ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس: سرمایہ داروں میں مایوسی کا سماں

سماج سے کٹا عالمی حکمران طبقہ اس ہفتے سالانہ ملاقات کے لیے اکٹھا ہوا۔ لیکن اپنے وضع کردہ لبرل نظام کو چاروں اطراف خطرات میں گھرا دیکھ کر دنیا کے امیر ترین افراد اور ان کے نمائندوں کا موڈ مایوس کن اوراداس تھا۔

[Source]

اس سال سوئس ایلپس میں ورلڈ اکنامک فورم میں زیرِ بحث عنوان حکمران طبقے کو لاحق پریشانیوں کا اظہار ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی اس تقریب میں ”منصفانہ معیشتیں“، ”کرہِ ارض کو کیسے بچایا جائے“، ”بہتری کے لئے ٹیکنالوجی“، ”کام کا مستقبل“ اور ”جغرافیائی سیاست سے آگے“ جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔

سادہ الفاظ میں، دلفریب لفاظی کے پیچھے چھپی عدم مساوات کی وجہ سے ممکنہ سماجی دھماکے، ماحولیاتی بحران، ٹیکنالوجی اجارہ داریوں کا بڑھتا غلبہ، سرمایہ داری کے تحت آٹومیشن کے تضادات، متحارب سامراجیوں کا ٹکراؤ اور سٹیٹس کو کی تباہی، خوفناک حقیقتیں ہیں۔

مایوسی

پچھلے سال جولائی میں سرمایہ داروں نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ امریکی معیشت اپنی تاریخ کی سب سے طویل بحالی کا ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔آخری طویل بحالی 121 ماہ پر محیط تھی (10 سال سے زیادہ)۔

لیکن بحالی پر وقتاً فوقتاً رجائیت کے اظہار کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ کوئی بحالی نہیں ہوئی۔۔ اور خاص طور پر محنت کش طبقے کے لئے تو بالکل بھی نہیں۔

حقیقت کے ادراک کیلئے ورلڈ بینک کے تازہ اعداوشمار سے زیادہ آگے جانے کی ضرورت نہیں۔ عالمی شرحِ نمو پر اپنی پیش گوئیوں میں بینک نے اگلے سالوں کے لئے اپنے تمام اعدادوشمار میں کمی کی ہے اور ”مربوط سست روی“ کا عندیہ دے دیا ہے۔

چھ ماہ پہلے پیش گوئی کی گئی تھی کہ 2019ء میں شرحِ نمو 2.6 فیصد جبکہ 2020ء میں 2.7 فیصد ہوگی۔ لیکن اپنی حالیہ پیش گوئی میں دونوں میں 0.2 فیصد کی کمی کردی گئی ہے۔

ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں صورتحال اور بھی گھمبیر ہے۔ امریکہ میں شرحِ نمو 2019ء میں 2.3 فیصد کے مقابلے میں 2020ء میں 1.8 فیصد رہے گی جبکہ یوروزون میں صرف 1 فیصد رہے گی۔

اسی ورلڈ بینک رپورٹ میں عالمی معیشت کو درپیش دیگر طویل المدتی مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں بڑھتے ہوئے دیو ہیکل قرضوں سے سست رو پیداواری نمو شامل ہیں۔

فنانشل ٹائمز کے سینیئر معاشی ایڈیٹر مارٹن وولف نے پچھلے سال ”دھاندلی زدہ سرمایہ داری“ پر تفصیلی مضامین میں انہی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان مضامین میں حالیہ دہائیوں میں سرمایہ داری کو جکڑتے ”کمزور پیداواری نمو، بے قابو عدم مساوات اور دیو ہیکل مالیاتی شاک کی ناپاک تثلیث“ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

وولف پرچار کرتا ہے کہ ”ہمیں ایک سرگرم سرمایہ دارانہ معیشت درکار ہے۔اس کے برعکس ہمیں بڑھتی ہوئی غیر مستحکم کرایہ خور سرمایہ داری، کمزور مسابقت، نحیف پیداواری نمو، شدید عدم مساوات اور ساتھ ہی انحطاط پذیر جمہوریت کا سامنا ہے“۔

لیکن یہ سب کچھ نیا نہیں۔ وولف، دیگر لبرلز اور اس جیسے کینیشئین اسٹوں کی خواہشات کے برعکس ”مہذب“ سرمایہ داری نام کی کوئی چیز نہ کبھی موجود تھی اور نہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے قوانین اور منطق ہمیشہ اکثریت کی قیمت پر قلیل اقلیت کے ہاتھوں میں دولت مرتکز کرتے رہیں گے۔

جیسا کہ مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب‘سرمایہ‘ میں واضح کیا تھا کہ ”ایک طرف دولت کے ارتکاز کا مطلب دوسری طرف غربت، غلامانہ محنت کی دردناک تکلیف، جہالت، بربریت، ذہنی پستی کا ارتکاز ہے“۔

دور اندیش بورژوا تجزیہ نگار وولف نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ”اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو معاشی اور سیاسی کارکردگی بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی اور بالآخر ہمارا جمہوری سرمایہ دارانہ نظام عمومی یا جزوی طور پر منہدم ہو جائے گا۔ جس طرح ہمارے معاشی اور سیاسی نظام کام کر رہے ہیں اس میں تبدیلی آنی چاہیے ورنہ یہ ختم ہو جائیں گے“۔

