سرمایہ داری کا گہرا ہوتا بحران، بڑھتا افراط زر اور شرح سود؛ متوقع دیوالیے اور معاشی تباہی

بے قابو افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کے لئے مرکزی بینک شرح سود بڑھا رہے ہیں اور نتیجتاً کساد بازاری جنم لے رہی ہے۔ ہر لمحہ سنگین ہوتا سرمایہ دارانہ بحران حکمران طبقے میں تقسیم کو بڑھا رہا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی اس بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔

[Source]

 اکثر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں ایک ہفتہ طویل عرصہ ہے۔ یقینا، اس مہینے کے آغاز میں ہم نے چند دنوں میں ہی برطانیہ میں ایک نئی وزیرِ اعظم اور ایک نیا بادشاہ دیکھا ہے۔

لیکن معیشت میں ایک سال کا عرصہ ایک نئے دور کا عبوری دورانیہ معلوم ہوتا ہے۔

اگر ہم بارہ مہینے پیچھے جائیں تو مرکزی بینک عجب شانِ بے نیازی سے بڑھتے افراطِ زر کو ”عارضی“ مظہر قرار دے رہے تھے۔ دوسری طرف سرمایہ دار سپلائی چینز میں انتشار اور منڈی میں مزدوروں کی قلت کو ایک عارضی جھنجھٹ قرار دے رہے تھے جسے منڈی کی حاکمیت جلد حل کر لے گی۔ معاشی تجزیہ نگار لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد شاندار معاشی بحالی کی خوشخبریاں سنا رہے تھے۔

آج سُر کیسے بدل گئے ہیں! ہر شخص کو نظر آ رہا ہے کہ قیمتیں بے قابو ہو رہی ہیں۔ بحالی کی امیدوں کی جگہ اب کسا دبازاری کی پریشانیوں نے لے لی ہے۔ حکمران طبقہ آزاد منڈی کے سکون اور غرور سے باہر نکل کر ہیجان میں مالیاتی ہینڈ بریک کھینچ رہا ہے تاکہ کسی اندھی کھائی میں نہ جا گرے۔

لیکن دوسری جانب بھی وہی اندھی کھائی ہے۔۔۔ایک نیا عالمی انحطاط۔ یہاں تک کہ افراطِ زر کو قابو کرنے کے ہیجان میں، متبادل سے خوفزہ حکمران طبقے کا ایک دھڑا، اس تباہ کن نتیجے کی کوششیں کر رہا ہے!

حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری میں تمام راستے بربادی کی طرف جاتے ہیں۔ اُفق پر انقلابی انتشار پنپ رہا ہے۔

سفاک سختیاں

سرکاری طور پر امریکہ میں 8.3 فیصد، یورو زون میں 9.1 فیصد اور برطانیہ میں 9.9 فیصد افراطِ زر کو اب عارضی نہیں دیکھا جا رہا۔

یوکرین میں جنگ مسلسل توانائی کی قیمتوں اور دیگر بنیادی اخراجات کو بڑھا رہی ہے اور اب پالیسی ساز پریشان ہیں کہ افراطِ زر ہر صنعت اور جنس (Commodity) میں پھیل چکی ہے اور مسلسل اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔

نتیجتاً اہم مرکزی بینکوں کے فیصلہ سازوں نے۔۔۔امریکی فیڈرل ریزرو، یورپی سنٹرل بینک، بینک آف انگلینڈ۔۔۔سخت گیر موقف اپنا لیا ہے یعنی افراطِ زر قیمتوں کو کم کرنے کے حوالے سے سخت اور جارحانہ رویہ۔

مثال کے طور پر اس ہفتے امریکی اور برطانوی معیشتوں میں مالیاتی پالیسی کو سخت، قرضوں کی فراہمی کو محدود اور مانگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے فیڈرل ریزرو اور بینک آف انگلینڈ دونوں نے شرح سود میں تاریخی اضافہ کیا ہے۔

