ایران: احتجاجی تحریک پسپا لیکن یہ ابھی جدوجہد کا آغاز ہے!

ایندھن سبسڈی میں حیران کن کٹوتیوں کے بعد پورے ایران میں پھوٹنے والے احتجاجوں کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ گلی محلوں اور چوکوں چوراہوں پر عوام کی جرأت مند اور دلیرانہ جدوجہد کے باوجود ملا آمریت نے تحریک کو پانچ دنوں میں کچل دیا ہے۔ لیکن یہ آمریت کی فتح نہیں بلکہ آمریت پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔

[Source]

انٹرنیٹ بندش ختم ہونے کے ساتھ ہی پورے ملک سے ریاستی جبر کی انتہائی خوفناک اور وحشیانہ رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر بہت زیادہ گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں ریاستی فورسز کا ایک جتھہ ایک نوجوان پر کلہاڑے کے ساتھ وحشیانہ حملہ کر رہا ہے جس کے بعد نوجوان کو تین مرتبہ گولی مار دی جاتی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ایک مقامی حکومتی حامی نے ایک فارمیسی میں ایک جلی ہوئی لاش پھینک دی۔ اس واقعے کے بعد فارمیسی میں موجود تمام افراد، جنہوں نے اسے پہچان لیا، گرفتار کر لئے گئے۔

موت کے گھاٹ اتارے جانے والوں میں 12 اور 13 سال کے کئی نوعمر جوان ہیں جبکہ ایک 7 سالہ بچی کے قتل کی رپورٹ بھی آئی ہے۔ کچھ مقامات پر ملا آمریت کے وحشی غنڈوں نے پرامن مظاہرین اور راہگیروں پر بلاامتیاز مشین گن سے فائرنگ کی جبکہ بھبھان میں مظاہرین پر ایک ٹینک چڑھا دیا گیا۔ کئی علاقے میدانِ جنگ بنا دیے گئے جہاں سڑکیں دھماکوں سے ٹوٹی ہوئی ہیں۔

اگرچہ ملا آمریت اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ 200 ہے لیکن حقیقی اعدادوشمار توقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ انٹرنیٹ بندش کے خاتمے کے بعد آنے والی رپورٹوں میں سے ایک کے مطابق ”میری بیوی اصفہان میں موجود ایک ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں کام کرتی ہے۔ پچھلے ہفتے اس کے کئی ساتھی ورکروں کو شام کی شفٹ سے لے کر صبح تک کام کرایا گیا۔ اپنے ذرائع سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہسپتالوں میں کئی لاشیں موصول ہوئی ہیں لیکن شدید انتشار کی وجہ سے ان کا کوئی درست ریکارڈ موجود نہیں۔۔۔جب (میری بیوی) وہ اپنی شفٹ سے واپس آئی تو اس نے کہا کہ لاتعداد لاشیں موجود تھیں۔ وہ رو رہی تھی۔ اس نے (زندگی میں)ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جو لوگ آپریشن تھیٹر میں کام کرتے ہیں، موت ان کے لئے کوئی انجانی شے نہیں لیکن انہوں نے ایسے خوفناک مناظر دیکھے کہ (وہ)مکمل سکتے میں تھی۔ اس نے کہا کہ دو دنوں میں انہیں 25-20 لاشیں موصول ہوئی ہیں (ہفتہ اور اتوار 16-17 نومبر)۔ یہ وہ افراد تھے جو ہسپتال پہنچتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئے۔ کتنے لوگ موقع پر دم توڑ گئے اور ان کی لاشیں غائب کر دی گئیں اس حوالے سے اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ اور یہ اصفہان کے صرف ایک محلے ملک شاہ کی داستان ہے۔ اگر ہم (یہ فرض کر لیں کہ یہ ہسپتال ایک مخصوص کیس ہے)، اصفہان میں 20 سے زیادہ ہسپتال ہیں، اعدادوشمار انتہائی خوفناک ہیں۔ پھر، زخمیوں کی تعداد (ہسپتال میں) 150-140 تھی“۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق شیراز اور اہواز کے ہسپتالوں کے مطابق قتل کیے جانے والے افراد کی تعداد 150-100 ہے۔ تہران سے بھی کچھ ایسے ہی اعدادوشمار موصول ہو رہے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ہسپتالوں اور پولیس سے موصول ہو رہے ہیں جن سے تصویر کا ایک ہی رخ واضح ہو رہا ہے یعنی وہ اموات جو ہسپتال جاتے راستے میں یا پھر ہسپتال پہنچ کر ہوئیں۔ پھر کوئی رپورٹ موجود نہیں کہ کتنے افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ قومی سطح پر حقیقی تعداد 500 یا اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ملا آمریت لواحقین کو لاشیں واپس کرنے کے لئے بے تحاشا پیسے مانگ رہی ہے۔

