Urdu

کرونا وباء کی دوسری لہر نے پورے انڈیا کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، جہاں روزانہ تقریبا 4 لاکھ نئے کیس رجسٹر ہو رہے ہیں؛ اگرچہ یہ سرکاری اعداد و شمار حقیقت سے بہت کم ہیں۔ ملک بھر کی صورتحال کسی بھیانک خواب کی طرح لگ رہی ہے۔ مگر بالخصوص سماج کی غریب ترین پرتوں کے لیے یہ کسی جہنم سے کم نہیں۔

پیوٹن حکومت، جو اپنی بقا کے لیے بڑھتے ہوئے بے رحم اور ظالمانہ جبر پر انحصار کر رہی ہے، کی بنیادوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت بحران کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور روسی آبادی کی بڑی اکثریت اس پر کھلے عام تنقید کر رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر، سوال ابھرتا ہے کہ؛ روسی وفاق (رشین فیڈریشن) کی کمیونسٹ پارٹی کا رد عمل اب کیا ہوگا؟

7 اپریل 2021ء کو، جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول، اور بوسان جہاں اہم بندرگاہ بھی موجود ہے، میں ووٹروں نے حکومتی ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی) کو زبردست انداز میں مسترد کیا۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں قدامت پرست پیپل پاور پارٹی (پی پی پی) نے ان دو اہم شہروں کا اقتدار سنبھال کیا ہے مگر درحقیقت یہ جنوبی کوریا کے عوام کی جانب سے صدر ’مُون جے اِن‘ اور پورے سیاسی اسٹبلشمنٹ دونوں کے خلاف نفرت کا اظہار تھا۔ دنیا بھر کے کئی دیگر ممالک کی طرح، یہاں بھی محنت کش طبقے کے گرد منظم سیاسی متبادل کی اشد ضرورت ہے۔

انگلینڈ بھر میں فٹ بال شائقین کے بڑے پیمانے پر مظاہروں کی بدولت یورپی سپر لیگ کے منصوبوں کو بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ شائقین کی ایک بڑی فتح ہے۔ لیکن ’عام عوام کے کھیل‘ پر منافع خوری اور اس کی لوٹ مار کو روکنے کی لڑائی اب بھی جاری ہے۔

پچھلے موسمِ گرما میں، امریکی ریاست کے اندر کروڑوں افراد نے بلیک لائیوز میٹر کی تحریک میں شرکت کی، جو پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کے نسل پرستانہ قتل کے خلاف ابھری تھی۔ تقریباً ایک سال بعد، 20 اپریل 2021ء کو، اس کا قاتل ڈیرک شاوین تین الزامات کے تحت سزاوار قرار پایا؛ سیکنڈ ڈگری غیر ارادی قتل؛ تھرڈ ڈگری ”شیطانی ذہنیت“ کے تحت قتل؛ اور سیکنڈ ڈگری قتلِ عام۔ شاوین کو مجرم قرار دیے جانے سے حقیقی انصاف کا دور تک کوئی واسطہ نہیں، جارج فلوئیڈ اور وہ سب جو مسلسل پولیس کے جبر کا شکار ہیں، اب بھی انصاف سے محروم ہیں۔

ترکی پچھلے کئی ہفتوں سے مختلف وجوہات کی بناء پر عالمی سرخیوں کی زینت بنا رہا ہے۔ ان میں سے ایک اہم خبر 19 مارچ کو مرکزی بینک کے گورنر ناچی آگبال کی برطرفی تھی، جس کے فوری بعد اس کے نائب گورنر کو بھی برطرف کر دیا گیا۔ اردگان کے اس اقدام کے نتیجے میں ایک دن کے لیے لیرا کی قدر میں 15 فیصد کی شدید گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ حیرت میں ڈوبے مین سٹریم بورژوا معیشت دانوں نے اردگان کے اس رویے کو پاگل پن اور غیر متوقع قرار دیا۔ مگر اس پاگل پن کے پیچھے کچھ وجوہات کارفرما ہیں۔ سب سے بڑھ کر، اردگان ایک سماجی دھماکے سے خوفزدہ ہے۔

کورونا وباء کی تباہی کے دوران بھی معیشت کے کچھ حصے نہال ہیں۔ سٹے باز سرمایہ کاری دیوانہ وار جاری ہے۔ مشہور شخصیات کے ہر لمحہ تبدیل ہوتے وقتی فیشن، NFTs اور SPACs اس دیوانہ وار سٹہ بازی کے حالیہ اظہار ہیں۔

21 جنوری 2021ء کو ایک نوجوان محنت کش، جو ویڈیو شئیرنگ کی مشہور چینی ویب سائٹ ’بیلی بیلی‘ پر ایک چھوٹا سا چینل چلاتا تھا اور خاندانی جھگڑوں، بیماری اور اپنے مالک کے ساتھ تنازعے میں گھرا ہوا تھا، شدید غربت کی حالت میں جان کی بازی ہار گیا۔ وہ اپنے کرائے کے فلیٹ میں فاقہ کشی کی حالت میں مرا اور اس کی موت کا کئی دنوں بعد پتہ چلا جب مالک مکان نے اسے مردہ حالت میں پایا۔

میانما ر میں فوجی کو کے بعد انقلابی امکانات سے بھرپور عوامی تحریک پھوٹ پڑی ہے۔ ہڑتالوں اور احتجاجوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے جو فوجی تسلط کے خلاف عوامی جدوجہد کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ عسکری قیادت نے اپنی مخالفت میں اٹھنے والی مزاحمت کے حوالے سے غلط اندازے لگائے تھے۔