نظام کے مستقبل کے حوالے سے یہ مایوس کن پیش گوئیاں اسٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ سے زیادہ اہم ہیں جو حقیقی معاشی زلزلوں کا محض اظہار ہیں۔

آتش گیر مواد

دوسری طرف عالمی معیشت کی حالت دگر گوں ہے۔ سرمایہ داری کے زیادہ سنجیدہ نمائندوں کو افق پر منڈلاتے خطرات واضح نظر آ رہے ہیں۔ حکمران طبقے کا سنجیدہ نمائندہ دی اکانومسٹ امریکی معیشت کی تاریخی بحالی پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

”پراپرٹی بلبلے، قیمتوں میں اضافہ یا صنعتی زوال (ماضی میں) بحران کی وجہ بنتے تھے۔ لیکن اب عالمی طور ایک دوسرے سے جڑی کمپنیوں؛ مالیاتی نظام، جسے سستے قرضے کی لت لگ چکی ہے؛ اور معیار زندگی میں بہتری نہ ہونے کے باعث ایک انتہا سے دوسری انتہا کی پالیسیوں کے درمیان ٹکریں مارتے سیاسی نظام، نے ان پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے“۔

2008ء انہدام کی فوری وجہ پراپرٹی کے سب پرائم قرضہ جات تھے جنہوں نے مالیاتی بحران کے مسلسل تعامل کو جنم دیا۔ یہ دہائیوں میں اکٹھے ہوئے دیو ہیکل گلے سڑے (ناقابلِ واپسی) قرضوں کا اظہار تھا جو سرمایہ داروں کی منڈی کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے لئے سستے قرضوں پر انحصار کا نتیجہ تھا۔

یہ پھر خود بحران کی بنیادی وجہ کا اظہار تھا یعنی زائد پیداوار کا تضاد۔ یہ تضاد سرمایہ داری کی ہڈیو ں میں رچا بسا ہوا ہے کیونکہ منڈی کے مستقل پھیلاؤ اور منافع کا حصول ہمیشہ منڈی کی حدود سے تضاد میں رہتا ہے۔

آج ہر طرز کی ممکنہ چنگاریاں موجود ہیں جو عالمی معیشت میں موجود دیو ہیکل آتشیں مادہ کو بھڑکانے کے لئے تیار ہیں۔ امریکہ چین تجارتی جنگ سے لے کر بریگزٹ اور مشرقِ وسطیٰ میں شدید تناؤ، اطالوی قومی قرضوں کے بحران سے لے کر ماحولیاتی تباہی اور دیگر وجوہات۔۔ ان میں سے کوئی بھی ایک پورے نظام کو دھماکے سے اڑانے کا باعث بن سکتا ہے۔

بحران کیلئے موجود یہ انگنت عملِ انگیز دو اہم نکات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ حقیقت کہ کوئی بھی ایک واقعہ یا حادثہ اگلے بحران کو جنم دے سکتا ہے اور اس سے ہمیں سرمایہ داری کی موجودہ نزاکت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ہیگل نے واضح کیا تھا کہ ضرورت اپنا اظہار حادثے کے ذریعے کرتی ہے۔ اور جب اس قدر ممکنہ ”حادثات“ موجود ہوں جن میں سے کوئی ایک بھی سماج کے پورے معاشی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر سکتا ہو تو پھر اس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل زوال کا اندازہ ہوتا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے کئی محرکات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظام مسلسل زوال کا شکار ہے اور سیاسی اور معاشی بحرانات ایک دوسرے کو تقویت دے رہے ہیں۔

پچھلے معاشی بحران کے وقت سیاست دانوں کے پاس وہ معاشی ہتھیار موجود تھے جنہیں نظام کو بچانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے بچایا گیا، شرحِ سود کو کم کیا گیااور ریاست نے مداخلت کرتے ہوئے وال سٹریٹ اور لندن سِٹی کے کھاتوں کا حساب صاف کر دیا۔

ان اقدامات کے نتیجے میں معاشی توازن کو دوبارہ بحال کیا گیا (عارضی طور پر) لیکن اس کی قیمت بھیانک سماجی اور سیاسی عدم استحکام تھی۔

پچھلے سال پوری دنیا میں ابھرنے والی انقلابی لہر اس حقیقت کا اظہار تھا۔ الجزائر اور سوڈان سے عراق اور لبنان اور چِلی اور ایکواڈور۔ اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ اور یورپ میں شدید سیاسی پولرائزیشن کا عمل جاری ہے جس میں نام نہاد ”معتدل“ سیاست مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔

کوئی صورت نظر نہیں آتی!

