منافقت کے بہروپ

اقلیتوں کے لئے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کی عیسائی ممبر آسیہ ناصر کی جانب سے غیر مسلموں پر بھی شراب نوشی کی پابندی کے لئے پیش کیا جانے والا بل مسترد ہو گیا ہے۔ اس بل کے سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی آسیہ ناصر کو چار دوسرے اقلیتی ممبران، ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی اور درجن کے قریب ملاؤں کی آشیر آباد اور حمایت حاصل تھی۔ بل کے مسترد ہونے پر آسیہ کا کہنا تھا کہ ’’میں آج بہت اداس ہوں۔ میں اپنے موقف پر سختی سے قائم ہوں اور دوبارہ ایک ترمیم شدہ بل اسمبلی میں پیش کروں گی۔‘‘ دوسری طرف قانونی معاملات پر قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کا موقف ہے کہ ’’اس طرح کے قوانین ملک کی بدنامی کا باعث بنیں گے۔‘‘ یہ دونوں موقف اور بیانات اس منافقت کے غماز ہیں جو اس معاشرے کی اخلاقیات، اقدار اور ثقافت میں رچ بس چکی ہے۔ نواز لیگ سمیت بل کی مخالفت کرنے والے کئی ممبران پارلیمنٹ کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

کئی قابل اعتماد اداروں کے سروے اور رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں فی کس شراب نوشی کی شرح ہندوستان سے بھی زیادہ ہے۔ دہشت گردی سے بھی زیادہ اموات ہر سال زہریلی شراب کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دہشت گردی اور ’’قدرتی‘‘ آفات کی طرح گھٹیا شراب سے بھی غریب ہی مرتا ہے کیونکہ امیر کو گھٹیا اور سستی شراب پینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مذہب اور اخلاقیات کے ٹھیکیدار شراب نوشی کے گناہ پر تو دن رات وعظ کرتے ہیں لیکن ملک میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی چرس، ہیروئین اور دوسری منشیات پر یا تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے یا پھر اسے ’’کم تر برائی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ آخر منشیات کا انتہائی منافع بخش کاروبار اس کالی معیشت کا سب سے بڑا اور اہم حصہ ہے جس کا ہجم سرکاری معیشت سے دوگنا ہو چکا ہے۔ منشیات کا یہی کالا دھن نہ صرف سیاست اور ریاست میں سرایت کر چکا ہے بلکہ مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث مسلح گروہوں اور مدرسوں کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بھی ہے۔

اس ملک کے حکمران اور امیر طبقات نہ صرف دنیا کی مہنگی اور اعلیٰ ترین شراب نوش کرتے ہیں بلکہ ہر قسم کی بیہودگی اور گناہ میں پوری طرح ملوث ہیں۔ تفریح اور عیاشی کا تمام سامان ان کی دسترس میں ہے اگرچہ کم تر ثقافتی معیار کے حامل مقامی حکمران طبقے کی عیاشی بھی مکروہ اور قابل نفرت حرکات تک ہی محدود ہے۔ لیکن امیر جو بھی کرتا پھرے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ دوسری طرف معاشی و سماجی ذلتوں کی ماری کروڑوں زندہ لاشیں ہیں جن پر تفریح کا ہر دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ سماج کا دم ثقافتی زوال کے گیس چیمبر میں گھٹتا چلا جارہا ہے۔ سینما اور فلم انڈسٹری ویسے ہی برباد ہو گئی ہے، عبادت گاہوں کے علاوہ سماجی میل جول کی کوئی جگہ نہیں بچی ہے،کھیل کے میدان اور پارک یا تو رہائشی سکیموں کی نذر ہو رہے ہیں یا پھر ان پر بھی مسجدیں تعمیر ہورہی ہیں، یوٹیوب پر پابندی ہے، شادیوں جیسی سماجی تقریبات پر بھی ’’مذہبی اصلاحات‘‘ نافذ کی جارہی ہیں، ثقافتی تہواروں پر یا تو پابندی لگا دی گئی ہے یا پھر وہ بھی ملاؤں کے فتووں کی زد میں ہیں۔ اس سماج میں تفریح اور خوشی کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔ سماجی، معاشی اور ثقافتی محرومی کی اس کیفیت میں غریب محنت کش اور نوجوان سستی شراب یا نشے میں زندگی کی اذیتوں سے وقتی فرار تلاش کرتے ہیں۔