خود ملا آمریت نے زخمیوں کی تعداد 4 ہزار 800بتائی ہے۔ ایک مرتبہ پھر یہ محتاط اعداد و شمار ہیں جن میں ہسپتال نہ جانے والے شامل نہیں کیونکہ ریاستی فورسز وہاں تعینات تھیں جو ہر آنے والے زخمی کو گرفتار کر رہی تھیں۔ زخمیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اسپتال اور کلینک عوام کو ایمرجنسی کال دے رہے ہیں کہ وہ خون کے عطیات دیں کیونکہ بلڈ بینک کے ذخائر خوفناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔

یک ممبر پارلیمنٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 7 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی کو بدنامِ زمانہ فشافویہ جیل میں رکھا جا رہا ہے جہاں پہلے ہی 15 ہزار مجرموں کو زیادہ تر منشیات کیسوں میں وحشیانہ حالات میں رکھا جا رہا ہے۔ یہ قیاس غلط نہیں ہو گا کہ ملا آمریت نے کریک ڈاؤن کے دوران تقریباً 10 ہزار افراد کو قتل، زخمی یا گرفتار کیا ہے۔ یہ اعداوشمار اور بھی زیادہ خوفناک ہیں اگرملا آمریت کی اس بات کو سچ مان لیا جائے کہ سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ 1 لاکھ 70 ہزار سے 2 لاکھ تک مظاہرین موجود تھے۔

ظلم و جبر جاری ہے اور مظاہروں میں شریک مشتبہ نوجوانوں کو پورے ملک میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔
ان (زیادہ تر) نوجوانوں نے ساری عمر بیروزگاری، جبری کٹوتیوں اور غربت کا ظلم و جبر سہا ہے۔ انہیں ایک لٹیرے چالباز حکمران طبقے نے تاریک مستقبل کے ساتھ بے یارومددگار گلنے سڑنے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور جب بالآخر انہوں نے اپنے آلام و مصائب پر آواز اٹھانی شروع کی (ہاں، انہوں نے کچھ پٹرول پمپ اور بینک نظرِ آتش کئے جو حکمران طبقے کی لوٹ کھسوٹ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں)تو انہیں خوفناک جبروتشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اب ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ افراد فسادی اور مجرم ہیں۔

حیران کن بات یہ نہیں ہے کہ مظاہرین کو کس خوفناک جبر کا سامنا کرنا پڑا بلکہ یہ ہے کہ درحقیقت عوام نے اس خوفناک ظلم و جبر کو سہتے ہوئے بے پناہ صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین کی زیادہ تر تعداد پرامن اور غیر مسلح تھی۔ پھر کئی بینک اور پٹرول پمپ جو نظرِ آتش کئے گئے وہ خود ملاآمریت کے اپنے شرپسندوں نے کئے۔ کرج (تہران سے باہر ایک صنعتی شہر) سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق مسلح افواج نے پہلے ایک بڑے عوامی گروہ کو گرفتار کیا اور اس کے بعد ایک قریبی بینک کو جلا کر راکھ کر دیا۔