اب اس وقت حکمران طبقے کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سر پر منڈلاتے نئے بحران سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلحہ ختم ہو چکا ہے۔

فنانشل ٹائمز کو حال ہی میں بینک آف انگلینڈ کے مارچ 2020ء میں ریٹائر ہونے والے گورنر مارک کارنے نے بتایا کہ ”ماضی کے برعکس اس وقت تمام بڑے بینکوں کے پاس بہت کم اسلحہ رہ گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ صورتحال مستقبل قریب میں جاری رہے گی“۔

جیسا کہ کارنے نے نشاندہی کی ہے کہ صفر کے قریب اور بعض ممالک میں منفی شرح سود کی موجودگی میں مانیٹری پالیسی اپنی حدود کو پہنچ رہی ہے۔ مقداری آسانی سے مستحکم ہونے کے بجائے منڈی پہلے سے زیادہ پر انتشار ہو چکی ہے اور پراپرٹی کے بلبلے۔۔ خاص طور پر نام نہاد ”ابھرتی معیشتوں“ میں۔۔ دیو ہیکل ہو چکے ہیں۔ اور نظام میں مزید قرضوں کی بھرمار کے باوجود منافع کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔

اس لئے کارنے اور یورپی سنٹرل بینک (ECB) میں اس کی ہم منصب کریسٹینا لیگارڈکا شمار ان لوگوں میں ہورہا ہے جو ’مالیاتی پالیسی‘ کے زیادہ استعمال کا پرچار کررہے ہیں یعنی کینیشیئن سرمایہ کاری اور ریاستی اخراجات میں اضافہ۔

ان پالیسی سازوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پچھلے بحران کے نتیجے میں اکٹھا ہونے والا قرضوں کا دیو ہیکل پہاڑ ہے۔ ایسی صورتحا ل میں، جب کاروبار اور گھریلو صارفین ابھی بھی یہ قرضہ اتار رہے ہیں اور منڈیاں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں، سرمایہ کاری یا کھپت میں اضافے کے ذریعے ”مانگ میں اضافے“ کی کوئی امید موجود نہیں۔

انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس (IIF) کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق2019ء کے اختتام تک عالمی قرضہ 255 ٹریلین ڈالر کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ایک دہائی پہلے یہ قرضہ 190 ٹریلین ڈالر سے کم تھا۔ اور سب سے اہم، IIF کے مطابق ”قرضوں کے حجم میں اضافے میں سست روی کے اشارے مل رہے ہیں“۔

قرضوں کا یہ دیو ہیکل پہاڑ پوری دنیا کی سالانہ معاشی پیداوار (GDP) کے 300 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس میں 70 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ریاستی قرضہ، 120 ٹریلین ڈالر کاروباروں اور گھریلو صارفین (عالمی GDP کے 150 فیصد کے برابر) جبکہ بقایا 65 ٹریلین مالیاتی سیکٹر کا قرضہ ہے۔

S&P Global Ratings کے اعدادوشمار میں بھی کچھ یہی کہانی ہے۔ ان کے مطابق کل عالمی قرضہ۔۔ کارپوریٹ، ریاستی اور گھریلو۔۔ مالیاتی بحران کے دس سال بعد 50 فیصد بڑھ چکا ہے۔

ان قرضوں میں خاص طور پر ریاستی قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں ان میں 77 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک دہائی کی خوفناک کٹوتیوں اور سماجی اخراجات، پینشنوں اور نوکریوں میں شدید کمی کے باوجود قومی قرضوں کا حجم دیو ہیکل ہو چکا ہے۔

یہ مہلک مرض صرف ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کو ہی لاحق نہیں۔۔ جیسے کہ جاپان (2008ء میں کل قرضہ GDP کا 201 فیصد، فی الوقت 238 فیصد)، یونان (2008ء میں 126 فیصد، فی الوقت 180 فیصد) اور اٹلی (2008ء میں 112فیصد، فی الوقت 135 فیصد)۔

اس مذکورہ رپورٹ میں ورلڈ بینک ”ابھرتی معیشتوں“ اور ”ترقی پذیر معیشتوں“ میں قرضوں کے بحران کے حوالے سے خبردار کرتا ہے۔ بینک کے مطابق پچھلے چند سالوں میں سابقہ نو آبادیات کے قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ 2018ء کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق کل قرضہ GDP کے 165 فیصد کے برابر ہو چکا ہے۔ 2010ء کے بعد یہ 54 فیصد اضافہ ہے۔ جیسا کہ رپورٹ میں ذکر ہے، قرضوں کی یہ لہر نام نہاد تیسری دنیا میں بے نظیر ہے۔

لیکن اس سارے معاملے میں قرضوں کا سوال محض اعدادوشمار کا سوال نہیں ہے۔ ان قرضوں کو سود سمیت واپس بھی کرنا ہے۔ اس لئے حتمی طور پر یہ ایک سیاسی سوال ہے، ایک طبقاتی سوال ہے کہ کون یہ قرضے واپس ادا کرے گا؟

یورو کا بحران

ایک دہائی سے مسلسل کٹوتیوں کی پالیسی پر گامزن ہونے کے باوجود قرضوں کا سوال ایک بھوت کی مانند یورپ پر منڈلا رہا ہے۔ عالمی معاشی بحران کے دس سال بعد یونان اور اٹلی کے قومی قرضوں میں دیو ہیکل اضافہ ہو چکا ہے۔۔ موخر الذکر اس وقت یورپی بحران کا نکتہ ارتکاز بن چکا ہے۔ اور ان قرضوں میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

