ناگورنو-کاراباخ: بعد از سوویت یونین قوم پرستی کا رستا زخم

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان حالیہ عرصے میں ہونے والی جنگ، سوویت یونین کے انہدام اور سرمایہ داریانہ بحالی کی خونی میراث ہے۔ یہ ایک بربریت زدہ جنگ ہے جس میں چاروں اطراف رجعتیت کا غلبہ ہے۔ اس جنگ میں مداخلت کرنے والی تمام سامراجی قوتیں مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں لیکن اصل مظلوم دونوں اطراف کا محنت کش طبقہ ہے جو اپنے قائدین کے سفاک اور رجعتی کھلواڑ کی قیمت اپنے خون سے ادا کر رہا ہے۔ صرف عالمگیریت اور طبقاتی جدوجہد محنت کشوں کو اپنے حقیقی دشمنوں، یعنی ان کے اپنا سرمایہ دار طبقے، کے خلاف صف آراء کر سکتی ہے۔


[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
روسی زبان میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ناگورنو-کاراباخ ایک بار پھر ہمارے لئے انتباہ ہے کہ تاریخ کسی تجریدی ماضی کا قصہ نہیں بلکہ ہمارے درمیان موجود ایک ٹھوس حقیقت ہے۔

1980ء کی دہائی میں قوم پرستی اور پروپیگنڈہ وہ چابک تھا جس کے ذریعے یوگوسلاویہ اور سوویت یونین کی غلاظت میں لتھڑی انحطاط شدہ بیوروکریسی نے مختلف ریاستوں میں اقتدار اور نجی ملکیت حاصل کرنے کا راستہ ہموار کیا۔ ناگورنو۔کاراباخ میں بھی یہی کچھ ہوا۔

جنگ کا ارتقاء

کاراباخ میں مسلحہ جدوجہد کی تاریخ میں مضبوط جڑیں موجود ہیں۔ کئی صدیوں سے یہ علاقہ آرمینی، آذیری اور کرد عوام کا پر امن گہوارہ تھا۔ انیسویں صدی کے پہلے حصے میں کمزور ہوتے فارس کو روسی سامراج کے دباؤ میں 1826-28ء کی جنگ میں اس علاقے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کاکیشیا اور ٹرانس کاکیشیا کی عوام روسی اور عثمانی سلطنتوں کے درمیان سیاسی، معاشی اور ثقافتی بالادستی کا ایندھن بن گئی۔ اس دوران متضاد عوامل بھی کارفرما تھے۔ ایک طرف شہروں میں اور سب سے بڑھ کر ٹرانس کاکیشیا کے سب سے بڑے صنعتی مرکز باکو میں (ایک پرولتاری ماحول میں) مختلف نسلی گروہ اور ثقافتیں ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی تھیں جبکہ دوسری طرف دیہات میں سرحدی حد بندیاں نسلی اور قومی بنیادوں پر ہی شروع اور ختم ہوتی تھیں۔

اس وقت سلطنت عثمانی جسے ”یورپ کا بیمار بڈھا“ بھی کہا جاتا تھا، انہدام کی نہج پر پہنچ چکا تھا۔ بلقان علاقوں اور سلطنت کے مشرق میں گریٹر آرمینیا (Greater Armenia) میں قومی آزادی کی تحریکیں شدت اختیار کر چکی تھیں۔ حریت پسندی کی اس جنگ کا ایک قائد آندرانک اوزانیان تھا جسے ٹراٹسکی نے اپنی ایک جنگی رپورٹ میں ”گیت اور داستان کا ہیرو“ قرار دیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں عثمانی سلطنت شامل ہو چکی تھی اور حالات جتنے زیادہ خراب ہوتے گئے آرمینی اقلیت کے لئے بربریت اتنی ہی زیادہ خوفناک شکل اختیار کرتی گئی۔ 1909ء میں سلیسیا میں قتلِ عام ہوا اور 1915ء میں سلطنت میں موجود آرمینی عوام کا ایک دیو ہیکل حصہ ینگ ترکس کی جانب سے کی گئی نسل کشی کی بھینٹ چڑھ گیا۔

اس سارے عرصے میں ترکی اور فارس سے آرمینی تارکینِ وطن آرمینی ہائی لینڈز کے چٹیل پہاڑوں پر آ کر بستے گئے جس سے علاقے کی نسلی و مذہبی ساخت تبدیل ہو گئی اور ایک دھماکہ خیز صورتحال نے جنم لے لیا۔

