جاپان: وزیرِ اعظم سوگا کا استعفیٰ اور سیاسی استحکام کا خاتمہ

3 ستمبر بروز جمعہ جاپان کے وزیرِ اعظم یوشی ہیدے سوگا نے اعلان کیا کہ وہ اس ماہ اپنی سیاسی پارٹی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) کی قیادت کے لئے ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے گا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ وزیرِ اعظم بننے کے بمشکل ایک سال بعد ہی منصب سے دستبردار ہو رہا ہے۔ لیکن جاپانی سرمایہ داری کے عمومی بحران کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ سوگا کے سیاسی کیریئر کے ساتھ، پچھلی ایک دہائی میں جاپانی حکمران طبقے کی کوششوں سے قائم کردہ نسبتاً سیاسی استحکام بھی ختم ہو رہا ہے۔ جاپان میں سیاسی عدم استحکام کا ایک نیا عہد طلوع ہو رہا ہے۔


[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

چلتی پھرتی لاش

یوشی ہیدے سوگا کی وجہ شہرت سابق وزیرِ اعظم شینزو آبے سے قریبی تعلق ہے۔ پچھلے سال اس نے قیادت کی جنگ اسی بنیاد پر جیتی تھی کہ وہ سٹیٹس کو برقرار رکھے گا اور سیاسی استحکام میں خلل نہیں آنے دے گا، جیسا کہ آٹھ سالہ دور اقتدار میں آبے نے کیا۔

آبے نے جاپان میں ”آبے معاشیات“ کے نام سے مشہور معاشی اقدامات کے ذریعے LDP کی غیر معمولی سبقت کو برقرار رکھا۔ یہ اقدامات جبری کٹوتیوں، خسارہ اخراجات اور کرنسی کی عمومی گردش بڑھانے کا ملغوبہ تھے جن کا مقصد جاپان میں افراطِ زر کی شرح کو بڑھاناتھا۔ آبے کے تمام تر دعووں کے باوجود ان اقدامات سے جاپانی معیشت ”بحال“ نہیں ہو سکی۔ اگرچہ بڑی اجارہ داریوں اور امراء نے ان اقدامات کی موجودگی میں بے پناہ منافع کمایا لیکن جاپانی معیشت جمود کا شکار رہی۔ بہرحال آبے کے دورِ حکومت میں کوئی بڑا بحران یا انحطاط رونما نہیں ہوا اور اسی سطحی استحکام کا سہرا اس نے اپنے سر باندھا ہوا ہے۔

لیکن سوگا کا دورِ حکومت مستحکم ہونے کے علاوہ باقی سب کچھ تھا۔ اس کی قیادت میں اس وقت پورے ملک میں کورونا وباء نے تباہی مچا رکھی ہے اور اب اَن گِنت لاک ڈاؤن لاگو کرنے کے باوجود پورا ملک پانچویں لہر (16 ہزار 729 نئے مریض یومیہ) کی ہولناک لپیٹ میں ہے۔ اس تحریر کے وقت جاپان کی صرف 49 فیصد آبادی ویکسین سے فیض یاب ہو سکی ہے۔ سال 2020ء میں معیشت 4.7 فیصد سکڑی اور صرف اس سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت 5.1 فیصد سکڑ چکی ہے۔ لاک ڈاؤن میں حالاتِ زندگی کی تباہی کا اظہار خودکشیوں کی شرح میں تیز ترین اضافے سے ہو رہا ہے جس میں زیادہ تر خواتین، بچے اور نوجوان شامل ہیں۔

وبا کے دوران دم گھونٹتے اقدامات مسلط کرنے کے ساتھ سوگا نے عوامی نفرت کے شکار کچھ مزید اقدامات بھی مسلط کئے۔ دیگر اقدامات میں اس کا یہ اصرار بھی شامل تھا کہ فوکوشیما جوہری توانائی پلانٹ سے اکٹھا ہونے والا شعاع ریزہ پانی سمندر برد کیا جائے۔ لیکن سب سے زیادہ قابلِ نفرت اقدام اولمپک کھیلوں کو منعقد کرانا تھا، اگرچہ 83 فیصد جاپانی عوام اس کی شدید مخالفت کر رہی تھی۔