ملا آمریت کا ردِ عمل قطعی طور پر پرامن نہیں تھا۔ 1980ء کی دہائی میں ردِ انقلابی دہشت پھیلانے کے بعد سے یہ ملا آمریت کا سب سے خوفناک جبر ہے۔ 2009ء کی گرین تحریک پر ہونے والے جبر سے زیادہ پرتشدد، جس کے عروج پر لاکھوں عوام سڑک پر تھی۔ اس ساری صورتحال میں ملا آمریت کی شدید تنہائی اور خوف بے نقاب ہو گیا ہے۔ اس حقیقت کی تائید میں کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں عدلیہ، اسپیشل فورسز اور دیگر کا خوف واضح ہے۔

یہ فطری ہے کہ شدید جبر، میڈیا پروپیگنڈہ اور ایران کے ایک نیا شام بننے کی دھمکیوں کی وجہ سے بہت ساری عوام احتجاجوں میں شریک نہیں ہوئی۔ درحقیقت، کسی قسم کی منظم تنظیم، قیادت یا موثر رابطہ کاری کے بغیر 2 لاکھ افراد کا سڑکوں پر آنا تحریک کی قوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاسدارانِ انقلاب کے مطابق زیادہ تر افراد نوجوان، غریب اور بیروزگار تھے جن کا تعلق محنت کش علاقوں سے تھا۔ لیکن یہ پرتیں پورے محنت کش طبقے میں موجود غم و غصہ اور عدم اطمینان کا اظہار کر رہی ہیں۔ یہ موڈ مزید گہرا اور گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور ریاستی جبر کے نتیجے میں سماج کی وسیع ترین پرتوں تک پھیل چکا ہے۔

ملا آمریت

لیکن ملا آمریت کی ”فتح“ جس کا پرچار صبح شام ہر ٹی وی چینل پر پچھلے ایک ہفتے سے کیا جا رہا ہے، کھوکھلی ثابت ہو رہی ہے۔ تحریک کو کچلنے کے بعد آمر ریاست نے اپنی فتح کو مستحکم کرنے کے لئے 25 نومبر پیر کے دن چند ایک ”خودرو عوامی“ آمریت نواز ریلیاں کروائیں جو ”فسادیوں“ کے خلاف تھیں۔ یہ ریلیاں 30 دسمبر 2009ء کی طرز پر تھیں جنہیں گرین تحریک کو کچلنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا جو چند دن پہلے اپنی انتہا تک پہنچ کر پسپا ہو رہی تھی۔ اس وقت آمریت نواز احتجاجوں میں ہزاروں شاید لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔

لیکن اس مرتبہ میڈیا میں چار پانچ دن تشہیر کرنے اور ملا آمریت کی پوری مشینری کے تحرک کے باوجود یہ ریلیاں شرمناک ناکامی ثابت ہوئیں۔ تہران میں انقلاب چوک اور فردوس چوک کے درمیان ہونے والی ریلی میں اگر زیادہ سے زیادہ اندازہ بھی لگایا جائے تو 1 لاکھ سے زیادہ افراد نہیں تھے۔ اگر پورے تہران کے حوالے سے دیکھا جائے تو ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر میں یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ پھر بھی عوامی اداروں کے مزدوروں (جنہیں یقیناً جبراً باہر نکالا گیا ہو گا) کے علاوہ زیادہ تر تعداد ان افراد کی تھی، جو غریب تھے اور پیسوں کے عوض شریک ہوئے تھے۔ پھر بھی ملا آمریت کو شدیدہیجانی اقدامات کے ذریعے ”سڑکیں بھرنی“ پڑیں۔ جیسا کہ، پوری میٹرو سروس پراسرار طور پر ”تکنیکی مسائل“ کی وجہ سے سٹیشنوں کے قریب رک گئی۔۔۔ سکول اور یونیورسٹی طلبہ کو ان کے اساتذہ ریلیوں میں لے کر گئے۔ ایک طالب علم نے رپورٹ دی کہ وہ ایک قریبی یونیورسٹی کی لائبریری میں مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک کوئی شخص تیزی سے اندر آیااور اس نے بتایا کہ لائبریری اور قریبی تمام ادارے بند کئے جا رہے ہیں اور جتنے بھی لوگ موجود ہیں انہیں اب باہر نکلنا پڑے گا۔ اس دوران عام راہگیروں کو مظاہرین بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ صورتحال اس حد تک مایوس کن اور شرمناک تھی کہ کئی ہیلی کاپٹر موجود ہونے کے باوجود ریلی کی ایک بھی فضائی ویڈیو نہیں دکھائی گئی۔ اخباروں میں ریلی کی تصاویر سامنے سے زیادہ تر انتہائی محدود زاویے سے لی گئی تھیں تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ سڑک مظاہرین سے بھری پڑی ہے۔ 15 لاکھ کا شہر تبریز ان چند ایک خوش قسمت شہروں میں سے تھا جس کی صدر روحانی نے نشاندہی کرتے ہوئے عوام کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ملا آمریت کی حمایت میں باہر نکلے جبکہ وہاں 500 سے بھی کم افراد ریلی میں موجود تھے۔