اکتوبر انقلاب کے قائدین کو بھرپور ادراک تھا کہ اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے۔ ٹراٹسکی نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ بالقانی عوام صدیوں سے اکٹھے رہ رہی تھی لیکن وقت آنے پر کس طرح وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ اس لئے اس نے بالقانی سوشلسٹ فیڈریشن کا نعرہ دیا جس کا بھرپور اطلاق کاکیشیا اور ٹرانس کاکیشیا پر کیا گیا۔ باکو کے کثیر النسل پرولتاریہ نے باکو کمیون بنائی جس کے 26 کمیسار تھے اور ان میں آرمینی شاؤمیان، جیورجیائی جاپاریدز اور آذیری عوامی کمیسار برائے زراعت ویزیروف شامل تھے۔ اپنی مختصر تاریخ میں کمیون نے کامیابی سے ٹرانس کاکیشیا میں بورژوازی کی نسلی قوم پرستی کی بنیادوں پر جنگ چھیڑنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔

اگست 1918ء میں برطانوی سامراجیوں نے باکو پر قبضہ کر لیا جو باکو آئل فیلڈز پر قبضہ کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ باکو کمیساروں کو ان کے کٹھ پتلی وسطی کیسپین سے سوشلسٹ انقلابیوں اور منشویکوں نے گرفتار کر لیا۔ ظاہر ہے برطانوی سامراجیوں کو ٹرانس کاکیشیا کی عوام سے کوئی غرض نہیں تھی بلکہ انہوں نے اپنا پرانا طریقہ کار ”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو“ لاگو کرنے کی پوری کوشش کی۔ 14 ستمبر کو باکو پر ترک افواج نے قبضہ کر لیا اور شہر میں آرمینی نسل کشی اور قتلِ عام کے پروگرام شروع کر دیئے۔

ان تمام واقعات کا نتیجہ 1918-1920ء کی آرمینی۔آذیری جنگ کی صورت میں نکلا جس میں دونوں فریقوں نے کھلے عام نسل کشی اور جنگیں کیں جن میں وقفے وقفے سے برطانوی اور امریکی سامراجی ”امن پسندوں“ کی منظم کردہ بانجھ امن کانفرنسیں بھی منعقد ہوئیں۔ جنگ کے نتیجے میں جنوبی ٹرانس کاکیشیا کے کئی علاقے، سب سے بڑھ کر ناگورنو-کاراباخ کا علاقہ، آذیری اور آرمینی علاقائی تفریق کا مرکز بن گئے۔

جنگ کا اختتام 1920ء کے موسمِ گرما میں اس وقت ہوا جب سرخ فوج نے ٹرانس کاکیشیا کے علاقے میں داخل ہو کر اقتدار سے موساواتستوں (Musavatists) اور داشناکس (Dashnaks) کو بے دخل کر دیا۔ لیکن 1916ء کے مقابلے میں قومی سوال زیادہ خوفناک شکل اختیار کر چکا تھا۔ سالہا سال کی نسل کش جنگوں اور قتلِ عام سے نہ صرف عوام ایک دوسرے کی جانی دشمن بن چکی تھی بلکہ علاقائی طور پر بٹ بھی گئی تھی۔ 1922ء میں فیڈریٹیو یونین آف سوشلسٹ سوویت ریپبلکس آف ٹرانس کاکیشیا کے بانیوں کے سامنے سوویت ٹرانس کاکیشیا کے ٹکڑوں کو ایک فیڈریشن میں تبدیل کرنے کا کٹھن مسئلہ شدت اختیار کر چکا تھا۔

لینن اور ٹراٹسکی کی حکمتِ عملی بالکل درست تھی لیکن ٹھوس بنیادوں پر اس کاوش پر عمل درآمد کروانا سٹالن کی عوامی کمیساریت برائے اقوام کا کام تھا جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ یقینا موضوعی عناصر اور سوویت یونین کے ”دوست“ ترک جمہوریہ کے قائد مصطفیٰ کمال کے مجموعی دباؤ کا یہاں کلیدی کردار بنتا ہے۔ معاہدوں اور سمجھوتوں کے نتیجے میں آرمینی عوام کا علاقہ ناگورنو-کاراباخ خودمختارعلاقہ آذربائیجان کا حصہ بن گیا۔