ان تمام اقدامات کے ساتھ ایک کرپشن اسکینڈل بھی افشاں ہوا جس میں خود سوگا کا بیٹا ملوث تھا۔ اس صورتحال میں سوگا اور حکمران LDP حکومت کی مقبولیت زمین بوس ہو چکی ہے۔ اس حکومت کے خلاف سیاسی عدم اطمینان پہلے ہی واضح تھا کیونکہ اولمپک کھیلوں سے قبل سوگا کی حمایت 32.2 فیصد تک گر چکی تھی اور LDP جولائی میں ٹوکیو میٹروپولیٹن اسمبلی انتخابات جیتنے میں ناکام رہی۔ اولمپکس کے بعد سوگا کی مقبولیت 28 فیصد تک گر گئی۔ اس کے بعد LDP کو جاپان کے دوسرے بڑے انتخابی اور خود سوگاکے اپنے پارلیمانی حلقے یوکوہاما کے میئر انتخابات میں شرمناک شکست ہوئی۔

اب سوگا کا حشر نوشتہ دیوار ہو چکا تھا۔ اگر سوگا پارٹی کی قیادت سے دستبردار نہیں ہوتا تو اس نومبر میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں LDP کسی صورت اپنی پارلیمانی اکثریت قائم نہیں رکھ سکتی۔ ان حالات میں LDP میں موجود مختلف دھڑوں نے اس کے خلاف چالیں چلنی شروع کر دیں۔

کوچیاکی دھڑے کے بوالہوس قائد فومیو کیشیدا نے پہلی چال چلی۔ 28 اگست کو کیشیدا نے اچانک LDP کی اعلیٰ قیادت کے لئے مخصوص مدت مقرر کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ درحقیقت یہ سوگا کے نائب توشی ہیرو نیکائی پر کاری وار تھا جو پانچ سال سے LDP کا سیکرٹری جنرل ہے۔ کیشیدا کے مطالبے پر LDP میں دوسری اور تیسری پرت کی قیادت بھی متحرک ہو گئی جو سوگا اور نیکائی کی قیادت سے نالاں ہیں۔ اس دوران پارٹی کی طاقتور شخصیات جیسے شینزو آبے اور موجودہ نائب وزیرِ اعظم تارو آسو نے اپنے آپ کو سوگا سے علیحدہ کرنا شروع کر دیا۔ سوگا کی سیاسی تنہائی سب پر واضح ہو گئی۔

شدید ہیجان میں اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں سوگا نے ایک بیوقوفانہ چال چلی۔ اس نے کوشش کی کہ LDP کی اعلیٰ قیادت کو تبدیل کر دیا جائے، یہاں تک کہ اس نے کچھ وقت حاصل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے پر بھی سوچ بچار کی۔ لیکن بدقسمت سوگا کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی۔ ستمبر کے آغاز میں سوگا ہوا میں معلق تھا۔ بالآخر حالات نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ دستبرداری کا اعلان کرے۔

سوگا حکومت کے آخری دنوں کا مشاہدہ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی اعلیٰ پائے کا جرم پر مبنی سیاسی ڈرامہ ہو۔ درحقیقت جس دن اس نے منصب سنبھالا اسی دن وہ ایک چلتی پھرتی لاش بن گیا۔ سوگا کو آبے سے میراث میں زہر کا پیالہ ملا، یعنی ایک ایسا ملک جس کی معیشت مسلسل جمود کا شکار ہونے کے ساتھ کئی سماجی بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔ سوگا کے حاکم بننے سے پہلے ہی وباء جاپان پہنچ چکی تھی جس میں ڈائمنڈ پرنسس بحری جہاز میں وباء پھیلنے کا واقع بھی شامل ہے۔ وباء کی پہلی لہر میں جاپان کے سست ردِ عمل کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حیران کن طور پر ڈاکٹروں کو کورونا کیس رپورٹ کرنے کے لئے فیکس مشین استعمال کرنا پڑتی تھی۔ یہ ٹیکنالوجی کی پسماندگی کا اظہار نہیں ہے کیونکہ جاپان کم از کم ٹیکنالوجی میں پسماندہ نہیں ہے۔۔بلکہ یہ جاپانی شعبہ صحت میں موجود ہزاروں افسر شاہانہ بندشوں کا اظہار ہے۔

اگر سوگا ایک بیوقوف شاہی افسر نہ بھی ہوتا۔۔جو وہ ہے۔۔تو بھی وہ اپنے آپ کو ایسے بحرانوں میں گھرا پاتا جو بہت جلد اس کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جاپانی سرمایہ داری کا بوڑھا انحطاط پذیر نظام تیزی سے بکھر رہا ہے اور اب کسی قسم کی ماہرانہ سیاسی بصیرت اس گلی سڑی غلاظت کی پردہ پوشی نہیں کر سکتی۔