فیڈرل ریزرو کی حالیہ کمیٹی میٹنگ میں 0.75 فیصد اضافے کے ساتھ نئی شرح سود 3-3.25 فیصد ہو چکی ہے۔ اسی طرح جمعرات کے دن (شاہی خاندان کی ”تعظیم“ میں ایک ہفتہ تاخیر کے بعد!) بینک آف انگلینڈ نے برطانوی شرح سود میں 0.5 فیصد اضافہ کیا اور اب نئی شرح سود 1.75-2.25 فیصد ہو چکی ہے۔ اس مہینے کے آغاز میں یورپی بینک نے یوروزون کی شرح سود میں 0.75 فیصد اضافہ کیا اور نئی شرح سود 1.25 فیصد ہو چکی ہے۔

اس دوران تینوں مرکزی بینکوں نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ اگلے ایک سال میں شرح سود مزید بڑھائی جائے گی اور آج کے مقابلے میں اگلے موسمِ سرماء تک یہ دُگنی ہو سکتی ہے۔

فیڈرل بینک کے اضافوں کے بعد پوری دنیا کے مرکزی بینکوں نے سوئزرلینڈ سے جنوبی افریقہ تک اپنی شرح سود میں اضافہ کر دیا ہے۔

کساد بازاری کو دعوت دی جارہی ہے

یہ حالیہ فیصلے مرکزی بینکاروں نے اگست کے اختتام پر جیکسن ہول، ویومنگ میں ایک میٹنگ کے بعد لئے ہیں جہاں اس نئے جارحانہ طریقہ کار کا سرکاری اعلان کیا گیا تھا۔

یورپی سنٹرل بینک ایگزیکٹیو بورڈ کی ممبر ایزابیل شنابل نے زور دیا کہ ”اس ماحول میں مرکزی بینکوں کی جارحانہ پالیسی ہونی چاہئیے۔ انہیں مستعدی سے اپنی کرنسیوں کے طویل معیاد استحکام کے حوالے سے عوامی شکوک و شبہات کے خطرات کا مقابلہ کرنا چاہیے“۔

اپنے ساتھیوں کے تبصروں پر بات کرتے ہوئے جرمن انشورنس کمپنی الیانز کی سینئر معیشت دان کیتھرینا اترموہل نے کہا کہ ”یورپی سنٹرل بینک میں اب کوئی اعتدال پسند نہیں رہ گیا۔ اب سارے معتدل سخت گیر یا پھر شدید سخت گیر ہیں“۔

امریکی فیڈرل زیزرو کے چیئرمین جیروم پاویل نے بھی انہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں یہ عمل اس وقت تک جاری رکھنا ہے جب تک یہ کام ہو نہیں جاتا“۔

لیکن دوغلی زبان اور اشارے کنایوں کے پیچھے حقیقی مطلب کیا ہے؟ حقیقی مطلب یہ ہے کہ دانستہ طور پر کساد بازاری کو دعوت دی جا رہی ہے تاکہ معاشی مانگ کو کم کیا جائے، بیروزگاری بڑھائی جائے اور اُجرتوں میں کٹوتیاں کی جائیں۔

جیکسن ہول میٹنگ میں پاویل نے خود کہا کہ اس کا مقصد ”محنت کی منڈی میں کچھ نرمی کرنا ہے“ تاکہ ”افراطِ زر کے حوالے سے توقعات کو قائم رکھا جائے“۔۔۔یعنی محنت کشوں کی اُجرتوں کو منجمد رکھا جائے تاکہ بڑھتی اُجرتوں اور قیمتوں کے ہولناک گرداب کو رونما ہونے سے روکا جائے۔

دوسرے الفاظ میں قیمتوں کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں زیادہ اُجرت کی جدوجہد کرنے والے محنت کشوں پر انتہائی منافقت کے ساتھ افراطِ زر کا الزام ڈالا جا رہا ہے۔ ایک یا دوسرے طریقے سے اس بحران کی ساری قیمت محنت کشوں سے وصولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

بد سے بدتر

کچھ عرصہ پہلے تک پاویل اصرار کر رہا تھا کہ وہ اور فیڈرل ریزرو ایک ”سافٹ لینڈنگ“ کروا سکتے ہیں، یعنی کہ معاشی کریش سے بچنے کیلئے معیشت میں سست روی (اور افراطِ زر میں کمی) کر کے۔