2009ء کی گرین تحریک میں زیادہ تر درمیانہ طبقہ موجود تھا اور اس کی قیادت لبرل اصلاح پسند تحریک کر رہی تھی جس کی غرباء میں کوئی حمایت موجود نہیں تھی۔ ملا آمریت نے اس حقیقت کو انتہائی چالاکی سے استعمال کرتے ہوئے اپنے روایتی سامراج مخالف پروپیگنڈہ کا سہارا لیتے ہوئے غرباء کو اپنی حمایت میں متحرک کر لیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ یہ غرباء ہی تھے جو سڑکوں پر موجود تھے۔ اور ملا آمریت تمام تر رشوتوں اور دھمکیوں کے باوجود عوام کی خاطر خواہ تعداد کو متحرک نہیں کر سکی۔ اگرچہ اس وقت عوام میں کوئی خاص سامراج نواز جذبات موجود نہیں ہیں مگر یہ بھی واضح ہے کہ ملا آمریت کا روایتی سامراج مخالف پروپیگنڈہ اب ناکارہ ہو چکا ہے۔ دہائیوں سے عوام کے معیارِ زندگی پر ملاؤں کے خوفناک حملوں نے سماج میں ان کی حمایت ختم کر دی ہے جبکہ ان کی اپنی شاہانہ زندگیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کی دوغلی پاکبازی روزمرہ کرپشن اور اقرباء پروری میں مکمل طور پر ننگی ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سماج کی غریب ترین پرتوں پر دن رات ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ ان سب وجوہات نے ملا آمریت کی ساکھ پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔

ماضی میں، ریاست کبھی سخت گیر رجعتی حکومتوں اور کبھی لبرل اصلاح پسند حکومتوں کو اقتدار میں لاکر سماج میں موجود بے چینی کو محفوظ رستے پر زائل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے۔لیکن پچھلے ہفتے میں ان تمام سیاسی دھڑوں کی حقیقت عیاں ہوچکی ہیں، جب تحریک کو کچلنے کے لیے یہ تمام دھڑے اکٹھے تھے۔

خود صدر روحانی کو شدید اسٹیبلشمنٹ مخالف عوامی موڈ کی وجہ سے اقتدار ملا۔ اپنے آپ کو لبرل جمہور پسند کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس نے 2013ء کے انتخابات معیارِ زندگی کو بہتر کرنے، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جمہوری حقوق میں اضافہ کرنے (خاص طور پر میڈیا، آزادیِ رائے اور انٹرنیٹ کی بندشوں کو ختم کرنا) کے منشور پر جیتا تھا۔ لیکن پچھلے ہفتے میں اس نے شاید ایران کی 40 سالہ ملا آمریت کی تاریخ میں معیارِ زندگی پر زیادہ شدید حملے کئے ہیں، زیادہ سیاسی قیدی بنائے ہیں اور انٹرنیٹ سمیت زیادہ جمہوری حقوق سلب کئے ہیں۔

