سوشل ڈیموکریسی: انقلابی سوشلزم کا سبوتاژ!

نظریات سے عاری سیاست کی پارٹیاں اور رہنما ایسے شتر بے مہا بن جاتے ہیں جن کی کوئی سمت ہوتی ہے نہ مقصد اور منزل۔ حالیہ لانگ مارچوں اور دھرنوں کے سرخیل لیڈروں کی نان سٹاپ تقاریرمیں تذبذب، تضاد، مضحکہ خیز استدلال اور بے معنی وعظ و نصیحت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہ ’خطبات‘ ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ اور فہم سے بالاتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک فرد کی تقریر میں تھوڑی سی تاخیر سے بھی ’کنسرٹ‘ کے شرکا کے جذبات ٹھنڈے پڑنے لگتے ہیں۔ ’’انقلاب‘‘ کا یہ تماشا ثقافت سے محروم حکمرانوں کے ایک مصنوعی شہر میں رچایا جارہا ہے جو معاشی اور صنعتی طور پر غیر اہم ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اور سیاسی طور پر کسی انقلابی روایت سے عاری ہے۔

ذاتیات، شخصیات اور انفرادی قیادت کی تقلید کرنے والے، کسی نجات دہندہ کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرنے کی لاغر نفسیات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ ’’محنت کش طبقے کی نجات کا فریضہ صرف محنت کش طبقہ خود ہی ادا کرسکتا ہے۔ ‘‘ افراد کی پیروی اور مریدی میں چلنے والی تحریکیں کبھی بھی سماج کی تقدیر نہیں بدل سکتیں۔ فرد کتنا بھی عظیم ہوجائے وہ بیک وقت فلسفے، نظرئیے، دانش، سیاست، تجربے اور لائحہ عمل پر عبور حاصل کرنے والی ’’عقل کل‘‘ نہیں بن سکتا۔ انقلابات ہمیشہ اجتماعی قیادت کی اشتراکی سوچ اور حکمت عملی کے تحت برپا ہوتے ہیں۔ لیڈر انقلابی تحریکوں کو جنم نہیں دیتے بلکہ تحریکیں اور پارٹیاں لیڈروں کو منظر عام پر لاکر نکھارتی ہیں، انہیں اتنا باشعور اور جرات مند بنا دیتی ہیں کہ وہ انقلاب کی قیادت کے اہل بن سکیں۔ پارٹی، قیادت، تحریک اور انقلاب کے درمیان ایک جدلیاتی رشتہ ہوتا ہے۔ معروض اور موضوعی عنصر ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور تاریخ آگے بڑھتی ہے۔ رہنما ہو یا عام کارکن، نظریات پر عبور اور عزم و حوصلہ پہلے سے مجتمع شدہ نہیں ہوتا۔ مشکل اور تاریک حالات کے تھپیڑے ہی ایک انقلابی کو وہ فولاد بناتے ہیں جو ماضی کی متروکیت کو چیر کر نیا زمانہ تشکیل دے سکے۔

مذہبی جماعتوں سے لے کر نام نہاد سیکولر پارٹیوں تک، ہر کوئی ’’فلاحی ریاست‘‘ کی بات کرتا نظر آتا ہے۔ بائیں بازو کی حالیہ سول سوسائٹی پارٹیاں بھی آج کل ’’کمیونسٹ‘‘ سے ’’سوشل ڈیموکریٹ‘‘ ہوگئی ہیں۔ یہ ’’ترقی پسند‘‘ سرمایہ داری کے آگے گھٹنے ٹیک کر جمہوریت کے سراب میں فرار ڈھونڈ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے عمران خان اور طاہر القادری نے بھی ترقی پسندی کا بہروپ اختیار کر کے ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا ہے۔ دائیں بازو کے ان ’’انقلابی‘‘ حضرات تک یہ خبر شاید نہیں پہنچی ہے کہ سویڈن اور ناروے سے لے کر فرانس اور برطانیہ تک، یورپ کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں ویلفیئر سٹیٹ کو پرزے پرزے کرنے کا عمل شروع نہ ہوچکا ہو۔