لیکن آج اس حوالے سے وہ اور سرمایہ دار طبقہ کچھ زیادہ پر اُمید نظر نہیں آ رہے۔ اب وہ گھرانوں اور کاروباروں کو خبردار کر رہے ہیں کہ آنے والا وقت مشکل اور تکلیف دہ ہے۔

فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں کیے گئے حالیہ اضافے کے بعد پاویل نے اعلان کیا کہ ”ہمیں افراطِ زر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ میری خواہش تھی کہ ہمارے پاس یہ کام کرنے کا کوئی ایسا طریقہ ہو جس میں تکلیف نہ ہو۔ مگر ایسا کوئی راستہ موجود نہیں“۔

سرمایہ کار بینک یو بی ایس کے ایک معیشت دان جوناتھن پِنگل نے حالیہ فیڈرل ریزرو کے اعلان کے بعد کہا کہ ”کساد بازاری کا خطرہ حقیقی ہے۔ اور وہ (پاویل) اس عزم کا اظہار کر رہا ہے کہ اس کام کے لئے سخت لینڈنگ (کساد بازاری) کوئی مسئلہ نہیں“۔

دیو ہیکل بینک جے پی مورگن چیس کے چیف ایگزیکٹیو نے کہا ہے کہ ”ایک نرم کساد بازاری اور ایک سخت کساد بازاری، دونوں کے امکانات ہیں۔ یوکرین میں جنگ، عالمی توانائی اور اشیاء خوردونوش کی سپلائی میں غیر یقینی کی وجہ سے امکان ہے کہ حالات بہت خراب ہو سکتے ہیں“۔

افراطِ زر کے قویٰ

یورپ اور برطانیہ دونوں کے حوالے سے ایک طویل کساد بازاری کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔۔۔یا شائد اس کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔

بے قابو توانائی قیمتیں اور بڑھتی شرح سود صارفین کی مانگ کو کم کر رہے ہیں اور چھوٹے کاروبار دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ مثلاً یوکرین جنگ سے جرمنی میں گیس کی کمی ہو چکی ہے جس سے صنعت کے کئی سیکٹرز کے لئے ناکارہ یا تباہ و برباد ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

لیکن ایک سخت لینڈنگ سے بھی زیادہ تر مغربی سینٹرل بینکوں کے ہدف، کہ افراطِ زر کی شرح 2 فیصد تک لائی جائے، کے امکانات بہت کم ہیں۔

یورپ اور برطانیہ میں افراطِ زر کی بڑی وجہ گیس سپلائی میں انتشار ہے۔ یہ جنگ کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر کسی مرحلے پر جنگ بندی کا کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو بھی توانائی کا بحران حل نہیں ہو گا اور قیمتیں پرانتشار رہیں گی۔

یورپی حکومتیں اپنی توانائی کی سپلائی کو محفوظ بنانے کے لئے روسی گیس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا جس کے دوران انفراسٹرکچر، ذخیرہ صلاحیت، متبادل توانائی وسائل اور ٹیکنالوجی میں قابلِ ذکر سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔۔۔ابھی تک سرمایہ دار اور ان کے نمائندے یہ سرمایہ کاری فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔

پھر اس موسمِ گرماء میں خشک سالی اور گرمی کی لہروں نے یورپ کے موجودہ توانائی کے نیٹ ورکس کو ننگا کر دیا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں، اور یہ ماحولیاتی تبدیلی کا جِن مزید بے قابو ہوتا جائے گا۔

اس دوران سیاست دان تحفظاتی پالیسیاں اپنا رہے ہیں اور عالمی تجارت مسلسل سست ہو رہی ہے، عالمگیریت پسپائی کا شکار ہے، منڈیوں کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور سپلائی چینز برباد ہو رہی ہیں۔

یہ ساری صورتحال قیمتوں کو مسلسل بڑھاوا دے رہی ہے جس میں کورونا وباء کے اثرات اور یوکرین جنگ اضافی پریشانیاں ہیں۔