صرف سوگا ہی نہیں

سوگا کی دستبرداری کے بعد پیدا ہونے والے طاقت کے خلاء کو پر کرنے کے لئے LDP کے تمام بڑے جغادری میدان میں اتر گئے ہیں۔ دیگر کے علاوہ فومیو کیشیدا نے اپنی امیدواری کا اعلان کر دیا ہے۔ تارو کونو، جو ’موجودہ ویکسین زار‘ کے لقب سے مشہور ہے، کو LDP کی قیادت کی دوڑ میں سرِ فہرست بتایا جا رہا ہے۔ شینزو آبے نے سابق وزیرِ داخلہ امور اور مواصلات سانائے تاکائچی کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جو ”آبے معاشیات“ کو لے کر آگے چلے گا۔

ان تمام افراد کی بدقسمتی یہ ہے کہ سوگا کی عدم موجودگی کے باوجود نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں فتح کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اگست کے اختتام میں مائنچی شِم بن کی ایک رائے شماری کے مطابق LDP اس وقت 26 فیصد مقبولیت کے ساتھ دیگر سیاسی پارٹیوں سے آگے ہے لیکن اس کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ 42 فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک کسی پارٹی کی حمایت نہیں کرتے۔ اگر نومبر عام انتخابات میں عوامی شرکت کم رہتی ہے تو شائد LDP کو حکومت قائم رکھنے کا موقع مل جائے۔ لیکن اگر عوام اکثریت میں نکل کر LDP کو یوکوہاما میئر انتخابات کی طرح کرپشن، نااہلی اور لالچ کی سزا دیتے ہیں تو یقینا LDP شکست خوردہ ہو سکتی ہے۔

عام انتخابات میں LDP کو فتح ہو یا شکست، موجودہ عمومی عمل تبدیل نہیں ہو گا۔ جاپان میں نسبتاً سیاسی استحکام کا عہد ختم ہو چکا ہے۔ جاپان میں مستقبل کی حکومتوں کو وہ استحکام اور دوام میسر نہیں ہو گا جس کی سابق حکومتیں مزے لوٹتی آئی ہیں۔ جاپانی سرمایہ داری کے تضادات اپنا دھماکہ خیز اظہار کرنا شروع ہو چکے ہیں اور ماضی کے اقدامات سے اب ان کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔

لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کابحران کس چیز کی نشانی ہے؟

جاپان میں شروع ہونے والا سماجی و سیاسی عدم استحکام کا دور جو خود جاپانی اور عالمی معاشی بحران کا تسلسل ہے، بیشتر دنیا سمیت پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔ اس کی بنیادی وجہ جاپان کا عالمی سرمایہ دارانہ معیشت میں کلیدی کردار اور خاص طور پر بحر اوقیانوس میں طاقتوں کا توازن ہے۔

آج بھی جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے اور ایشیاء کے سب سے بڑے نجی بینکوں اور دیگر کمپنیوں کا اہم گڑھ ہے۔ یہ ملک ایشیاء میں مغربی سامراج کا ایک کلیدی اتحادی ہونے کے ساتھ G7 جیسی سامراجی تنظیموں کا ممبر بھی ہے۔ جاپانی سرمایہ مغربی سرمائے کے ساتھ انتہائی عمیق تعلق میں موجود ہے اور اس وجہ سے یہ چین جیسی ابھرتی نئی قوتوں کے خلاف امریکی قیادت میں سامراجی کوششوں کا ایک کلیدی نامیاتی حصہ ہے۔

اس کردار کی بنیاد پر جاپانی حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ریاست نے کیا ہے جس کی مضبوط باگ ڈور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ایک طویل عرصے تک LDP کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد منعقد ہونے والے پہلے عام انتخابات کے بعد 63 سالوں میں سے 59 سال LDP نے حکومت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ LDP بذاتِ خود جاپانی بورژوا ریاست کے ساتھ انتہائی عمیق تعلقات میں مدغم ہے۔ سادہ الفاظ میں LDP کا بحران درحقیقت جاپانی سرمایہ دارانہ ریاست کا بحران ہے۔

اپنی بنیاد میں LDP بڑی بورژوازی، علاقائی سرپرستانہ نیٹ ورکس، دائیں بازو کے پیٹی بورژوا قوم پرستوں اور یاکوزا مجرموں کا ایک دیو ہیکل اتحاد ہے۔ یہ قدامت پرست اتحاد جاپانی حکمران طبقے کا محبوب اوزار رہا ہے۔ اس کے ستم ظریف نام (لبرل ڈیموکریٹک پارٹی، جو لبرل ہے نہ ڈیموکریٹک) کے باوجود لبرلز کے اثرورسوخ کو کوڑے دان میں پھینکا جا چکا ہے۔

