نوجوان کی حالت زار اور مستقبل؟

انسانی زندگی مختلف ادوار کا امتزاج ہے جس میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ انسان آگے کی طرف سفر کرتا ہے مگر تمام انسانی زندگی میں جوانی وہ عرصہ ہو تا ہے جب انسان قدرت کی تمام نعمتوں سے بھر پور استفادہ اٹھاسکتا ہے مگر موجودہ بحران زدہ گلے سڑے سماجی ڈھانچے میں جوانی کا عہد اب کمزوریوں، ناانصافیوں، ظلم اور زیادتیوں کا عہد بن چکا ہے۔ جس میں داخل ہوتے ہی اپنے والدین اور عزیز اقارب کی طرف سے مہیا محبت و الفت کے تمام لمحات کسی تصوراتی دنیا کے قصے کہانیاں لگتی ہیں۔ یہ وہ عہد بن چکا ہے جب انسان کے سامنے بناوٹی اور بازاری غلاف میں لپٹی مکاریاں، دھوکہ دہی اور فریب عیاں ہونا شروع ہوتا ہے۔

جب وہ والدین کی طرف سے بندھی ہوئی امیدوں اور خوابوں کو اس بازار میں سر عام رسوا ء ہوتے دیکھتا ہے توہیجان انگیز انداز میں اپنے اندر توڑ پھوڑ محسوس کرتے ہوئے جرائم یا منشیات میں پناہ ڈھونڈنے لگ جاتا ہے۔ وہ خوش قسمت نوجوان جو کہ کسی طرح بڑے بڑے تعلیم کے نام پر چلنے والے کاروباری اداروں میں علم خریدنے کے قابل ہو تا ہے تو اس کو دوران تعلیم ہی رائج الوقت حکمران طبقات کے غلامی کے ’سنہری اصولوں‘ کے مطابق تیا ر کر کے محنت کی منڈی میں فروخت کے لئے جب بھیجا جاتا ہے تو وہ کسی نئی دلہن کی طرح اونچے خواب سجائے منڈی میں داخل ہو کر بیروزگاری، مہنگائی، لاعلاجی اور غربت جیسے عذابو ں سے لڑتے لڑتے انہی سرمایہ داروں کے لئے بے کار ہو جاتا ہے جس کو کسی فالتو مشینی پرزے کی طرح اٹھا کر غلاظتوں کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظتوں کو بروکار لاتے ہوئے یہی انسان نما خونخوار بھیڑیے دہشت گردی اور منشیات جیسی منافع بخش صنعتوں کے ایندھن کے طور پر ان مایوس نوجوانوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے شرح منافع میں بتدریج اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کے لئے بیروزگاروں کی فوج رکھنا ضرورت تھی پر اب نیویارک سے لے کر لاہور تک مستقل بیروزگاری نظر آرہی ہے جو کہ نظام کا نامیاتی بحران ظاہر کر تی ہے۔ نجانے کتنے عرصہ سے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کو منڈی کی جنس بنانے کے بعد اب بیروزگاروں کو بھی منڈی کی جنس بنا دیا گیا ہے جن سے وقتاً فوقتاً مختلف غیر انسانی افعال سرانجام دیئے جاتے ہیں۔ جس ملک میں ہر دوسرا پاکستانی غربت کا شکار ہو جہاں ہر تیسرا بیروزگار ہو وہاں پر سیاسی منظر عام پر ان کو استعمال کرنے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ تعلیمی اداروں میں عرصہ دراز سے طلبہ یونین پر پابندی لگا کر ریاست نے فسطایت کا بازار گر م کیا ہوا ہے وہاں ہی محنت کش نوجوانوں پر آئے روز ظلم کے نئے پہاڑ توڑنے کا عمل بھی شدید کر دیا ہے۔ موجودہ نسل عشروں میں واحد نسل ہے جو اپنے ابا اجدا د سے غریب ہے جس کو اپنی روزمرہ ضروریات کے لئے بھی والدین کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کا مستقبل اس کے نوجوان ہوتے ہیں اور ان نوجوانوں کی حالت زار سے بخوبی معاشرے کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی طور پر سرمایہ دارانہ بحران میں نوجوانوں کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہو رہی ہے جس سماج میں نوجوان نسل کے سامنے کوئی راستہ نہ ہو وہ مایوسی کی دلدل میں گری جا رہی ہو تو اس کا مستقبل بھی خطرے میں ہو تا ہے جو کہ کسی نظام کے تابوت میںآخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1970ء سے اب تک نوجوانوں کی غربت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ان کی آزادی کم ہوئی ہے اسی طرح سے ان کی پریشانیوں اور مصیبتوں میں اضافہ ہو ا ہے۔ کسی قسم کے معیار زندگی میں بہتری کے امکانات ختم ہوتے جارہے ہیں سامنے صرف مایوسی، پریشانیاں اور مصائب کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔

پاکستان جس کی آدھی سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے یہ اب چلتی پھرتی لاشوں کا عجب کدہ بن چکا ہے۔ خوف اور ڈر کے ماحول میں پرورش پانے والی نوجوان نسل اپنے آئے روز کے بگڑتے سماجی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچوں کے اثرات کے تابع عملی طور پر بیگانگی کی تمام حدو ں کو پھلانگتے ہوئے عجب تماشہ پیش کر رہی ہے جس کا اظہار سٹریٹ کرائمز اور منشیات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے لگایا جا سکتا ہے۔ سماجی طور پر مواقعوں کی کمی ہونے کی وجہ سے معاشرے میں خصوصاً نوجوان نسل میں لمپنائزیشن میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ شدید دردناک عمل ہے۔

سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سنٹر(SPDC) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تیس لاکھ افراد شدید غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔ اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2008ء سے معاشی ناہمواری میں اضافہ ہو رہا ہے شہری خاندانوں کی حقیقی اجرتوں میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے لوئر مڈل کلاس اور غریب لوگوں کی زندگیاں عذاب میں مبتلا ہو رہی ہیں جبکہ دوسرے طرف اسی عرصہ میں امیر ترین افراد کی آمدنیوں میں 24 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان نیوٹریشن سروے کے مطابق ایک تہائی سے زائد آبادی کو دو وقت کا کھانا دستیا ب نہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ تر بھوکے رہتے ہیں جبکہ 58 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ بچوں کی صحت کے متعلق رپورٹ کا کہنا تھا کہ صرف 3 فیصد بچوں کو ہی غذائی سٹینڈرز کے مطابق خوراک ملتی ہے۔ 76 فیصد بچے غذائی قلت کی وجہ سے مکمل نشوونما نہیں پا سکے جس کی وجہ سے یہ کبھی نارمل زندگی نہیں گزار سکتے۔

روزگار کی صورتحال کے مطابق پاکستان اکنامک واچ کے مطابق ہر سال 20 لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں جن کی اکثریت کے لئے ملازمت کے مواقع نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد نوجوان بیروزگار یا نیم روزگار ہیں، زیادہ تر ملازمت کے مواقع بلیک اکانومی مہیا کر رہی ہے۔ اسی طرح حکومت کے اپنے ادارے پاکستان بیوروآف ا سٹیٹسٹکس کے لبیر فورس سروے کے مطابق ’’ہر سات محنت کشوں میں ایک بیروزگار ہے، 15 سے 29 سال کی عمروں کے تقریباً پانچ ملین نوجوان تعلیم یا روزگار سے محروم ہیں۔ سالانہ تقریباً 6 ملین نوجوانوں کو روزگار یا بہتر مواقع چاہیے۔ محنت کی منڈی میں ہر تین میں سے صرف ایک خوش نصیب ہے جو کہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ایک سال کی شب روز محنت کے بعد پہلے نوکری پاسکے‘‘۔ اسی حکومتی رپورٹ میں یہ بھی اقرار کیا گیا کہ ابھی بھی پاکستان میں لاکھوں بچے چائلڈ لیبر یا جبری محنت کا شکار ہیں۔ غیر سرکاری رپورٹوں کے مطابق یہ صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔ برٹش کونسل کی طر ف سے نوجوانوں پر کی گئی ریسر چ کے مطابق ’’صرف پانچ میں سے ایک نوجوان سوچتا ہے کہ اس کے معاشی حالات مستقبل میں ٹھیک ہو نگے۔ 57 فیصد نوجوان اپنی بنیادی ضروریات بھی خود پوری کرنے سے قاصرہیں ان حالات کی وجہ سے پاکستان وہ ملک بننے جا رہا ہے ہے جہاں امیر ہونے سے پہلے بڑھاپا آئے گا۔‘‘ اسی طرح اخباری رپورٹس کے مطابق بیروزگاری کی شرح 16 فیصد کے قریب ہے جس کی وجہ سے آنے والے حالات میں شکستہ انفراسٹرکچر پر مزید دباؤ بڑے گا۔ پاکستان میں حقیقی اعدادو شمار کی عدم موجوگی میں زیادہ تر رپورٹس زیادہ تر اندازوں پر ہی مبنی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے استحصال کی صحیح منظر کشی کے لئے کسی رپورٹ کے بے جان صفحوں کی بجائے یہاں زندگی گزارنے والوں کی شب و روز کا تجزیہ ہی کافی ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد گھروں کی جہنم میں کام کاج کرنے پر مجبور ہیں جن کو بھی برسر روزگار کے زمرے میں لیا جاتا ہے۔