سیسیفس کی یونانی دیو مالا میں دیوتا مرکزی کردار کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایک دیوہیکل پتھر کو دھکیلتے ہوئے پہاڑ پر چڑھائے۔ لیکن چوٹی پر پہنچتے ہی وہ پتھر پھر سے لڑھک کر پہاڑ کے دامن میں پہنچ جاتا ہے اور یوں سیسیفس ابدتک اس تکلیف دہ اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔ یہی صورتحال محنت کش طبقے کی ہے جسے کئی سال حملوں اور کٹوتیوں کے آلام و مصائب برداشت کرنے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوا۔

حکمران طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس دنیا میں کہیں ایسی ”مضبوط اور مستحکم“ حکومت موجود نہیں جودرکار کٹوتیاں لاگو کر تے ہوئے قرضوں اور خساروں کے گھن چکر سے نکل کر سرمایہ داروں کے لئے مسابقت اوراعتماد بحال کر سکے۔

یونان، اٹلی اور اسپین کی حکومتیں سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہیں۔ فرانس میں محنت کش طبقے پر خوفناک کٹوتیاں لاگو کرنے کی پاداش میں ماکرون کو پیلی واسکٹ تحریک اور حالیہ پینشن ”اصلاحات کے خلاف شاندار تحریک کی شکل میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔

اس دوران جرمنی میں ساری صورتحال اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ماضی قریب میں جرمن معیشت کو بارہا یورپ کا ”انجن“ بنا کر پیش کیا جاتا رہا جس کی بنیاد اس کی شاندار مسابقتی کار ساز صنعت اور درمیانے درجے کی کمپنیاں تھیں۔ لیکن اس وقت ملک کو ممکنہ کساد بازاری کا سامنا ہے۔

حال ہی میں فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق ”ستمبر تک تین مہینوں میں یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی شرح نمو محض 0.1 فیصد رہی جس کے ذریعے بمشکل کساد بازاری سے بچا گیا۔ جرمن معیشت کی شرح نمو کے پورے اعدادوشمار میں ممکنہ طور پر پچھلے سال کی 1.5 فیصد کے مقابلے میں 2019ء میں شرح نمو 0.5 فیصد رہے گی“۔

حتمی تجزیے میں یہ صورتحال عالمی سرمایہ دارانہ منڈی کی باہم جڑت کی عکاسی ہے۔ جس طرح کوہِ پیما ایک دوسرے کے ساتھ ایک مضبوط رسی کے ذریعے بندھے ہوتے ہیں اسی طرح ہر ملک کی قسمت کا دارومدار دوسرے ملک کی قسمت پر ہے۔ ایک کے گرنے پر سب گریں گے۔

یہ بات یورپی یونین اور خاص طور پر یوروزون کے لئے درست ہے۔ یکساں کرنسی کے اجراء پر مارکس وادیوں نے لکھا تھا کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یورپی پراجیکٹ کا مقدر ناکامی ہے۔

ایک وقت تک سرمایہ داری کی خوشحالی اور ایک یکساں مقصد کے نتیجے میں یونین میں موجود مختلف معیشتوں کے درمیان تضادات دبائے جا سکتے تھے۔ یورپی یونین اور یورو کو سب کے لئے خوشحالی کی علامت بتایا جا رہا تھا، مضافاتی ممالک آسانی سے سستا قرضہ حاصل کر سکتے تھے اور بڑی یورپی اجارہ داریوں کی مصنوعات کے لئے ایک بڑی منڈی موجود تھی۔

لیکن 2008ء کا بحران شروع ہونے کے بعد سارے منصوبے دھرے رہ گئے۔اچانک مختلف معیشتیں مختلف اطراف میں چلنا شروع ہو گئیں۔ برسلز اور برلن میں موجود ٹیکنوکریٹ اور سیاست دانوں کے سخت مطالبات کے تحت کمزور اور کم مسابقتی معیشتوں کو اجرتوں میں کمی اور جبری سماجی کٹوتیاں لاگو کرنی پڑیں۔

لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ جرمن برآمد کنندگان کو۔۔ چینی معیشت میں سست روی، یورپی منڈی میں سکڑاؤ اور محصولات اور ماحولیاتی قواعدوضوابط کی موجودگی میں۔۔مصنوعات کی فروخت میں کمی اور گرتے شرح منافع کا سامنا ہے۔

ING کے معیشت دان کارٹین برزیسکی نے فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ابھی تک یہی نہیں پتہ چل رہا کہ جرمن صنعت کی گراوٹ کہاں جا کر رکے گی۔ گراوٹ کا عمل ابھی بھی جاری ہے“۔

ECB میں اپنی نئی نوکری شروع کرتے ہوئے یورو بحران کے حصے بخرے اکٹھے کرنے کی ذمہ داری کرسٹینا لیگارڈ کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ لیکن کیا لائحہ عمل بنایا جائے؟ اور کس سیاسی بنیاد پر عمل کرایا جائے؟ اور پھر سوال وہیں کھڑا ہے۔۔ قیمت کون ادا کرے گا؟