دوسری طرف LDP کی مخالفت میں تاریخی طور پر محنت کش تحریک میں سوشلسٹ پارٹی موجود تھی جس کی عوامی حمایت اور ٹریڈ یونینز میں جڑیں موجود تھیں۔ لیکن دہائیوں کے سفر میں اس پارٹی کی اصلاح پسندانہ پالیسی کے تحت غلطیوں اور دھوکوں کی وہ بھرمار رہی ہے جس نے اسے ایک بونا بنا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان میں بائیں بازو کی غلطیوں اور دھوکے بازیوں سے حاصل ہونے والے اسباق اس مضمون کا مطمع نظر نہیں ہیں۔ یہاں یہی کہنا کافی ہے کہ LDP کی طویل عمر کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ آج تک اسے کسی سنجیدہ مخالفت کا سامنا نہیں رہا۔

حکمران طبقہ پرانے طریقوں سے حکمرانی کرنے میں ناکام ہو رہا ہے جس سے اس میں پھوٹ پڑنا شروع ہو گئی ہے ا ور اس کی بنیاد طویل عرصے میں پنپنے والے دیو ہیکل تضادات ہیں۔ جاپان میں LDP کی اندرونی لڑائیوں کا واضح مطلب جاپانی حکمران طبقے میں پھوٹ پڑنا ہے۔ اس وقت LDP میں موجود سات بڑے دھڑے شدید عدم اتحاد کا شکار ہیں۔ ستمبر کے اختتام تک کون پارٹی کا نیا قائد بنتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ ماضی میں آبے کی طرح کوئی ”مفاہمتی قائد“ نہیں ہو گا۔ سازشیں اور توڑ پھوڑ LDP کا شیرازہ مزید بکھیرتے رہیں گے۔

ایک منقسم LPD کا مطلب یہ ہے کہ اب حکمران طبقہ تسلسل کے ساتھ اپنا ایجنڈہ مسلط کرنے کے قابل نہیں رہا۔ مستقبل میں اپنی حکمرانی کو دوام دینے کے لئے یہ کیا کر سکتے ہیں؟ ایک پر انتشار LDP یا چھوٹی پارٹیوں کا مخلوط چوں چوں کا مربہ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلی حکومت تضادات اور انتشار میں اگر سوگا حکومت سے زیادہ نہ بھی ہو تو کم بھی نہیں ہو گی۔

عالمی طور پر ایک عدم استحکام کا شکار جاپانی حکومت مغربی سامراج کے لئے سنجیدہ مسائل پیدا کرے گی۔ مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ جاپانی تعاون کو ایک طویل عرصے سے معمول سمجھا جاتا رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے جاپان اب امریکی سامراج کے حساب کتاب اور خاص طور پر چین کے خلاف کوششوں میں ایک مستقل سے متغیر میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس سال سوگا نے پہلے ہی تائیوان کے مسئلے پر چین کی مخالفت میں امریکی تعاون پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر دیا ہے۔ مستقبل میں جاپانی حکومتیں امریکہ کے لئے ماضی کے برعکس قابلِ اعتماد نہیں ہوں گی۔

آگے کیا ہو گا؟

جاپان میں سیاسی انتشار کی بنیاد میں دیو ہیکل سماجی بحران موجود ہے۔ ”آبے معاشیات“ اب جاپان کی جان کچلتی جمود کا شکار معیشت کی مزید پردہ پوشی نہیں کر سکتی۔ حکمران طبقہ انتہائی مایوسی میں اس بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے جس نے اب منظر عام پر آنے والی پھوٹ کو جنم دیا ہے۔

اس دوران جاپانی عوام میں ایک حقیقی سیاسی متبادل کی پیاس سلگ رہی ہے۔ جس رائے شماری کا پہلے حوالہ دیا جا چکا ہے اس کے مطابق جاپان میں سب سے زیادہ ”مقبول“ سیاسی پارٹی ”کوئی پارٹی نہیں“ ہے۔ یہاں یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ صرف LDP کی ساکھ ہی مجروح نہیں ہو رہی۔ تمام بڑی اور چھوٹی پارٹیاں اس دوران انحطاط کا شکار ہوئی ہیں جن میں جاپانی کمیونسٹ پارٹی (JCP) بھی شامل ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پوری جاپانی سیاسی اسٹیبلشمنٹ قابل نفرت بن چکی ہے اور جلد یا بدیر اس کا کسی شکل میں اظہار بھی ہو گا۔