تمام اصلاح پسند سیاست دانوں نے ملا آمریت کی مکمل حمایت کی۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول سابق صدر محمد خاتمی ہے جسے امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بردار بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن جس نے 26 نومبر تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔ اس وقت بھی اس نے ملا آمریت ہی کی سرکاری زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کتنے غیر ملکی ایجنٹ اور کتنے ایرانی سڑکوں پر موجود تھے۔ یہی لبرل جمہور پسندوں کی اصل حقیقت ہے جو ہمیشہ غلیظ ترین رجعتی آمریت سے زیادہ عوامی انقلابی تحرک سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔

دوسری طرف سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور پاسداران کے گرد اکٹھا ملا آمریت کا سخت گیر دھڑا بھی مختلف نہیں ہے۔ نہ صرف انہوں نے ایندھن سبسڈی میں کٹوتی کے حکومتی فیصلے کی بھرپور حمایت کی بلکہ وہ کریک ڈاؤن میں بھی پیش پیش رہے اور ان کے سب سے ممتاز کارندے، جیسے کیھان اخبار کا ایڈیٹر حسین شریعت مداری اور سخت گیر سابق صدارتی امیدوار ابراہیم رئیس الساداتی، گرفتار افراد کے قتل کا مطالبہ کرتے رہے۔ دیگر اسلامی انتہا پسند ”تجزیہ نگار“ ٹی وی پر بیٹھ کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ گرفتاروں کے ہاتھ پیر سزا کے طور پر کاٹ دیے جائیں۔

مکمل عوامی حمایت کھونے کے بعد ملا آمریت خوفناک بحران کا شکار ہو چکی ہے اور ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی ہے۔ سخت گیر سیاستدان اور حکومتی نمائندے مسلسل حکومت پر وار کر رہے ہیں کہ وہ ”درست انداز میں“ کٹوتیاں لاگو نہیں کر رہے اور عوام کو اس حوالے سے تیار نہیں کر رہے۔ دوسری طرف، اصلاح پسند سیاست دان سخت گیروں پر حملہ کر رہے ہیں کہ وہ میڈیا کو سنسر کر رہے ہیں۔ چند مہینوں بعد عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور ابھی سے پارلیمنٹ میں لڑائیاں کھل رہی ہیں۔ مظاہروں کو درست طریقے سے کنٹرول نہ کرنے پر مسخرے ممبر پارلیمنٹ علی مطہری نے وزیر داخلہ کے مواخذے کا ایک بل متعارف کروایا ہے۔ سخت گیر ممبرانِ پارلیمنٹ وزیر پٹرولیم کے مواخذے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق وزیر پٹرول کی اسمگلنگ کنٹرول کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے پٹرل کی قیمتیں بڑھانی پڑی ہیں۔ وزیرِ تعلیم کے بھی مواخذے کا خطرہ ہے جبکہ وزیرِ زراعت نے پہلے ہی مواخذے سے بچنے کے لئے اس ہفتہ کے آغاز میں استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ اس پر یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ دیگر مسائل کے ساتھ زرعی اجناس کے افراطِ زر کو کنٹرول نہیں کر سکا۔