ظاہر ہے کہ یہ قیمت اٹلی اور یونان کی کمزور مضافاتی معیشتیں یا لیگارڈ کی اپنی جنم بھومی فرانس ادا نہیں کرے گا جہاں سرمایہ دار کٹوتیوں اور سماجی حملوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نہ ہی یہ قیمت ”نئی ہانسیاٹیک لیگ“ کی زیادہ مضبوط اور زیادہ مسابقتی معیشتیں ادا کریں گی جو جنوبی ”سست“ مزدوروں کو مراعات دینے کے لئے ”ذمہ دار“ اور ”دانشمند“ شمال کے خلاف ہیں۔

لیکن جیسا کہ امریکی ریاست کے بانیوں میں سے ایک بنجمن فرینکلن نے امریکی آزادی کے اعلامیے پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”یا تو یہ سب متحد ہوں گے یا پھر علیحدہ علیحدہ مارے جائیں گے“۔

اس وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے یورپی یونین کا شیرازہ بکھرنا ناگزیر ہے۔ صرف ایک متحدہ یورپی سوشلسٹ ریاستوں کا مطالبہ ہی محنت کش طبقے کو آزاد کر سکتا ہے۔

سب سے پہلے امریکہ

یورپ بھی ڈونلڈ ”سب سے پہلے امریکہ“ ٹرمپ اور باقی دنیا کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔

پچھلے سال نومبر میں نیو یارک معاشی کلب کی ایک میٹنگ میں امریکی صدر نے کہا کہ ”یورپی یونین بہت بہت مشکل ہے۔ ان کی رکاوٹیں بہت خوفناک ہیں، بہت خوفناک۔ کئی حوالوں سے یہ چین سے بھی زیادہ خوفناک ہیں“۔

ان خیالات کی ترجمانی حال ہی میں واشنگٹن کے اہم تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹ تھیزر نے امریکی یورپی تجارت کو بیان کرتے ہوئے ان الفاظ میں کی کہ ”یہ تعلق بہت عدم توازن کا شکار ہے“۔

پچھلے سال اکتوبر میں یورپی جہاز ساز کمپنی ائر بس کو دی جانے والی سبسڈیوں کے تنازعے پر امریکہ نے یورپی برآمدات پر 7.5 ارب ڈالر کی محصولات لاگو کر دیں۔ اب ٹرمپ انتظامیہ ان میں اضافہ کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے اور وائٹ ہاؤس اہلکاروں نے مسابقتی یورپی کار ساز صنعت پر مزید محصولات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔

لائٹ تھیزر کا مزید کہنا ہے کہ ”ہمارا یورپ کے ساتھ ایک بنیادی تجارتی مسئلہ ہے۔ ہمیں یورپ کو زیادہ (مصنوعات) بیچنے کا طریقہ تلاش کرنا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ ہم اس پر کام کریں گے“۔

اس بات سے ٹرمپ کی تجارتی جنگ کا نصب العین واضح ہو جاتا ہے کہ باقی سب کی قیمت پر بڑے امریکی کاروباروں کا منافع بڑھایا جائے۔

اگرچہ حال ہی میں یورپ امریکی صدر کے عتاب کا نشانہ بنا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ”سب سے پہلے امریکہ“ مہم کا اصل نشانہ چین ہے۔

دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اور سامراجی قوتوں کے درمیان اختلافات پچھلے اٹھارہ ماہ سے سلگ رہے ہیں۔

2018ء کے موسمِ گرما میں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کی 50 ا رب ڈالر مالیت مصنوعات اور سروسز پر محصولات لگائے لیکن جلد ہی امریکہ نے اپنی دیو ہیکل قوت استعمال کرتے ہوئے اسی سال 200 ارب ڈالر مالیت کی چینی مصنوعات پر 25 فیصد محصولات لاگو کر دیے جس کے بعد مئی 2019ء میں مزید 200 ارب ڈالر کی مصنوعات اور سروسز پر 25 فیصد محصولات لاگو کر دیے گئے۔ اس موقع پر چین محض 60 ارب ڈالر مالیت امریکی مصنوعات پر 25 فیصد محصولات ہی لاگو کر سکا۔

ایک حالیہ معاہدے کے تحت چین زیادہ امریکی مصنوعات خریدے گا جس کے بدلے میں امریکہ محصولات میں کچھ کمی کرے گا۔ لیکن 250 ارب مالیت کی چینی مصنوعات پر ابھی بھی 25فیصد محصولات لاگو ہیں۔

یہ عارضی جنگ بندی دونوں ممالک کے حکمران طبقات کے اضطراب کا اظہار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تحفظاتی پالیسیوں کا اجراء عالمی معیشت کو شدید کساد بازاری کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

پچھلے سال اکتوبر میں فنانشل ٹائمز کے ایک اداریے میں دہائی دی گئی کہ ”سیاست دانوں کو اپنے مستقبل قریب کی قومی جدوجہد سے آگے عالمی معیشت کی بڑی تصویر دیکھنے کی ضرورت ہے جو کئی محاذوں پر تجارتی جنگ کے نتیجے میں لڑکھڑانا شروع ہو گئی ہے“۔

1930ء کی دہائی کے ساتھ مماثلت واضح ہے۔ اس وقت بھی یہ صرف وال سٹریٹ کا انہدام ہی نہیں تھا جس سے پوری دنیا شدید معاشی زوال کا شکار ہو گئی بلکہ یہ ابتدائی مالیاتی بحران کے بعد ”اپنے ہمسائے کو بھکاری بنا دو“ پالیسیاں تھیں جن کے تحت ہر ملک بحران کہیں اور برآمد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