تمام سیاست دانوں کے خلاف شدید عدم اعتماد اور نظام کے خلاف غم و غصے کا اظہار ٹوکیو میں ایک برسر روزگار طالب نے ان الفاظ میں کیا:

”ایسا لگتا ہے کہ یہ (سیاست دان) کسی اور ہی سیارے پر زندہ ہیں اور ہم جیسی کم اجرتی عوام کی زندگیوں سے مکمل طور پر بے بہرہ ہیں۔ عام عوام پر لگائے جانے والے گراں قدر ٹیکس ان کی جیبوں میں جاتے ہیں اور اس وجہ سے مجھے شدید غصہ چڑھتا ہے۔۔جاپان کا معاشی بلبلہ پھٹ چکا ہے اور ہمارے سیاست دان پرانا بدبودار کچرا ہیں جو اپنے پرانے طریقوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور وقت کے دھارے کے خلاف کام کر رہے ہیں“۔

بدقسمتی سے اس وقت محنت کش طبقے کے پاس کوئی حقیقی متبادل موجود نہیں جو اس غم و غصے کو سماج کی تبدیلی کے لئے ایک طاقتور تحریک میں تبدیل کر دے۔ اگرچہ LDP شدید کمزور ہو چکی ہے لیکن اس وقت حزب اختلاف میں مطلوبہ عوامی حمایت کے ساتھ ایسی کوئی پارٹی موجود نہیں جو اس کا متبادل بن سکے۔ بورژوا لبرل کونسٹی ٹیوشنل ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان (CDPJ) اس وقت حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن اسے دیگر حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کے ساتھ ایک اتحاد تشکیل دے کر ایک معتبر ”LDP مخالف“ پلیٹ فارم بنانا پڑے گا۔ ٹھوس بنیادوں پر یہ پلیٹ فارم کیا ہو گا اور اسے جاپانی عوام میں کیا پذیرائی ملے گی، ایک سوالیہ نشان ہے۔

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ CDPJ جیسا بھی اتحاد بنا کر ایک حکومت بنا لے وہ سماجی بحرانوں کے دباؤ کو کنٹرول نہیں کر سکے گی جن کا حتمی تجزیئے میں سرمایہ داری میں کوئی حل موجود نہیں۔

اس لئے جاپان سیاسی عدم استحکام اور غیر فعال حکومتوں کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ حقیقی تبدیلی کے لئے شدید پیاس کی موجودگی میں وہ دراڑیں پڑیں گی جن میں سے ایسی نئی تحریکیں اور جدوجہدیں جنم لیں گی جن کی مثال پچھلی دہائیوں میں نہیں ملے گی۔

ایک طویل عرصے سے۔۔اور تاریخ بھی یہی ہے۔۔جاپان کو ایک غیر معمولی مستحکم ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن اس ظاہری استحکام نے دہائیوں کے معاشی جمود اور حالیہ تیز ترین معاشی گراؤٹ میں پنپنے والے دیو ہیکل تضادات کی محض پردہ پوشی کی ہے۔ ملک اب ایک دوراہے پر کھڑا ہے جس کا اظہار LDP کے شدید سیاسی بحران میں ہو رہا ہے۔ مستقبل میں پیدا ہونے والے پر انتشار دور میں دنیا جاپانی سماج میں بننے والے دیو ہیکل طبقاتی تضادات کو واضح طور پر دیکھے گی اور محنت کش طبقہ زیادہ سے زیادہ پورے جاپانی حکمران طبقے کے ساتھ کھلی لڑائی میں اترنے پر مجبور ہو گا۔ جاپانی عوام اس وقت پوری دنیا میں اپنے طبقاتی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں اترنے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ جدوجہد سب سے زیادہ شعور یافتہ جاپانی محنت کشوں اور نوجوانوں کے اذہان میں سرمایہ داری کے خاتمے میں کے لئے واضح مارکسی نظریات پر کاربند ایک قیادت اور ایک عالمی تناظرکی ضرورت کو اجاگر کرے گی۔ عالمی مارکسی رجحان پوری دنیا میں یہ قیادت تعمیر کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے اور ہم کھلی بانہوں کے ساتھ جاپان کے انقلابی محنت کشوں اور نوجوانوں کو ساتھ شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