سوویت یونین کے اوائل سالوں میں یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن سوویت یونین کی بیوروکریٹک انحطاط پذیری کے ساتھ آذیری بیوروکریٹ اشرافیہ نے، جن میں مارکسزم بدتریج کم ہوتا گیا اور قوم پرستی بڑھتی گئی، ناگورو-کاراباخ کی آرمینی عوام کے خلاف سیاسی اور ثقافتی حکمتِ عملی بنانی شروع کر دی۔ ظاہر ہے ہر واقعے کا آرمینی قیادت کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا جس کے نتیجے میں خروشیف اور پھر برزینیف کو ان چپقلشوں میں کردار ادا کرنا پڑا۔

گلاسنوسٹ (مغرب کے لئے منڈی کے ”کھلنے“ کا عہد) گورباچیف کی پرسٹرائیکا پالیسی (”تنظیمِ نو“ جس کا انجام سوویت یونین کے انہدام میں ہوا) کا سب سے پہلا اور واضح اظہار بنا۔ سٹالنسٹ نکتہ نظر سے گلاسنوسٹ کی پالیسی اور اس کے نتیجے میں پنپنے والی قوم پرستی نے نسل پرست جھگڑوں کو جنم دیا۔ درحقیقت یہ جھگڑے عوام کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے اور بیوروکریسی کی غلیظ سیاستوں کا نتیجہ تھے۔ مثلاً سٹیپاناکرٹ کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی آرمینی تھی جس میں سارا دن آذیری زبان میں باکو سے نشریات ہوتی تھیں۔ قیاس ہی کیا جا سکتا ہے کہ 1987-88ء میں اس طرح کی حکمتِ عملی سے کیا غصہ جنم لیتا ہو گا جب پورا ملک بیٹھ کر عوامی اور سیاسی پروگرامز دیکھتا تھا۔

لیکن پھر بھی نسل پرست مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکتا تھا۔ بدقسمتی سے اس وقت بیوروکریسی کے سر پر یہ بھوت سوار تھا کہ سوویت یونین کی اپنے حلقہِ اثر کے تحت کس طرح بندر بانٹ کرنی ہے۔ پرامن احتجاجوں اور اپیلوں کے ردِ عمل میں پارٹی مالکان نے نسل پرست غنڈوں کو منظم کر کے کھلا چھوڑ دیا۔ اس پالیسی کا نتیجہ سمگیٹ میں خوفناک نسل کش قتلِ عام اور نئی نسل پرست لڑائیوں کی شکل میں نکلا۔ 1988ء کے بعد ناگورنو-کاراباخ میں نسل پرست لڑائیاں بڑھتی گئیں۔ یہ علاقہ ایک جنگی فرنٹ بن گیا اور 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد مسلح لڑائی سرکاری طور پر آزاد آزربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک جنگ بن گئی جو چھ سال جاری رہی۔ اس دوران 40 ہزار لوگ لقمہ اجل ہو گئے اور لاکھوں افراد مہاجر بن گئے۔

ایک نیا دور

اس سال 27 ستمبر کے دن دوبارہ جنگ چھڑ گئی جب آذربائیجان بھاری توپوں، ٹینکوں اور جنگی ہوائی جہازوں سمیت ناگورنو-کاراباخ پر چڑھ دوڑا۔ باکو اور یریوان، دونوں نے بڑے شہروں پر بمباری کی ہے اور اندازاً دونوں طرف عوام کی اموات کا شمار کئی سو میں ہے۔

فوجی تجزیہ نگار لیونیڈ نرسسیان نے پچھلے ہفتے نیزاویسیمایا گزیٹا کو بتایا کہ لڑائی کا حجم بے مثال ہے اور ایک دن میں ہی عسکری نقصانات 1992-1994ء کی جنگ سے بڑھ چکے ہیں۔

4 اکتوبر کو عوام سے خطاب کرتے ہوئے آذیری صدر الہام علی ایف نے کہا کہ اس کا ملک اس وقت تک جنگ بندی نہیں کرے گا جب تک آرمینیا سرکاری طور پر آذربائیجان سے فوجیں نکالنے کا اعلان نہیں کرتا۔ اس نے سرکاری طور پر آرمینیا سے معافی کا مطالبہ بھی کیا۔

پیر کے دن ایران نے ایک امن پلان کا اعلان کیا جس میں اس نے دونوں فریقین کے مابین ثالثی کی پیشکش بھی کی۔ لیکن روسی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی کہ باکو اور اس کا حمایتی ترکی ایک طویل لڑائی کے لئے تیار ہیں جس میں مستقبل میں روس اور ایران بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ گیومری (102 ملٹری اڈہ) میں روس کا ایک اہم عسکری اڈہ موجود ہے اور اس کے آرمینیا میں سنجیدہ معاشی مفادات ہیں اس لئے یہ صورتحال ایک رپورٹ سے حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے۔