موجودہ عالمی تجارتی بحران کا سب سے واضح اظہار WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کا مفلوج ہونا ہے۔ بریٹن ووڈز ادارہ کھوکھلا ہو کر رہ گیا ہے جو کسی عالمی تجارتی مسئلے کو حل نہیں کر سکتا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے ادارہ کے سامنے لائے جانے والے کیسوں کی جانچ کے لئے ججوں کی تقرری سے صاف انکار کر دیا ہے۔

یہ بند گلی دراصل پرانے ورلڈ آرڈر کی تباہی کااظہار ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج کے گرد منظم ہوا تھا۔

سویا بین اور سیمی کنڈکٹرز

پچھلے سال تجارتی مذاکرات میں واشنگٹن کی مذاکراتی ٹیم نے کوشش کی کہ محصولات کی دھمکی کو سنکیانگ میں چینی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے جوڑ دیا جائے۔ دوسری طرف یورپی قائدین نے امریکی مصنوعات پر کاربن ٹیکس لاگو کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن دونوں معاملات میں یہ گفتگو خالصتاً منافقت ہے۔ ہر جگہ سامراجیوں نے منافعوں اور منڈی تک رسائی کو جمہوریت، انسانی حقوق اور ماحولیات کے دفاع پر ترجیح دی ہے۔

اس کی سب سے سفاک مثال چین ہے جہاں مغربی کمپنیاں کسی بھی قیمت پر چینی منڈی تک رسائی حاصل کرنے کو تیار ہیں۔ ڈزنی جیسی منافعے کی ہوس ماری کمپنیاں (بشمول دیگر) ثابت کر چکی ہیں کہ وہ اپنے کاروباروں کو پھیلانے کے لئے بیجنگ کے آگے سجدے کرنے کو تیار بیٹھی ہیں۔

لیکن جہاں مغربی کمپنیاں تیزی سے پھیلتی چینی منڈی میں اپنی مصنوعات بیچنے کو بیقرار ہیں وہیں بڑے امریکی کاروباری اپنے چینی حریفوں کی طرف سے مسابقت کے حوالے سے بھی چوکنا ہیں جس میں سب سے اہم شعبہ ٹیکنالوجی ہے۔

اسی بنیاد پر امریکی مذاکراتیوں کا امریکہ چین تجارتی جنگ کے حوالے سے سب سے زیادہ اصرار یہ ہے کہ بیجنگ آرٹیفیشل انٹیلی جنس جیسے چوٹی کے شعبوں کی امداد بند کرے۔

غرضیکہ یہ تجارتی جنگ سویا بین اور اسٹیل کی نہیں بلکہ سیمی کنڈکٹرز اور سپر کمپیوٹرز کی ہے یعنی ان ذرائع پیداوار سے متعلق جو امریکی (اور یورپی) صنعت کی عالمی بالادستی کو مستقبل میں چیلنج کر سکتے ہیں۔

لیکن یہ وہ شعبے ہیں جن میں چینی ایک حد تک مفاہمت کرنے کو تیار ہیں۔ وہ (کچھ حدتک) امریکی مصنوعات کی زیادہ خریداری پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ کبھی بھی ان معاملات میں سمجھوتا نہیں کریں گے جن میں ان کا اپنا ”چین کو دوبارہ عظیم بنا ؤ“ منصوبہ متاثر ہوتا ہو۔

اور اسی لئے موجودہ تجارتی معاہدہ ایک مستقل سمجھوتے کے بجائے محض ایک عارضی جنگ بندی ہے۔۔ ایک ایسی کیفیت جو کبھی بھی دو سامراجی قوتوں کے درمیان قائم نہیں رہ سکتی جن میں سے ایک زوال پذیر ہے اور ایک عروج پذیر۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب عالمی منڈی لبریز ہو چکی ہے اور سکڑاؤ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔

جب امریکہ کو چھینک آتی ہے۔۔۔

عالمی معیشت میں اپنی دیو ہیکل بالادستی کی وجہ سے جب امریکہ کو چھینک آتی ہے تو باقی دنیا کو زکام لگ جاتا ہے۔ امریکی سرمایہ داری کی عالمی اہمیت کا اندازہ ڈالر کی بے مثال طاقت سے ہوتا ہے جو عالمی کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس لئے ڈالر اور امریکی خزانہ گھبرائے ہوئے سرمایہ کاروں کے لئے محفوظ جنت ہیں۔ اس لئے امریکی فیڈرل ریزرو کے فیصلوں کے قابلِ ذکر عالمی اثرات پڑتے ہیں۔

یہ حقیقت جاننے کے لئے کسی مشاہد کو امریکی سامراج کے پچھواڑے لاطینی امریکہ سے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔

ایک طرف وینزویلا اور دیگر خطوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ٹرمپ انتظامیہ ڈالر کو اپنے اسلحہ خانہ کے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ امریکی پابندیاں ان ممالک کی معیشتوں کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جو امریکی سامراج کے آگے سر نگوں نہیں ہوتے۔