مہنگائی اور دیگر معاشی حملوں سے بھرپور دہائی کے بعد آنے والی وباء نے عوام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، جو محنت کشوں اور نوجوانوں کے کندھوں پر رکھے بوجھ میں دن بہ دن اضافہ کر رہی ہے۔ سماج پھٹنے کے لیے تیار ہو چکا ہے۔ ہمیں اس توانائی کو سوشلسٹ جدوجہد کے راستے پر گامزن کرنا پڑے گا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد اٹلی میں اس وقت شدید ترین معاشی، سیاسی اور سماجی بحران میں ڈوبا ہوا ہے اور جیو سیپے کونتے کی حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماریو در اغی نامی شخص نجات دہندہ بن کر پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس بورژوا ٹیکنوکریٹ کے پاس اطالوی محنت کشوں کو درپیش مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔

ایران کے طول و عرض میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ دسمبر کے آغاز سے اب تک 240 ہڑتالیں اور احتجاج ہو چکے ہیں۔ احتجاج سماج کی ہر پرت میں پھیل رہے ہیں جن میں طلبہ، بازاری (تاجر)، ریٹائرڈ حضرات، بے روزگار اور ہر شعبے کے مزدور شامل ہیں۔

گزشتہ روز انڈیا سے کسان راہنما داتار سنگھ گِل کی موت کی انتہائی افسوسناک اور غمناک خبر موصول ہوئی۔ داتار سنگھ مودی سرکار کے خلاف جاری، وقت کے ساتھ پھیلتی اور مضبوط ہوتی کسان تحریک کے سرکردہ راہنماؤں میں سے ایک تھے۔ داتار سنگھ کرتی کسان یونین کے پنجاب میں صدر بھی تھے۔ ان کے خاندان، دوستوں اور کامریڈز سے ہم اظہارِ تعزیت کرتا ہوں۔

30 جنوری کو گلوبل سیکورٹی بل، نام نہاد سیپریٹ ازم بل اور ثقافتی اداروں کی جاری بندش کے خلاف پیرس اور پورے فرانس میں بڑے مظاہرے منعقد ہوئے۔ ان مظاہروں کی قیادت ہزاروں نوجوان کر رہے تھے جو بظاہر لامتناہی جاری رہنے والی وباء کے عرصے میں مسلسل ریڈیکلائز ہو رہے ہیں (چونکہ کیمپس بھی بند ہیں) اور گلی سڑی میکرون حکومت کا مقابلہ کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔

6 فروری کے دن تیونس کے دارلحکومت تونس کی سڑکوں پر ہزاروں افراد اسلامی پارٹی انّہداء کے خلاف ”عوام حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں“ کے نعرے لگاتے ہوئے امڈ آئے۔ اس وقت یہ پارٹی مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ فساد کش پولیس نے مرکزی تونس میں پہلے ہی ناکہ بندی کر دی تھی تاکہ گاڑیاں اور

...

سال 2021ء کو شروع ہوئے ایک مہینہ ہی گزرا ہے مگر یہ سال ابھی سے جدید روس کی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ نہ بھی سہی تو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ضرور ہے۔ روسی سرمایہ داری کے مجتمع شدہ تضادات کی وجہ سے حکمرانوں کی تمناؤں کے برعکس نیا سال، ایک نئے آغاز کی کوئی خوشخبری ساتھ لے کر نہیں آیا۔ بلکہ اس کی بجائے ان تضادات میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے اور یہ سوال مزید واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مستقبل کیا ہوگا، ”سوشلزم یا بربریت؟“

عالمی سرمایہ داری کا حالیہ بحران انتشار، تذبذب، معاشی و سفارتی ہیجان اور سب سے بڑھ کر عوام کے روزمرہ پر تباہ کن اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے ماضی کے تمام بحرانوں پر سبقت لے گیا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت، دانشور اور پروفیسر صاحبان بحران کا کوئی حل پیش کرنے کی بجائے بحران کی تما م تر ذمہ داری کرونا وائرس پر لاد کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بحران کے نتیجے میں پھیلنے والی بیروزگاری، افلاس اور بھوک کو تقدیر کا لکھا قرار دے کر ممکنہ عوامی غیض و غضب سے محفوظ رہا جا سکے۔ لیکن دوسری طرف اسی بحران کے دوران ارب پتیوں کے اثاثوں اور بینک بیلنس میں ہونے والے ہوشربا اضافوں اور قومی اور سامراجی ریاستوں کی طرف سے نظام کو بچانے کے لیے سرمایہ داروں کو دیئے جانے والے کھربوں ڈالر

...

انتونیو گرامچی 1937ء میں مسولینی کی فاشسٹ حکومت کے دوران دس سال جیل میں گزارنے کے بعد وفات پا گیا۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی، تاحال اس کے خیالات پر بحث جاری ہے اور اُن کی دوبارہ سے تشریح کی جا رہی ہے۔ گرامچی کون تھا؟ اس سوال کے ہر قسم کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز جوابات دیے جا رہے ہیں جن میں پیٹی بورژوا تدریسی دانشوروں اور مزدور تحریک میں موجود ترمیم پسندوں کی جانب سے جعل سازی نہیں تو ابہام پیدا کرنے کی کوششیں ضرور شامل ہیں۔

ہم نے انڈیا میں جاری کسان تحریک پر کئی مضامین شائع کیے ہیں ([4] [3] [2] [1]) اور ایک کسان لیڈر کا انٹرویو بھی نشر کیا ہے۔ موجودہ مضمون میں ہم موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے سرمایہ

...