دوسری طرف اگر ہم بر سر روزگار نوجوانوں کی حالت کو دیکھیں تو اس وقت یہ شاید سب سے زیادہ استحصال زدہ نسل ہے۔ بیروزگاروں کی ایک بڑی فوج کی موجودگی میں چند برسر روزگار نوجوانوں کی حالت زار بھی کم خراب نہیں۔ معمولی اجرتوں پر زائد اوقات کار پر کام کرنا معمول بن چکا ہے لیکن دوسری طرف محنت کشوں کی کارکردگی اور ہنر میں اضافہ بھی تاریخی طور پر بلند پیمانے پر ہے۔ اس پیداواری قوت میں بلندی او ر تنخواہوں میں پستی سے سرمایہ داروں کے شرح منافعو ں میں غیر یقینی حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ نوجوان اس وقت استحصال کا بہترین خام مال بن چکے ہیں جن کے لئے کم اجرتوں پر بھی کام کرنا ایک نعمت سے کم نہیں، دوسری طرف انٹرن شپ جیسے دھوکوں سے بغیر کسی اجرت کے نوجوانوں کی محنت کا خون نچوڑا جاتا ہے۔ اب مناسب کام کے حالات او ر سماجی تحفظ کسی اور سیارے کی باتیں لگتی ہیں کیونکہ کم ازکم اجرت 12000 کے باوجود نصف سے زائد محنت کش صرف 4000 ماہانہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ دیہاڑی دار اور موسمی روزگار کو شامل کر لیں تو بخوبی حکومت کے دعووں کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ موجودہ نسل کے لئے مستقل روزگار کسی خواب سے کم نہیں رہ گیا تو دوسری طرف چور دروازے بھی بڑی تیزی سے بند ہو تے جارہے ہیں۔ بیرون ملک جانا اور وہاں سیٹل ہو نا کسی اور دنیا کی باتیں لگتی ہیں۔ معاشی بحران کی وجہ سے یورپ سے مشرق وسطی میں حالات خراب ہو چکے ہیں وہاں سے بڑی تعداد میں محنت کش واپس اپنے ملکوں کی طرف لوٹ رہے ہیں سرمایہ دارانہ نظام اپنے خونخوار پنجوں کے ساتھ نسل انسانی کے قتل عام اور خون نچوڑنے میں مگن ہے۔ حکومت وقت کی جانب سے شروع کی گئی سکیمیں مثلاً یوتھ لون، لیپ ٹاپ او ر رنگ برنگ کے یوتھ فیسٹولز سے کوئی مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہو تا جارہا ہے جہاں ان سکیموں کی اصلیت نوجوانوں کے سامنے واضح ہوئی ہے تو وہاں ہی اس گھٹن زدہ سماج کی اقدار بھی سر عام رسوا ہوئی ہیں۔

اگر ہم مستقبل کی جانب دیکھیں تو یہ بات عیاں ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی قسم کی معیار زندگی میں بہتری ناممکن ہے۔ 2008ء کے بحران کے بعد موجودہ نظام کی متعفن لاش غلاظتوں اور جنگوں کے علاوہ کچھ دینے سے قاصر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حالیہ وظیفہ خور دانشور بھی کسی بہتری کی امید چھوڑ کر جو ہے اس کو برداشت کر نے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ عرب بہار، یورپی سرماء اور امریکی خزاں کی شاندار تحریکوں میں نوجوان ہی ہراول دستہ نظر آئے۔ ان نوجوانوں کا اہم مسئلہ بیروزگاری تھا جس کا حل موجودہ نظام نہیں دے سکتا۔ اس کرہ ارض پر جہاں ایک طرف تو دولت کے انبار میں بے انتہا اضافہ ہو ا ہے تو دوسری طرف محرومی، ذلت اور لاچاری میں بھی اتنا ہی اضافہ ہو ا ہے۔ یہ نظام کب کا اپنی طبعی عمر پورا کر چکا ہے اب اس کی لا ش کو تاریخ کے کوڑے دانوں میں ٹھکانے لگانے کا وقت ہے۔ نوجوان ہی وہ پرت ہیں جو کہ تحریکوں کو ایک نئی اٹھان دیں گے کیونکہ اگر ہم تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ہرتحریک میں نوجوان ہراول دستہ کے طور پر سامنے آئے۔ حالیہ دھرنوں میں کپتان اور مذہبی ملاء نے نوجوانوں کو استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی کیونکہ اس عارضی ابھار میں جانے والے نوجوان بھی جلد ہی سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کے دکھ پریشانیوں کا حل ان کے پاس نہیں۔ یہ نام نہاد ’انقلابی ‘ لیڈر جس تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ تبدیلی ہم نے یورپ میں دیکھ لی جہا ں پر نام نہاد سوشل ڈیموکریسی کا لبادہ اوڑھے زہریلا خونخوار سرمایہ دارانہ نظام اپنے اصل شکل میں آ کر وہاں کے محنت کشوں کی جدوجہد کے ثمرات بڑی تیزی سے چھیننے میں مگن ہے جس کے خلاف وہاں بھی بغاوتیں جنم لے رہی ہیں۔ یہ ہمارا مستقبل نہیں‘ نہ ہی ہمارے گناہوں کی سزائیں بلکہ یہ یہ گرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی ہولناک بربادیاں ہیں جن کا شکار ہم نہ چاہتے بھی بن چکے ہیں۔ ان بربادیوں کے جہاں میں سے ہی سرخ سویرا روشن ہو گا جس کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی۔ وہ وقت دور نہیں جب یہا ں کے محنت کش اور محکوم عوام اٹھ کر ان ظالموں سے اپنے خون کا حساب لیں گے اور وہ حساب صرف سوشلسٹ انقلاب ہی ہو سکتا ہے۔

Source