کش طبقے کے مطالبات کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہو۔