دوسری طرف ارجنٹائن اور دیگر ”ابھرتے“ ممالک میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح معیشتیں فیڈرل ریزرو کے مقداری آسانی پروگرام کو کم کرنے کے فیصلے پر تباہ ہو رہی ہیں۔۔ یعنی عالمی نظام میں ڈالر کے سستے انجیکشن کو ختم کیا جا رہا ہے۔

مقداری آسانی کا یہ پیسہ زیادہ تر ”گرم“ پیسہ ہوتا ہے جو تیزی سے ممالک میں آتا جاتا رہتا ہے، پراپرٹی اور شیئرز کو خرید کر ان کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے اور بالآخر کسی پیداواری عمل میں سرمایہ ہونے کے بجائے املاک کے دیو ہیکل بلبلے بنانے کا باعث بنتا ہے۔ اس سے ادراک ہوتا ہے کہ کس طرح مقداری آسانی عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کے بجائے سرمایہ داری کے عالمی انتشار میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بن چکی ہے۔

اس سٹے بازی کا اظہار اسٹاک منڈی اور سونے جیسی مصنوعات کی قیمتوں میں تیز تر اتار چڑھاؤ میں ہوتا ہے۔ یہ ”کرپٹو کرنسی کے پاگل پن“ اور سرمایہ کاروں کی نئی سے نئی ”معجزاتی“ٹیکنالوجی کی دیوانہ وار تلاش اور آرٹ اور مہنگی شرابوں کی منڈیوں میں دیو ہیکل سرمایہ کاری میں بھی اپنا اظہار کر رہا ہے۔

ریاستی بانڈز کی بھی بے پناہ مانگ موجود ہے۔۔ یہ ان گھبرائے ہوئے سرمایہ کاروں کے لئے محفوظ نخلستان ہیں جن کو اپنے سرمائے کیلئے منافع بخش جنتیں نہیں مل رہیں۔ یہ Yield Curveکے الٹے ہونے کی وجہ ہے جس میں طویل معیاد قرضوں کی شرح سود مختصر معیاد قرضوں سے کم ہے یعنی سرمایہ دار خود اپنے نظام میں اعتماد کھو چکے ہیں۔

مصیبت زدہ چین

اس وقت چین میں شرحِ نمو خطرناک حد تک سست روی کا شکار ہے۔ ورلڈ بینک کی پیش گوئی کے مطابق 1990ء کے بعد پہلی مرتبہ چین کی شرحِ نمو سالانہ 6 فیصد سے نیچے گر جائے گی۔ مقتدر ذرائع کے مطابق یہ سطح وہ آخری حد ہے جس سے نیچے معیشت دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے کروڑوں افراد کے روزگار کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی۔

اس کے ساتھ چینی حکومت کو معیشت کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامناہے کیونکہ وہ قرضوں کی بنیاد پر پھیلاؤ اور قرضوں میں ہی کمی کی بنیاد پر کساد بازاری کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

قرضوں کا بڑھتا دیو ہیکل حجم۔۔ خاص طور پر مقامی حکومتوں میں جو مسلسل کینیشیئن اسٹ عوامی سرمایہ کاری منصوبوں میں پیسہ بہا رہے ہیں۔۔ حکمرانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ پچھلے سال IIF کے اندازوں کے مطابق اس وقت کل چینی قرضہ (کارپوریٹ، گھریلو اور حکومتی) 40 ٹریلین ڈالر یا کل پیداوار کا 300 فیصد ہو چکا ہے۔ یہ کل عالمی قرضے کا 15 فیصد بنتا ہے۔

لیکن اس وقت سستی ہیروئن کی اس فراہمی کو بند کرنا تباہ کن ہو گا۔ مغرب کی طرح چینی سرمایہ داروں کو سستے قرضوں کی لت لگ چکی ہے۔ ”نیم زندہ سرمایہ داری“۔۔ غیر مسابقتی کارپوریشنیں جنہیں مسلسل کم شرح سود اور ریاستی سبسڈیوں پر زندہ رکھا جا رہا ہے۔۔ ملکی معیشت کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی ہے۔

یہی ریاستی سرپرستی اسٹیل، بحری جہازوں اور سمارٹ فونز کی بھرمار سے عالمی زائد پیداوار کے بحران کو اور زیادہ شدید کر رہی ہے۔

اس صورتحال کے اثرات دنیا کے دوسرے کونے میں دیکھے جہاں سکتے ہیں جہاں برطانیہ میں فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، ویلز کی سٹیل فیکٹریوں یا شمالی آئرلینڈ کے ہارلینڈ اور وولف جہاز سازی کے علاقوں میں روزگار ختم ہو رہا ہے۔لیکن اس کا اظہار ایپل جیسی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے منافعوں میں قابلِ ذکر کمی کے ذریعے بھی ہو رہا ہے جو اپنی حدود کو پہنچی عالمی منڈی میں اپنی بے تحاشا مصنوعات بیچنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں۔