کوئی حل موجود نہیں

حقیقت یہ ہے کہ یوکرین جنگ کے آغاز سے پہلے ہی افراطِ زر بڑھ رہا تھا اور اب اس سے جلدی چھٹکارا نہیں ملے گا۔

بڑھتی شرح سود ان طویل معیاد مسائل اور دباؤ کو حل نہیں کر سکے گی۔ اس کے برعکس گھروں، کمپنیوں اور ممالک پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھے گا جس کے نتیجے میں معیشت تباہ و برباد ہو گی اور سماج کا بھرکس نکل جائے گا۔

لیکن شرح سود سے متعلق پالیسی پر یورپی سنٹرل بینک اور بینک آف انگلینڈ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ امریکی ساتھیوں کی تقلید کریں۔ اس کے بغیر امریکی ڈالر مسلسل مضبوط ہوتا رہے گا، یورو اور پاونڈ مسلسل کمزور ہوتے رہیں گے اور یورپ اور برطانیہ میں درآمدات کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں گی جس کے نتیجے میں افراطِ زر کا جن چنگھاڑتا رہے گا۔

کسی بھی اور جگہ کے برعکس امریکہ میں افراطِ زر کی بڑی وجہ مانگ ہے اور اس کا محنت کشوں کی اجرتوں سے کوئی تعلق نہیں جو آج بھی قیمتوں سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ افراطِ زر درحقیقت وائٹ ہاؤس کی مسلسل کینیشین پالیسی کے اطلاق کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں مصنوعی طور پر کھربوں ڈالر امریکی معیشت میں بھرے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ اجارہ دار ”قیمتوں کے تعین کی قوت“ سے امریکی کمپنیاں تاریخی منافعے لوٹ رہی ہیں۔ ”اُجرت-قیمت گرداب“ کے برعکس یہ درحقیقت ”منافع-قیمت گرداب“ ہے کیونکہ بڑی اجارہ داریاں مسلسل قیمتیں بڑھا کر صارفین پر بوجھ ڈال رہی ہیں تاکہ ان کے منافعے محفوظ رہیں۔ لیکن اس کی قیمت محنت کشوں کی قوتِ خرید کی بربادی کی صورت ادا ہو رہی ہے۔

دوسرے الفاظ میں افراطِ زر کے ذمہ دار سرمایہ دار، ان کے سیاسی نمائندے اور ان کا نظام ہے۔۔۔محنت کش نہیں جو دو وقت کی روٹی پوری کرنے کی اعصاب شکن تگ و دو میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سخت گیر مالیاتی پالیسی، شرح سود میں اضافے اور ہارڈ لینڈنگ کوئی حل نہیں ہے۔

رسہ کشی

تمام پراپیگنڈہ کے باوجود بین السطور تجزیے میں واضح ہو جاتا ہے کہ حکمران طبقہ افراطِ زر کی حقیقی وجوہات کا ایک حد تک اقرار بھی کر رہا ہے۔

مثال کے طور پر جیروم پاویل نے بائیڈن انتظامیہ کے حالیہ اخراجاتی پیکجز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہماری فیڈرل مالیاتی پالیسی پائیدار نہیں ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے تو واقعی نہیں ہے“۔ فیڈرل ریزرو کے چیئرمین کا مزید کہنا ہے کہ ”ہمیں جلد یا بدیر ایک پائیدار راستہ اپنانا ہو گا۔ یہ جتنا جلدی ہو جائے اتنا بہتر ہے“۔

اسی طرح فنانشل ٹائمز جریدے نے نووارد برطانوی وزیرِ اعظم لِز ٹرس سے متعلق لکھا ہے کہ وہ ”بینک آف انگلینڈ سے تصادم میں جا رہی ہے“۔ اس کی پالیسی میں توانائی کے بلوں میں سبسڈی اور حکومت کا مزید قرضے لینا شامل ہے۔ ان پالیسیوں کا خرچہ 150 ارب پاؤنڈ ہے۔ اس دوران امراء اور بڑے کاروباروں کے ٹیکسوں میں کٹوتیاں کر دی گئیں ہیں۔