علاقے میں سامراجی مفادات

اس جنگ کے یورپ، روس اور مشرقِ وسطیٰ پر سنجیدہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جاری جنگوں سے ہے جنہیں پچھلی ایک دہائی سے سامراجی قوتیں ایندھن فراہم کر رہی ہیں۔

اپنے جغرافیائی مقام کی وجہ سے توانائی خزانوں سے مالامال کاکیشیا یورپ، بحیرۂ اسود اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے اور اس وجہ سے عرصہ دراز سے سامراجی قوتوں کے درمیان تختہِ مشق بنا ہوا ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد علاقے میں مذہبی اور نسلی تناؤ کو، جسے سٹالنسٹ بیوروکریسی کے دورِ اقتدار میں دہائیوں سلگایا جاتا رہا، سامراجیوں اور خاص طور پر امریکہ اور اس کے حواریوں سمیت تمام سامراجیوں نے اپنے مفادات کے لئے منظم انداز میں استعمال کیا ہے۔

ترک صدر اردگان نے خاص طور پر اس جنگ کو بھڑکانے میں مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ معاشی بڑھوتری کے ایک طویل دور کے بعد ترک معیشت اس وقت بحران اور جمود کا شکار ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی پچھلے پانچ سالوں میں تین بار قدر کم ہو چکی ہے جس کا نتیجہ معیارِ زندگی کی خوفناک گراوٹ میں نکل رہا ہے۔ یہ اردگان کی لبرل معاشی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے جو اس کے اسلامی اور پین ترک ازم کے سیاسی اور مذہبی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہیں۔

معاشی بڑھوتری کے سالوں میں اردگان، ایک زمانے میں ترک فوج کے سماج میں غیر متزلزل اثرورسوخ کو شدید ٹھیس پہنچانے میں کامیاب رہا ہے، لیکن اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ اب اردگان فوجی اشرافیہ کے ساتھ ایک آبرومندانہ مصالحت کا متلاشی ہے۔ کیونکہ فوج اسلام مخالف کمالی روح میں پروان چڑھائی گئی تھی اس لئے پین ترک ازم ہی آگے برھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے ”ایک قوم۔۔دو ملک“ کا پروپیگنڈہ نعرہ بلند کیا جا رہا ہے۔

اردگان کو ایک ”محدود فاتح جنگ“ درکار ہے جو ظاہر ہے وہ کسی اور کے ہاتھوں لڑنا چاہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں فتح کا تاج اس کے اور باکو میں بیٹھے ترک جرنیلوں کے سر ہو گا اور فوجی جوانوں سے بھرے تابوت آذیری ماؤں کا مقدر بنیں گے۔

لیکن معاملہ صرف آذربائیجان تک ہی محدود نہیں۔ ذرائع ابلاغ میں رپورٹیں گرم ہیں کہ شام اور لیبیا سے ہزاروں اسلامی کرائے کے جگنجو آذربائیجان کی طرف بھیجے جا رہے ہیں جس کی تصدیق فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے بھی کی ہے، جس کا کہنا ہے کہ اسلامی انتہاء پسند ترکی کے راستے کاکیشیا میں داخل ہو رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے بیانات سے فی الحال واشنگٹن کی پوزیشن واضح نہیں ہو رہی۔ ایک طرف کاکیشیا میں تیزی سے جنگ آگے بڑھ رہی تھی تو دوسری طرف ”وائٹ ہاؤس میں انتشار کا ہفتہ“ چل رہا تھا جب ٹرمپ نے دھمکی دی کہ وہ نومبر میں ’کو‘ کر دے گا اور اس کے بعد یہ خبر آئی کہ امریکی صدر اور کچھ وائٹ ہاؤس عہدیداران کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔

اس دوران فرانس میں زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ حکومت آرمینیا کا ساتھ دے۔

روس کی طرح ایران بھی کوئی سرکاری پوزیشن لینے کے بجائے جنگ بندی اور مذاکرات پر اصرار کر رہا ہے۔ کچھ روسی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایران میں آرمینیا مخالف جذبات بھڑک رہے ہیں جہاں 2 کروڑ نسلی آذیری (ایرانی آبادی کا پانچواں حصہ) رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت شمالی ایران میں رہائش پذیر ہے جس کی سرحد آذربائیجان سے منسلک ہے۔ انداز۱ً 1 لاکھ 50 ہزار سے 3 لاکھ نسلی آرمینی ایران میں رہائش پذیر ہیں۔