یہ ساری صورتحال واضح کرتی ہے کہ تحفظاتی پالیسیاں کیوں اپنائی جا رہی ہیں۔ اور پھر ساتھ ہی یہ ادراک بھی ہوتا ہے کہ کس طرح عالمی طور پر پیداواری قوتوں نے قومی ریاست اور سرمایہ دارانہ منڈی کی محدود حدود کو چیر کر رکھ دیا ہے۔ یہ منافع کی بنیاد پر قائم نظام پر شرمناک فردِ جرم ہے جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے درست طور پر کمیونسٹ منیفیسٹو میں بیان کیا تھا۔ ”سماج اچانک اپنے آپ کو عارضی بربریت میں گھرا پاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک قحط، ایک عالمی تباہ کن جنگ نے زندہ رہنے کے تمام ذرائع ختم کر دیے ہیں، صنعت اور تجارت برباد ہوئے نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟ کیونکہ بہت زیادہ تہذیب، بہت زیادہ ذرائع زندگی، بہت زیادہ صنعت، بہت زیادہ تجارت موجود ہے“۔

تباہی و بربادی

انہی صفحات کے آغاز میں مارکس اور اینگلز واضح کرتے ہیں کہ ”اپنی مصنوعات کے لیے مسلسل منڈی کے پھیلاؤ کی ضرورت پوری دنیا میں بورژوازی کا پیچھا کرتی ہے۔ (مسلسل منڈی کا پھیلاؤ) اسے ہر جگہ گھسنا ہے، ہر جگہ سمانا ہے، ہر جگہ روابط پیدا کرنے ہیں“۔

ایک دور میں ”عالمگیریت“ سرمایہ داروں کی قوت تھی جس کے ذریعے انہیں سستی محنت اور خام مال تک رسائی حاصل تھی (بڑی منڈیوں سمیت) اور نتیجتاً زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہوتا تھا۔ اس وجہ سے چیف ایگزیکٹیوز اور سرمایہ کاروں کی سوویت یونین کے انہدام اور چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی سے رالیں ٹپکنے لگیں۔

لیکن اب عالمی طور پر باہم مدغم سپلائی چینز مالکان کیلئے دردِ سر بن چکی ہیں۔ہر جگہ محصولات اور تجارتی پابندیوں کے نمودار ہونے پر بڑی عالمی اجارہ داریاں نئے قومی سپلائرز کی تلاش کیلئے تگ و دو کر رہی ہیں۔ پرانی سپلائی چینز کی اکھاڑ پچھاڑ سے قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ”رسد“ کے جھٹکے اور نتیجتاً قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ اور ایران ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہے ہیں جس کی وجہ سے عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے اور نتیجتاً تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے توانائی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے اور پھر حتمی طور پر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن تہران کے ساتھ تنازعے کو ایک حد سے آگے بڑھانے میں سنجیدہ نہیں۔

ساتھ ہی کئی پالیسی سازوں کیلئے افراطِ زر کا نہ ہونا تشویشناک ہے۔ لبریز منڈیوں اور ”زائد پیداوار“ کی موجودگی میں قیمتوں میں کمی کا شدید دباؤ موجود ہے جس کی وجہ سے افراطِ زر انتہائی کمزور ہے، یہاں تک کہ ”تفریطِ زر“ کا خدشہ لاحق ہے۔

اس وقت مرکزی بینکوں کے افسران کو شدید افراطِ زر اور خطرناک تفریطِ زر کے درمیان غیر مستحکم توازن قائم رکھنے کی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام عمومی طور پر کس عدم استحکام کا شکار ہے اور یکے بعد دیگرے بحرانات اس نظام کا مقدر بن چکے ہیں۔

ان کے معاشی ماڈل خاکستر ہو رہے ہیں۔ افراطِ زر اور بیروزگاری کو جوڑنے والی ”Phillips Curve“ اب بیکار ہو چکی ہے۔ اور حقیقی دنیا میں اگر رسد کا جھٹکا نئے بحران کے ساتھ ہی نمودار ہوتا ہے تو پھر سرمایہ داروں کو ناقابلِ برداشت Stagflationکا سامنا ہو گا جو آخری مرتبہ 1970ء کی دہائی میں نمودار ہوا تھا۔۔ یعنی بے قابو قیمتیں، معاشی جمود اور کساد بازاری۔

نیا معمول

اس ساری صورتحال کے نتیجے میں سیاسی پولرائزیشن، سماجی عدم استحکام اور شدید ہوتی طبقاتی جدوجہد میں اضافہ ہوگا۔ اور پھر حتمی طور پر عالمی معیشت کی باریک بینی سے تجزیہ نگاری کا یہی حقیقی مقصد ہے۔۔ واقعات کی الہامی پیش گوئی نہیں بلکہ سرمایہ داری کے بحرانات کا شعور پر اثر اور عالمی انقلاب کا ارتقاء۔

حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی طرف اب کوئی واپسی ممکن نہیں۔ سٹیٹس کو حتمی اور مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔”معمول“ کی طرف واپسی ناممکن ہے۔ جیسا کہ پچھلی ایک دہائی کے طوفان اور تناؤ واضح کرتے ہیں۔۔ جدوجہد اور تنازعات۔۔ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔۔ ایک نیا ”معمول“۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دور میں سوشلسٹ انقلاب کا سوال یقینی طور پر موجود ہو گا۔ اگلے دور کا سب سے اہم فریضہ اس گلے سڑے نظام کو اکھاڑ پھینکنا اور سرمایہ داری کو تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بنانا ہے۔