جدید سوشل ڈیموکریسی کا موجد جرمنی کا سیاسی رہنما ایڈورڈ برنسٹائین (1850-1932)تھا۔ اسے ’’ارتقائی سوشلزم ‘‘ اور ترمیم پرستی کا بانی بھی گردانا جاتا ہے۔ پیرس (فرانس) کے محنت کشوں نے 1871ء میں ریاستی اقتدار پر قبضہ کر کے تاریخ کی پہلی مزدور ریاست قائم کی تھی۔ 15مارچ سے 28مئی 1871ء تک، پیرس کمیون کا مزدور راج 72دن تک قائم رہا۔ 21مئی 1871ء کو فرانسیسی فوج نے پیرس پر حملے کا آغاز کیا۔ پیرس پر قبضے کے بعد خواتین اور بچوں سمیت بیس ہزار سے زائد محنت کشوں کا قتل عام کیا گیااور کمیون کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ انقلاب کی اس شکست کے بعد رد انقلاب کا جبر اور رجعت سماج پر حاوی ہوگئی اور سیاسی افق تاریک ہو گیا۔ انقلابی سوشلزم کی جدوجہد انتہائی دشوار اور جان جوکھوں کا کام بن گئی۔ آج ہی کی طرح اس وقت کے بہت سے ’’انقلابی‘‘مارکسزم سے توبہ تائب ہو کر سرمایہ داری کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ انہی میں سے ایک برنسٹائین بھی تھا جو سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کا ڈھونگ رچانے لگا۔

1914ء میں سرمایہ داری کے تضادات پہلی عالمی جنگ کی شکل میں پھٹ پڑے۔ نئی منڈیوں اور وسائل پر تسلط کی سامراجی ہوس نے تین کروڑ ستر لاکھ انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ 1917ء کے انقلاب روس نے دنیا بھر میں سامراج اور حکمران طبقے کو لرزا کے رکھ دیا۔ یورپ اور امریکہ میں انقلاب کی سرایت کو روکنے کے لئے 1923ء میں کچھ معاشی اصلاحات کی گئیں۔ 1929ء میں عالمی سرمایہ داری ایک بار پھر شدید بحران (گریٹ ڈپریشن)کا شکار ہوگئی جس سے 1939ء میں دوسری عالمی جنگ برآمد ہوئی۔ چھ کروڑ انسان (اس وقت دنیا کی کل آبادی کا 2.5 فیصد)سرمائے کی آگ میں جھونک دئیے گئے۔

دوسری جنگ عظیم کی بربادی پر ہونے والی تعمیر نو، عالمگیر تجارت کے پھیلاؤ اور نئی صنعتوں کے قیام سے سرمایہ داری کی تاریخ کا طویل ترین ابھار شروع ہوا جو 1974ء تک جاری رہا۔ یورپ میں یہ سوشل ڈیموکریسی کا کلاسیکی دور تھا۔ سرمایہ داروں کی شرح منافع آسمان سے باتیں کر رہی تھی اور چند ٹکڑے عوام کی طرف پھینک دینے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ محنت کشوں کی دیوہیکل انقلابی تحریکوں کو زائل کرنے کے لئے حکمران طبقے نے اصلاحات کا راستہ اپنایا۔ سوشلسٹ انقلاب کا راستہ روکنے کے لئے سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے ’’فلاحی ریاست‘‘ قائم کی گئی۔ استحصال کرنے والے اور استحصال سہنے والے طبقات میں ’’مصالحت‘‘ کا یہ کھلواڑ بائیں بازو کی اصلاح پسندی اور سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں نے کروایا۔

تاریخی پس منظر اور معیشت سے بے بہرہ عمران خان اور قادری جیسے سیاستدان سویڈن اور برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک میں عوام کے مفت علاج اور تعلیم پر خرچ ہونے والی دولت کا ماخذ کیا تھا؟ یہ رقم کیا سرمایہ دار اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ مغربی سرمایہ دار اور اجارہ داریاں اپنے محنت کشوں کا استحصال تو کرتے ہی ہیں لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں سامراجی لوٹ مار اور استحصال بے حد و حساب ہے۔ آج سے دو سو سال قبل امیر ممالک، غریب ممالک کی نسبت تین گنا زیادہ امیر تھے، 1960ء کی دہائی میں نوآبادیاتی دور کے خاتمے تک یہ شرح 35 گنا تک پہنچ چکی تھی، موجودہ عہد میں امیر ممالک کے پاس غریب ممالک سے 80 گنا زیادہ دولت موجود ہے۔ برطانوی سامراج نے براہ راست حکمرانی کے 200 سالوں میں برصغیر سے اتنی دولت نہیں لوٹی جتنی 1944ء کے بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت قائم ہونے والے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے لوٹی گئی ہے۔ عمران خان کی پسندیدہ ’’فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ‘‘ کے ذریعے تیسری دنیا میں آنے والا ہر ایک ڈالر اپنے ساتھ بیس ڈالر واپس یورپ یا امریکہ لے جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اس سامراجی ڈاکہ زنی سے دولت کے جو انبار لگائے جاتے ہیں اس کا انتہائی قلیل سا حصہ دو چار ممالک میں ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘ اور ’’فلاحی ریاست‘‘ کے ذریعے عوام پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ اور عطار کے سیاسی لونڈے یہاں بیماری کو دوا بنا کے بیچتے نظر آتے ہیں!