سٹی بینک میں ایک شرح سود حکمت کار جیمز سیرل نے خبردار کیا ہے کہ ”برطانیہ میں مالیاتی اور شرح سود کی پالیسیاں اب (معیشت کو) مختلف اطراف میں کھینچیں گی“۔

اس وقت واضح ہو رہا ہے کہ کساد بازاری کو دعوت دے کر افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کرنے والے سخت گیر (منتخب) مرکزی بینکاروں اور اس راستے پر چلنے کے سیاسی اور سماجی نتائج سے خوفزدہ سیاست دانوں (منتخب) کے درمیان شدید رسہ کشی شروع ہو رہی ہے۔

چین میں پراپرٹی کے بلبلے کے پھٹنے اور معیشت کے لئے تباہ کن زیرو کورونا وباء پالیسی کے نتیجے میں شرح نمو پر پریشان معاشی وزراء، اور استحکام اور سب سے بڑھ کر اپنی ساکھ کی حفاظت کے لئے کوشاں بوناپارٹسٹ چینی کمیونسٹ پارٹی کے قائد شی جن پنگ کے درمیان تضادات شدت اختیار کر رہے ہیں۔

سادہ الفاظ میں ہر جگہ حکمران طبقے میں تقسیم مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ تقسیم خاص طور پر وائٹ ہاؤس اور امریکی فیڈرل ریزرو میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ لیکن ہر اہم سوال پر ہر ملک کے حکمران طبقے میں یہ تقسیم کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

ایک دھڑا مالیاتی پالیسی کو اپناتے ہوئے شرح سود بڑھانا چاہتا ہے چاہے اس کے کچھ بھی نتائج ہوں۔ دوسرا دھڑا اس کڑوی دوائی سے خوفزدہ ریاستی اخراجات اور حکومتی بیل آؤٹ پیکجز کے ذریعے زیادہ کینیشین پالیسیاں لاگو کرنا چاہتا ہے۔

اول الذکر فوری طور پر محنت کش طبقے سے ٹکر لینا چاہتا ہے۔ بعد الذکر کی کوشش ہے کہ ٹکراؤ میں ہر ممکن تاخیر کی جائے۔ لیکن تاخیر ایسے حالات پیدا کرے گی کہ زیادہ شدید بحران جنم لے گا اور نتیجے میں طبقاتی جدوجہد اتنی ہی شدید ہو گی۔

بہرحال دونوں کا اولین مقصد ایک ہی ہے۔۔۔سرمایہ دارانہ نظام اور ارب پتی طبقے کے منافعوں، اقتدار اور استحقاق کا تحفظ۔

راستہ کوئی بھی اپنایا جائے، محنت کشوں کے لئے نتیجہ ایک ہی ہے۔۔۔آہستہ گلا گھونٹ کر موت یا ہزار خراشوں سے موت۔

ناقابلِ حل مسئلہ

مالیاتی پالیسی اور کینشین پالیسی کے دونوں پیروکار درست ہیں اور غلط بھی ہیں۔ حکمران طبقہ کوئی بھی فیصلہ کر لے نتیجہ تباہی و بربادی ہی ہے۔

سب سے زیادہ امکان ”سٹیگ فلیشن (Stagflation)“ کا ہے جس میں قیمتیں مسلسل بلند رہتی ہیں اور معیشت منجمد یا انحطاط پذیر ہو جاتی ہے۔

اگر وہ مسلسل شرح سود بڑھاتے ہیں تو عالمی معیشت ایک نئے انحطاط کا شکار ہو جائے گی۔ اگر وہ ریاستی اخراجات کے ذریعے مداخلت کرتے ہیں تو افراطِ زر اور پہلے سے موجود قرضوں کا دیو ہیکل پہاڑ مزید بڑھے گا۔

درحقیقت سب سے زیادہ امکان دونوں مظاہر کا مرکب ہے۔۔۔نام نہاد ”سٹیگ فلیشن (Stagflation)“ جس میں قیمتیں مسلسل بلند رہتی ہیں اور معیشت منجمد یا انحطاط پذیر ہو جاتی ہے۔