نئے پارلیمانی انتخابات سے پہلے ہی ممبران پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا تعلق اور شناخت اسٹیبلشمنٹ سے نہ جوڑی جائے۔ بھبھان (ایک غریب علاقہ جہاں ان واقعات میں کئی اموات ہو چکی ہیں) سے منتخب ممبر پارلیمنٹ حبیب اللہ کیشت زار نے حکومت پر شدید تنقید کی کہ ”لوگوں کی جیبوں سے رقم بٹورنے کے بجائے تم بجٹ میں فضول خرچیاں کنٹرول کر سکتے تھے، غیر ضروری بیرونِ ملک مہنگے دورے ختم کر سکتے تھے اور تمہای حکومت میں موجود کچھ افراد کی شاہ خرچیوں کو روک سکتے تھے“۔ اس نے روحانی پر بھی تنقید کی کہ اس نے حکومتی اسکیموں کے حوالے سے ”جن ضرورت مندوں کو روٹی چاہیے، وہ پیسے ادا کریں“کیوں کہا۔ماھشھر(پسماندہ قصبہ جہاں کافی اموات ہوئی ہیں) سے منتخب ممبر پارلیمنٹ محمد گل مرادی ریاستی تشدد پر تنقید اور حکومت سے سوال کرتے ہوئے جھگڑ پڑا کہ ”تم نے ہمارے ساتھ وہ سب کچھ کیوں کیا جو شاہ (شاہِ ایران)نے بھی کیا تھا؟“

یہ تمام واقعات ایک ایسی آمریت کی عکاسی کر رہے ہیں جو اس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ لڑائیاں مزید شدت اختیار کریں گی۔ اس دوران ایک بھی عوامی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکے گا جن کے آلام و مصائب میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ ملا آمریت کے دعوں کے برعکس پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ابھی سے منڈی میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ IRNA (سرکاری ایرانی خبر رساں ایجنسی)کے مطابق ٹرانسپورٹ اور کچھ اشیاء(انڈے، فروٹ، سبزیاں) کی قیمتیں 15 نومبر سے 25-50 فیصد بڑھ چکی ہیں۔ ایک اور سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایک عام مزدور خاندان کی قوتِ خرید اسی دوران 10 فیصد کم ہوئی ہے۔

ملا آمریت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بسیجی ملیشیا کو متحرک کریں گے تاکہ قیمتیں کنٹرول کی جا سکیں لیکن یہ محض خام خیالی ہے۔ افراطِ زر کا جبرکی قوت کے استعمال سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ملا آمریت قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پٹرولیم قیمتوں میں اضافے کا سارا بوجھ چھوٹے کاروباریوں کے کندھوں پر ڈال دیا جائے گا جن میں سے زیادہ تر دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو شاہِ ایران نے اپنی حکومت کے خاتمہ سے کچھ عرصہ پہلے کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ قدم موجودہ ریاست کو بھی بچا نہیں پائے گا۔ سبسڈی میں کٹوتیوں کا پروگرام درحقیقت آئی ایم ایف کا پروگرام ہے جسے محمود احمد ی نژاد کی صدارت میں منظور کیا گیا تھا اور موجودہ حکومت اسی پر عمل پیرا ہے۔ پٹرولیم قیمتوں کے علاوہ دیگر بنیادی ضروریات جیسے گھریلو گیس کی سبسڈی میں کٹوتیاں بھی پروگرام کا حصہ ہیں۔ یہ تمام تر معاشی حملے بڑھتی طبقاتی کشمکش میں مزید اضافہ کریں گے اور مزید ملا آمریت سماجی تنہائی کا شکار ہوتی جائے گی۔

ایک نئے باب کا آغاز

فوری نتائج سے ہٹ کر ان مظاہروں نے ایران کے اندر طبقاتی جدوجہد کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے۔ سماج کی وسیع پرتیں جو پہلے غیر متحرک تھے یا پھر ملا آمریت کے حامی تھے اب تیزی سے مخالف ہو رہی ہیں۔ خوفناک جبری کریک ڈاؤن کے خلاف عوامی ردِ عمل سکتے اور بے یقینی سے اب غم و غصہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ غم و غصہ اظہار کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ پچھلے چند دنوں میں ایک سابق حزبِ اختلاف کے ملا حسن آغامیری کی ایک ویڈیو 30 لاکھ سے زائد افراد انسٹاگرام پر دیکھ چکے ہیں۔