سوشل ڈیموکریسی ایک انتہائی عیار، زہریلا اور پرفریب نظریہ ہے۔ لینن نے 24 جنوری 1919ء کو لکھا تھا کہ ’’مزدور تحریک کی اشرافیہ کی نمائندگی کرنے والے یہ سوشل ڈیموکریٹ سوشلزم کے غدار ہیں جو سرمایہ داروں کی رشوت پر پلتے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک کا سرمایہ دار طبقہ ڈاکہ زنی کرتا ہے۔ یہ لوگ نو آبادیات اور نام نہاد ’’آزاد‘‘ ممالک میں جبر و استحصال کرتے ہیں۔ اپنے ملکوں سے کہیں زیادہ بڑی آبادیوں والے خطوں کو لوٹتے ہیں۔ سامراجی ممالک کا حکمران طبقہ اس لوٹ مال سے انتہائی بلند شرح منافع (Super Profits) حاصل کرتا ہے۔ اس دولت کا ایک حصہ درمیانے طبقے کے مفاد پرست اور سوشلسٹ انقلاب سے خوفزہ سیاسی لیڈروں کو خریدنے پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘

جرمنی کے محنت کشوں کی عظیم رہنما روزا لکسمبرگ نے سوشل ڈیموکریسی کو بدبودار لاش قرار دیا تھا۔ ’’ فلاحی سرمایہ داری‘‘کے علمبردارانہی سوشل ڈیموکریٹوں نے جنوری 1919ء میں روزا کے سر کو ہتھوڑوں سے کچل کر اسے برلن نہر میں پھینک دیا تھا۔ جرمن پارلیمنٹ (Reichtag) میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے 110 ممبران میں سے واحد مارکسسٹ انقلابی، کارل لیبخنت کو بھی روزا لکسمبرگ کے ساتھ ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ فیض صاحب نے انقلاب کے انہی شہیدوں کے بارے میں کہا تھا:

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم

اور نکلیں کے عشاق کے قافلے

جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم

مختصر کر چلے درد کے فاصلے۔ ۔ ۔

یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کے ’’سنہرے دن‘‘ اب قصہ ماضی ہو چکے ہیں۔ آف شور بنکوں میں ہزاروں ارب یورو چھپانے والے سرمایہ دار ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں، ریاستیں قرضوں کے پہاڑ تلے دب چکی ہیں، پنشن اور اجرتیں کم کی جارہی ہے، بے روزگاری عام ہے۔ یورپ کے تقریباً ہر ملک میں پانچ دہائیوں بعد سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں کو شکست در شکست ہور ہی ہے۔ ’’فلاحی ریاست‘‘ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نجکاری کے ذریعے کوڑیوں کے بھاؤ بیچا جارہا ہے۔ برطانیہ میں عوام دشمن ٹوری پارٹی کا وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، جو عمران خان کا آئیڈل معلوم ہوتا ہے، مفت علاج کے ریاستی نظام (نیشنل ہیلتھ سروس)کی نجکاری میں پیش پیش ہے۔ یہ نظام اپنی ترقی یافتہ ترین شکل میں بھی اصلاحات کی گنجائش کھو چکا ہے۔ پاکستان میں ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘ کے پرچار کا مقصد، اس بوسیدہ اور گلی سڑی سرمایہ داری میں ’’فلاحی ریاست‘‘ کے قیام کا جھانسہ دے کر انقلابی سوشلزم کو سبوتاژ کرنا ہے۔

Source