اس دوران منافعوں کے تحفظ کے لئے مالکان کی جارحیت اور معیارِ زندگی کے دفاع کے لئے محنت کشوں کے تحرک کے نتیجے میں تمام ممالک میں طبقاتی جنگ مسلسل تیز تر ہو گی۔

یہ ساری صورتحال ایک سو سال پہلے لیون ٹراٹسکی کے کہے گئے الفاظ پر مہر ثبت کر دیتی ہے کہ:

”بورژوازی کی پیداوار یا رسد یا ریاستی خزانے میں استحکام بحال کرنے کی ہر کوشش طبقات کے درمیان عدم استحکام کو مزید برباد کرے گی“۔

دوسرے الفاظ میں حکمران طبقے کی معاشی استحکام کو بحال کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ سماجی اور معاشی عدم استحکام کی شکل میں نکلے گا۔

یہ بات دوسرے حوالے سے بھی درست ہے۔ بڑی سامراجی قوتوں کے حکمران طبقات نے مسلسل اپنی تنگ نظر سیاسی پالیسیوں کے ذریعے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے تاکہ اپنے مفادات محفوظ رہیں۔

انہوں نے تحفظاتی پالیسیوں کا راستہ اپنایا جس کے نتیجے میں تجارت کی قیمت بڑھ گئی۔ یہ دانستہ یوکرین میں جنگ کوطویل کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ حکمران طبقات کی حکومتوں پر اب شعلہ بیان افراد مسلط ہو رہے ہیں جو سرمایہ داروں کے مفادات کے برعکس اپنے حامیوں کے تنگ نظر مفادات کا دفاع کر رہے ہیں (مثال کے طور پر لز ٹرس کی ٹیکس کٹوتیاں اور بریگزٹ واقعہ)۔

اس تمام صورتحال کا نتیجہ پراکسی جنگیں، تجارتی جنگیں اور ثقافتی جنگیں ہیں جو پہلے سے نازک حالات کو مزید پر انتشار بنا رہے ہیں۔

اس لئے آج ٹراٹسکی کے الفاظ کو موجودہ حالات کے مطابق ایسے بیان کیا جا سکتا ہے کہ بورژوازی کی ایک معاشی توازن کو بحال کرنے کی ہر کوشش؛ یعنی مالیاتی حوالے سے افراطِ زر، ناگزیر طور پر دوسرے معاشی توازن یعنی مانگ اور شرح نمو میں انتشار پیدا کر دیتی ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہے۔

یہ دونوں عوامل سیاسی اور سماجی توازن کو مسلسل کمزور کر رہے ہیں جن میں عالمی تعلقات بھی شامل ہیں۔ اس کے نتیجے میں مزید معاشی انتشار پھیل رہا ہے اور پوری دنیا کے ہر سماج میں انقلابی دھماکے ہو رہے ہیں۔

سرمایہ داری میں اس بند گلی سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی اس ناقابلِ حل مسئلے سے آزاد کرا سکتا ہے۔

اُکھاڑ پچھاڑ

ہمیں یہ عمل سرمایہ دارانہ بحران کی ہر اُکھاڑ پچھاڑ میں نظر آ رہا ہے۔

2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد اپنے نظام کو بچانے کے لئے حکمران طبقے نے بینکوں کو بیل آؤٹ پیکج دیے اور پھر جبری کٹوتیوں کی شکل میں محنت کشوں اور نوجوانوں کو بِل تھما دیا۔

اس کے نتیجے میں سڑکیں تحریکوں سے بھر گئیں۔ بعد میں یونان میں سائریزا، سپین میں پوڈیموس اور برطانیہ میں کوربن تحریک کی شکل میں بائیں بازو کے نئے سیاسی مظاہر ابھرے۔

پھر کورونا وباء کے وقت پوری دنیا میں حکومتوں نے بڑے کاروباروں اور اجارہ داریوں کو بلینک چیک دے دیے جس کی تمام فنڈنگ مزید قرضوں اور پیسے چھاپ کر کی گئی تاکہ معیشت سنبھلی رہے اور سماج میں انقلابی انتشار سے بچا جائے۔