ملا آمریت نے حال ہی میں آغامیری کو سرکاری ملائیت سے فارغ کر دیا ہے اور اسے ایک دو سالہ معطل سزا بھی سنا دی ہے۔ اس ویڈیو میں ترش اور منحرف رویہ اختیار کرتے ہوئے آغامیری نے ملا آمریت پر شدید تنقید کی ہے کہ اس نے اپنی کرپشن، تکبر اور آمریت میں عوام کو صرف تکالیف ہی دی ہیں۔اگرچہ ویڈیو میں آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں بتایا گیا لیکن اس کی مشہوری عوامی موڈ کی عکاس ہے۔ شدید سماجی و معاشی دباؤ اور محنت کش طبقے کی کسی قیادت کی عدم موجودگی میں ایسے حادثاتی عناصر ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں اور ایک وسیع تحریک کا مرکز بن سکتے ہیں۔

تنظیم، قیادت اور پروگرام کی عدم موجودگی ہی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے سڑکوں پر نوجوان تنہائی کا شکار ہو گئے۔ سماجی پرتوں کی یہ کمزوری قابلِ فہم ہے کیونکہ انہوں نے پچھلے 40 سالوں میں کوئی قابلِ ذکر سیاسی تحرک دیکھا ہی نہیں۔

ملا آمریت کے جبر کے دو مقاصد تھے۔ پہلا تو یہ کہ حتی الامکان کوشش کر کے جتنے لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے سے روکا جا سکتا ہے روکا جائے اور تحریک کو جبر کے ذریعے پھیلنے سے روکا جائے تاکہ جبر کا مقابلہ ناممکن ہو جائے۔ دوسرا یہ کہ تحریک کو زیادہ پرتشدد کرتے ہوئے تنہا کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ الزام ثابت کیا جائے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر تحریک امریکی سامراج کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ اگر تحریک زیادہ منظم ہوتی تو وہ زیادہ بڑے پیمانے پر تحریک کو پھیلا پاتے اور کئی افسوسناک اموات سے بچا جا سکتا تھا۔

پھر اگر تمام جبر کا شکار پرتوں (خاص طور پر محنت کش طبقہ) کے لئے ایک واضح سماجی و معاشی پروگرام موجود ہوتا جس میں امریکی سامراج کی مخالفت اور ایران میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی وضاحت ہوتی تو یہ پروگرام ملا آمریت کے پروپیگنڈہ کو کاٹتے اقتدار پر عوامی قبضے کی مشعلِ راہ بن جاتا۔ ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کے ساتھ محنت کش طبقے کی تحریک میں شمولیت حالات یکسر تبدیل کر دیتی اور ملا آمریت زمین بوس ہو جاتی۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نوجوان کتنے ہی بہادر اور جانثار کیوں نہ ہوں تنہائی میں سڑکوں پر لڑنے کی مخصوص حدود موجود ہیں۔ لیکن شکست خوردہ افواج جلد اور دوررس اسباق حاصل کرتی ہیں۔ پورے ایران کی جیلوں اور غریب محنت کش علاقوں میں انقلابی نوجوانوں کی ایک نئی نسل مندرجہ بالا اسباق کو سیکھ اور پرکھ رہی ہے۔

جدوجہد کا اختتام نہیں ہوا۔ موجودہ تحریک ناکام پسپا ہوچکی ہے لیکن دوسری طرف ملاآمریت کی ساکھ تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ آنے والے وقت میں یہی حقیقت نئی تحریکوں کی راہیں ہموار کرے گی۔ ایرانی انقلابیوں کا اس وقت اولین فریضہ ایک انقلابی قیادت کی تعمیر ہے! ایک قیادت نہ صرف موجودہ ملا آمریت کو ختم کر سکتی ہے بلکہ سرمایہ دار نظام کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے جو ایرانی سماج کی تباہ و بربادی کی حقیقی بنیاد ہے۔