Urdu

اگرچہ گزشتہ چند مہینوں میں برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے بطور رقاصہ مضحکہ خیز ثابت ہوئی ہے لیکن ایک معاملے میں اس کی ماہرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو کام کل کیا جا سکتا ہے اسے پرسوں پر ڈال دو! یقیناًاس کی معاونت ماہر اساتذہ نے ہی کی ہے یعنی یورپی قائدین، جو پچھلی ایک دہائی سے سیاسی کھچڑی پکانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ لیکن مے اور اس کے مذاکراتی شریک جتنے مرضی پینترے بدل لیں، وہ حتمی نتائج سے بچ نہیں سکتے۔ آئیں بائیں شائیں کرنے کے باوجود برطانیہ اور یورپ ایک لرزہ خیز دھماکے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بس سوال ہے کہ آخر کب تک!

برازیلی عام انتخابات کے پہلے مرحلے میں بولسونارو فتحیاب ہو کر جمہوریہ کا ممکنہ صدر بننے کی مضبوط پوزیشن میں آ گیا ہے۔ 14.7 کروڑ ووٹروں میں سے 33 فیصد نے اس کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ہداد (ورکرز پارٹی، PT کا امیدوار) کو 21 فیصد ووٹ پڑے۔ تمام ووٹروں میں سے 27.32 فیصد (4کروڑ سے زائد)نے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں ڈالا۔ گلی محلے کی سطح پر کم و بیش یہی جذبات موجود ہیں۔

دو ہفتے پہلے ٹرمپ نے 200 بلین ڈالر کی مزید چینی درآمدات پر ٹیرف لگانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر چین کے علاوہ بڑے امریکی کاروباریوں کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ جواب میں چین نے بھی امریکہ سے ہونے والی مزید 60 بلین ڈالر کی درآمدات پر محصول بڑھانے کا اعلان کر دیا۔ یہ تجارتی جنگ دونوں سامراجی ممالک کے درمیاں پچھلے عرصے سے چلے آرہے تناؤ کی غمازی کرتی ہے اور اس تجارتی جنگ نے ایک نئے عالمی معاشی بحران کے خطرے کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

ایک سال قبل یکم اکتوبر کو ہونے والا کیٹالونیا کی آزادی کا ریفرنڈم کیٹالونیا اور سپین کی پوری ریاست میں سیاسی حالات کا محور بن گیا تھا۔ عوام انتہائی تیزی سے سیاسی میدان میں داخل ہونے لگے جسے ہم ’’ریپبلکن اکتوبر‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ نچلی سطح سے بہت بڑا تحرک دیکھنے میں آیا جس نے ریاستی ڈھانچوں اور جنریلیٹیٹ (کیٹالان حکومت) کے رہنماؤں کی ہچکچاہٹ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، جو 1978ء کی تحریک کے بعد کی ریاست کے لیے گزشتہ چالیس برس میں سب سے بڑا مسئلہ ثابت ہوا۔

25 ستمبر 2018ء کو ہونے والی عام ہڑتال نے ارجنٹائن کی معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔محنت کش طبقے کی بہت بڑی طاقت کے مظاہرے میں ،پبلک ٹرانسپورٹ ،اسکول ،یونیورسٹیاں بند ہو کر رہ گئے، جبکہ اس دوران دوسرے ادارے، بینک بھی بند تھے اور صنعت بھی مفلوج تھی۔ یہ سب(عام ہڑتال) ایک ایسے وقت میں ہوا جب ارجنٹائن کا صدر ماکری آئی ایم ایف سے ایک بڑے بیل آؤٹ پیکیج اور رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش میں امریکہ کے دورے پر تھا۔

20 ستمبر کو بیجنگ میں واقع چین کی سب سے پرانی یونیورسٹی ،پیکنگ یونیورسٹی (PKU) کی مارکسی سوسائٹی (MS) کے ایک نمائندے کا کھلا خط چینی سوشل میڈیا پر گردش کرنا شروع ہو گیا۔ خط میں تفصیل سے بیان کیا گیا کہ اس مہینے سوسائٹی کیمپس میں بطور طلبہ کلب دوبارہ رجسٹر ہونے کے لئے یونیورسٹی کے تدریسی عملے میں سے کسی ایک مشیر کی حمایت کی مقررہ شرط پوری نہیں کر پا رہی۔

آئن سٹائن نے کہا تھا ، ’’ایک ہی کام کو بار بار دہرائے جانا اور سمجھنا کہ اس سے نتائج مختلف نکلیں گے، احمقانہ پن ہوتا ہے۔‘‘ تو پھر مارکسسٹ آخر سوشلزم کی جدوجہدکو کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں، جب کہ یہ تجربہ ناکام ہو چکا ہے ؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنا ضروری ہے کہ سوویت یونین اور دیگر ایسے ممالک جو خود کو ’’سوشلسٹ‘‘ کہا کرتے تھے ان کے ساتھ کیا بیتی۔

10 سال پہلے 15 ستمبر 2008ء کو لیہمن برادرز، جو دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا انویسٹمنٹ بینک ہے، نے غیر ادا شدہ قرضوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد دیوالیہ پن کی درخواست دائر کر دی۔ لیہمن برادرز کے انہدام سے ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں دوسرے بینک، مالیاتی ادارے اور انشورنس کمپنیاں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں یکے بعد دیگرے تاش کے گھر کی طرح گرنے لگے۔

میکسیکو شہر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ کے احتجاجوں کا نیا ریلا امڈ آیا ہے۔ دارالحکومت کی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے طلبہUNAM(National Autonomous University of Mexico) کے 14 طلبا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے باہر نکل آئے جنہیں پوروس (نیم فاشسٹ بدمعاشوں)نے اس ماہ کے آغاز میں مار مار کر زخمی کر دیا تھا۔