لیکن عالمی معیشت میں مصنوعی سرمایہ کاری کا نتیجہ آج فلک شگاف افراطِ زر کی شکل میں نکلا ہے۔

اس وقت برطانیہ اور یورپ میں لاکھوں کروڑوں عوام کو توانائی کے بحران کی وجہ سے غربت و افلاس کا سامنا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سیاست دان توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے مختلف پُر ہیجان اقدامت کر رہے ہیں جن میں ایک ہی قدر مشترک ہے کہ ان کی تمام قیمت فوری طور پر یا طویل عرصے میں محنت کش ہی ادا کریں گے۔

اس دوران سامراجی یوکرین جنگ کی طوالت اور تجارتی جنگوں میں شدت کے ذریعے طویل مدتی افراطِ زر اور قیمتوں میں پرانتشار اُتار چڑھاؤ کے بیج بو رہے ہیں اور پہلے ہی شدید کمزور اور پُر ہیجان عالمی معیشت کو مزید غیر مستحکم کر رہے ہیں۔

حادثہ اور لازمیت

سرمایہ داری کے معذرت خواہوں اور تجربیت پسند (Empiricist) اصلاح پسندوں کے لئے یہ سلسلہ وار بحران بدقسمت حادثوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

1970ء کی دہائی میں یہ ”تیل“ کا بحران اور دیگر ثانوی مسائل تھے جس نے عالمی کساد بازاری کو جنم دیا۔ 2008ء کے معاشی بحران کو ایک ”مالیاتی“ بحران قرار دیا گیا جس کی بنیاد لالچی بینکار اور کمزور ریگولیشن تھی۔

2020ء میں تمام موجود انتباہی علامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں بتایا گیا کہ عالمی معیشت بڑی شاندار ہوتی اگر ”کورونا وباء“ کی تباہی نہ پھیلتی۔

آج سارا الزام یوکرین پر پیوٹن کی فوج کشی کے سر تھونپ دیا جاتا ہے جس نے ”توانائی“ یا ”معیارِ زندگی“ کے بحران کو جنم دیا ہے۔

لیکن جب ہم ان تمام ”حادثات“ کو اکٹھا کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ان سب میں ایک بنیادی لازمیت مشترک ہے۔۔۔سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات جن کا ناگزیر نتیجہ انتشار اور بحران ہے یعنی نجی ملکیت اور قومی ریاست کی جکڑ بندیوں کے خلاف پیداواری قوتوں کی بغاوت۔

ایک تندرست و توانا نظام اس طرح کی ٹھوکروں اور جھٹکوں کو باآسانی جذب کر سکتا ہے۔ لیکن تاریخی متروکیت اور نامیاتی بحران کی شکار سرمایہ داری ان زور دار ٹھوکروں سے دربدر ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔

بحران میں ہر نیا مرحلہ پچھلے دور میں گزرے تضادات کو مزید شدید کر دیتا ہے، موجودہ عوامل کو تیز تر کرتا ہے اور انسانی شعور پر بھی مزید زبردست حملے کرتا ہے۔

اس حوالے سے آج سماج کو تاخت و تاراج کرتی افراطِ زر کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری کے مجتمع شدہ تضادات کا پرزور اظہار ہے۔ حکمران طبقے کی دہائیوں پر محیط اندھا دھند کینشین پالیسیاں اور حریص سرمایہ داروں کے فوری منافعوں کا حصول اب حساب لینے پہنچ گئے ہیں اور پوری دنیا میں سارے ممالک میں محنت کش طبقے کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ ان نتائج کی قیمت ادا کریں۔

اس لئے ”معیارِ زندگی“ کا بحران کوئی حادثہ نہیں ہے جسے اصلاحات کی پیوندکاری سے حل کر لیا جائے گا بلکہ یہ بیمار اور متروک سرمایہ دارانہ نظام کے جاری بحران میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔

لیکن اس کہانی کا اختتام ابھی زیرِ تحریر ہے۔ ہم پر تاریخی ذمہ داری ہے کہ منظم ہوں، مارکسزم کی قوتوں کو تعمیر کریں اور اس کہانی کا انقلابی اختتام کریں۔