شراب نوشی کی علت (Alcoholism) انفرادی سطح پر نفسیاتی بیماری ہونے کے ساتھ ساتھ اپنائیت اور آسودگی سے بے بہرہ ایک بیمار سماج کی علامت بھی ہے۔ یہ انسان دشمن نظام کے ہاتھوں کچلی ہوئی روح اور احساس کا اظہار ہے۔ جب نہ ختم ہونے والی معاشی ذلت، رشتوں کے دھوکے، سیاسی قیادت کی غدایاں اور انقلابی تحریکوں کی پسپائی عوام سے مستقبل میں بہتری کی ہر امید چھین لیں تو سماجی اور نفسیاتی بیماریاں وبا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ رویے اس بیگانگی کی پیداوار ہیں جو استحصال پر مبنی سرمائے کا یہ نظام انسان کے شعور پر طاری کر دیتا ہے۔ مذہبی جنون سے لے کر منشیات کی لت اور شراب نوشی تک، تلخ اور غیر انسانی حالات میں مختلف افراد مختلف قسم کے منفی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اسمبلی میں پیش کیا گیا یہ بل اس رجعت کی علامت بھی ہے جو سیاست اور ریاست کی رگوں میں دوڑ رہی ہے۔ مذہبی جنون مسلط کرنے کے لئے ایک عیسائی خاتون ممبر اسمبلی کا ملاؤں کے ہاتھوں استعمال، خونخوار قوانین کے نفاذ اور نجی زندگیوں میں دخل اندازی کے نہ رکنے والے سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ سر تا پا بدعنوانی، دھوکہ بازی، منافقت اور لوٹ مار میں غرق میڈیا، سیاسی اشرافیہ اور ان کے دانشور اس ملک کی ’’رائے عامہ‘‘ تشکیل دیتے ہیں۔ سماجی جمود کے ادوار میں سیاست سے بیزار اور معیشت سے بدحال عوام پر یہ ’’رائے عامہ‘‘ تھونپی جاتی ہے اور نتیجے میں برآمد ہونے والے تعصبات، نفسیات اور سماجی معمول حکمران طبقات کے اقتدار اور استحصال کے لئے ساز گار حالات فراہم کرتے ہیں۔

طبقاتی تضادات سے ہٹ کر بھی یہ ملک مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ ہے، خواتین مردانہ جبر و تسلط میں کچلی جارہی ہیں اور مذہبی اقلیتیں جان لیوا تعصب کا شکار ہیں۔ ’’سول سوسائٹی‘‘ کے شغل میلے، این جی اوز کے بڑھتے ہوئے کاروبار، مشرف کے طویل ’’لبرل‘‘ اقتدار اور ’’سیکولرازم‘‘ کی سیاست کے باوجود کچلے ہوئے طبقات کی حالت بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد جتنی بڑھی ہے ، معاشرے میں خواتین کے عدم تحفظ میں اسی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتے ہوئے برقعے اور ہر جگہ پر ’’خواتین کے لئے علیحدہ انتظام‘‘ اس حقیقت کا واضح اظہار ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں عیسائیوں اور ہندوؤں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے اندر بھی شدید طبقاتی تقسیم موجود ہے۔ اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے زیادہ تر خواتین و حضرات کا تعلق امیر اور بالادست گھرانوں سے ہے جبکہ ان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد غربت کی گہرائیوں میں غرق ہیں۔ غریب عیسائی اور ہندو انتہائی کم اجرتوں پر معاشرے میں سب سے غلیظ اور حقارت آمیز سمجھے جانے والی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں، سماجی تذلیل اور مذہب کی بنیاد پر نفرت اسکے علاوہ ہے۔ ’’اقلیتی براداری کے حقوق‘‘ کے نام پر اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں جانے والے آسودہ حال گھرانوں کے خواتین و حضرات آخر کار اسی بدعنوان اور استحصالی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں جو مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی، نسلی اور قومی تعصبات کو ابھار کر ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی نجات ’’مذہبی آزادی‘‘ یا ’’اقلیتوں کے حقوق‘‘ تک محدود سیاسی جدوجہد کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ مذہب قدورتیں اور تعصبات کی جڑیں سماجی رویوں اور ریاست میں بہت گہرائی تک پیوست ہیں۔ سماجی، معاشی، سیاسی اور ریاستی ڈھانچوں میں انقلابی تبدیلی کے بغیر ان رویوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

شراب کے ذریعے انسان کے کردار کا تعین کرنے کا رجحان ضیا الحق کی ’’اسلام آئزیشن‘‘ سے شروع ہوا تھا۔ سیاست میں کردار کشی کے لئے شراب کو جواز بنانے کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ آج تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء میں لاہور میں لاکھوں کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا: ’’ہاں میں شراب پیتا ہوں، غریبوں اور مظلوموں کا خون نہیں پیتا۔‘‘ جلسہ تالیوں اور نعروں سے گونج اٹھا تھا۔ لیکن یہ بھی تاریخ کا المیہ ہے کہ سرمایہ داراری کی حدود میں رہ کر کی جانے والی بائیں بازو کی ادھوری اصلاحات جب ناکام ہوئیں تودائیں بازو کی طرف جھکاؤ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے ہی شراب پر پابندی عائد کر دی۔

نجی زندگیوں اور انفرادی معاملات میں مداخلت دراصل درمیانے طبقے کی مخصوص نفسیات کا حصہ ہے۔ درمیانے طبقے کا شعورذاتیات اور سیاسی رجحان میں تمیز کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ قنوطیت اور مایوسی کے ادوار میں رجعتی نفسیات اور لایعنی ایشوز سماج پر مسلط رہتے ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کا ابھار سیاسی جمود کو توڑ کر اجتماعی شعور اور ثقافت کو بلند معیار پر لے جاتا ہے۔ لیکن میدان عمل میں اترے محنت کش عوام کی فتح ہی اس تبدیلی کو مستقل اور دیرپا بنا سکتی ہے۔

Source