(اس بات پر کافی شور مچایا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی ریاست کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے اور کیا نہیں۔ خاص طور پر برطانیہ میں جیرمی کاربن کی مبینہ ’’یہود دشمنی ‘‘ کے خلاف زہر آلود مہم چلائی جا رہی ہے ۔ درحقیقت یہ اسرائیل کی فلسطینی لوگوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں پر کسی بھی قسم کی تنقید کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہے۔ ان حالات کی روشنی میں فرانسسکو میرلی نے نئے قانون کاجائزہ لیا ہے جس میں اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا ہے اور انہیں باقاعدہ دوسرے درجے کا شہری قرار دے دیا گیا ہے۔)

برطانیہ میں اداروں کو دوبارہ قومیائے جانے کی بحث کے ساتھ (ایک پالیسی جس کا جیرمی کاربن کی لیبر پارٹی نے وعدہ کیا ہے)، محنت کشوں کے کنٹرول اور مینجمنٹ کا خیال بھی دوبارہ سامنے آگیا ہے۔ یہاں تک کہ حزب اختلاف کے چانسلر (Shadow Chancellor) جان میکڈونل نے کہا ہے کہ دوبارہ قومیائی جانے والی کمپنیاں ماضی کی طرح نہیں چلائی جانی چاہیں بلکہ انہیں محنت کشوں کے زیر انتظام چلنا چاہیے۔

4اگست کوشام 5:41پر صدر ماڈورو پر اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ ایک فوجی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔اس حملے میں صدر ماڈورو محفوظ رہے جبکہ نیشنل گارڈ کے سات ا ہلکارزخمی ہوئے ۔حملے کے بعد ٹی وی پر اپنے خطاب میں ماڈورو نے اس حملے کی ذمہ داری کولمبیا کے صدر یوان مینوئل سانتوز پر ڈال دی جو خطے میں امریکی سامراج کا گماشتہ ہے۔اس کے بعد ’ وینزویلا کی’ٹی شرٹ میں سپاہی‘‘ نامی ایک انتہائی دائیں بازو کی دہشت گرد تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔اس حملے سے واضح ہو گیا ہے کہ سامراجی طاقتیں کھل کر وینزویلا کی حکومت کیخلاف سازشیں کر رہی ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتی ہیں ۔ اس عمل کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ دوسری جانب خود حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث بحران بڑھتا جا رہا ہے اور معیشت

...

لینن نے ایک مرتبہ ’’عالمی سیاست میں آتشیں مواد‘‘ کے نام سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ لیکن آج کی عالمی صورتحال میں جتنا آتشیں مواد موجود ہے اس کا شاید اس بالشویک قائد نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جہاں نظر دوڑائیں عدم استحکام، شورش اور بربادی موجود ہے: روس اور یوکرائن تنازعہ؛ شام کی خونریز خانہ جنگی؛ ایران، اسرائیل اور سعودی عرب تنازعہ؛ فلسطین کا سلگتا سوال؛ اور افغانستان میں تاحال جاری طویل ناقابل حل جنگ۔

ترک معیشت نامیاتی بحران اور عدم استحکام کی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تیز تر ہوتی سیاسی چپقلش کے نتیجے میں ترک اسٹیل اور ایلومینیم پر امریکی تادیبی محصولات لاگو ہونے کی وجہ سے ترک لیرا کی قدر میں تیز ترین گراوٹ واقع ہوئی ہے۔ اپنی پست ترین سطح پر لیرا کی قدر اس سال جنوری کے مقابلے میں 40 فیصد کم تھی۔ اس کے بعد کرنسی کی قدر میں پیدا ہونے والے نام نہاد ’’استحکام‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے ایک ڈالر کے بدلے میں اب 30 فیصد زیادہ لیرا حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

4 اگست کو شام 5 بج کر 41 منٹ پر اس روسٹرم کے قریب ایک زوردار دھماکا سنا گیا جہاں سے وینزویلا کا صدر نکولس ماڈورو کاراکاس میں بولیوار ایونیو کے مقام پر بولیوارین نیشنل گارڈ کی اکیاسیویں سالگرہ کے موقع پر ایک پریڈ سے خطاب کر رہے تھے۔ صدر ماڈورو اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے مگر نیشنل گارڈ کے 7 ارکان زخمی ہو گئے۔

جنوبی عراق میں جاری احتجاجی تحریک اپنے دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ 8 جولائی اتوار کے روزحکومت کی جانب سے بجلی اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر احتجاج شروع ہوا۔ مظاہرین مقامی آبادی کے لیے نوکریوں کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

13 جولائی، 2018ء کے منحوس دن برطانیہ میں 2003ء کے عراق جنگ مخالف احتجاجوں کے بعد منظم ہونے والے سب سے بڑے احتجاجوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا استقبال کیا۔ اس احتجاج کا دیو ہیکل حجم ہی برطانوی سماج میں موجود بے پناہ غم و غصے اور بغاوت کی نشاندہی کرنے کے لئے کافی ہے۔

تھریسا مئے ابھی محض تین ہفتے قبل اپنے یورپ نواز ممبران پارلیمنٹ کی کھوکھلی بغاوت سے جانبر ہی ہوئی تھی کہ اب ایک بار پھر اپنی پارٹی کے سخت گیر انخلا پسند دھڑے سے نبرد آزما ہے، جس کی وجہ سے پچھلے سال کے عام انتخابات کے بعد سے تاحال تھریسا حکومت کا یہ سب سے بڑا اور خوفناک بحران ہے۔