ترکی اور آذربائیجان اس جنگ کو عیسائی آرمینیائی جارحیت کے خلاف اسلامی دنیا کے تحفظ کی جنگ بنا کر پیش کرر ہے ہیں۔ یہ پوزیشن روس میں گرمجوشی اور ردِ عمل پیدا کر رہی ہے جہاں روایتی طور پر ”مسلم“ سمجھی جانے والی عوام کی بھاری تعداد وولگا اور شمالی کاکیشیا جیسے علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ ہمارے ملک میں آرمینی عوام کی ایک قابلِ ذکر اکثریت معاشی اور سماجی زندگی میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے شہروں میں گولیوں اور دھماکوں کا شور روسی عوام کی گفتگو اور سوچ میں گونجے گا (خاص طور پر وہ افراد جن کے رشتہ دار اور دوست جنگ کے اِس پار یا اُس پار موجود ہیں)۔

پیوٹن کی پالیسیاں بھی سفاک اور دوغلی ہیں۔ روس کے پاس کاکیشیا کی گتھی سلجھانے کے لئے ہمیشہ سے سیاسی اور عسکری صلاحیت موجود تھی۔ لیکن آرمینیا کو اپنے سیاسی و معاشی حصار میں رکھے رہنے کے لئے یہ سلگتا مسئلہ روسی سامراج کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ روس ہی ”آرمینی عوام کا محافظ“ ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں روس کی خاموشی 2018ء کے مخملی انقلاب کے حوالے سے پاشنیان پر پیوٹن کا انتقام بھی ہو سکتا ہے۔ پیوٹن باور کرانا چاہتا ہے کہ جو عوام اپنے صدور کا تختہ الٹ دیتی ہے انہیں پیوٹن کی حفاظت اور احسان میسر نہیں۔ ایسا لگتا ہے پیوٹن نکولس اول کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ”یورپ کی پولیس“ کا کردار ادا کر رہا ہے۔

پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی پالیسی پر کاربند کریملن نے اپنے سرکاری بیانات کو جنگ بندی اور دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کے مطالبات تک محدود رکھا ہوا ہے۔ نیزاویسیمایا گزیٹا کی رپورٹ کے مطابق پیوٹن اور وزیرِ خارجہ لاوروف نے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لئے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ دیگر عہدیداران مذاکرات میں مداخلت کریں۔

کریملن سے قریبی تعلق میں عالمی امور میں روس تھنک ٹینک کے ایک آرٹیکل کے مطابق کاکیشیا میں جنگ شامی خانہ جنگی میں روسی مداخلت کی پانچویں سالگرہ پر بھڑکی ہے جس کا نام نہاد مقصد اسلامی انتہاء پسندی کو محدود کرنا تھا (درحقیقت یہ مداخلت روسی فیڈریشن کے سامراجی مفادات کے تحفظ کے لئے تھی) لیکن اب جنگ روسی سرحد کے قریب پہنچ چکی ہے۔

کریملن کا بنیادی خوف یہ ہے کہ جنوبی سرحدوں پر اور خاص طور پر اسلامی انتہاء پسندوں کی موجودگی میں جنگ کہیں اندرونِ خانہ ایک طویل نسلی اور مذہبی جنگ نہ بھڑکا دے۔ آرمینیا کے شمال میں مسلم اکثریتی شمالی کاکیشیا میں کریملن چیچن علیحدگی پسند تحریک سے 1994ء اور 2009ء میں دو خونی جنگیں لڑ چکا ہے اور درحقیقت یہ جنگ ختم نہیں ہوئی صرف موقوف ہوئی ہے۔ کوئی یہ گارنٹی نہیں دے سکتا کہ رمضان کادیروف بھی، جو چیچنیا کو ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کنٹرول کر رہا ہے، بدلتے حالات میں اپنی زبان اور وفاداری تبدیل نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ یوکرائن کے مشرق میں خانہ جنگی ابھی بھی جاری ہے اور اس میں بھی خطرناک امکانات موجود ہیں۔

روسی اولیگارشی کا جنم اس سٹالنسٹ بیوروکریسی سے ہوا تھا جس نے 1917ء کے اکتوبر انقلاب کو دھوکہ دیا اور سوویت یونین کو برباد کر دیا تھا اور آج اس کے پاس اس تباہی سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔

کیا کیا جائے؟

محنت کش طبقے کے لئے آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ دونوں ا طراف سے شدید خطرناک ہے اور موجودہ جنگ دونوں ممالک کی اندرونی سیاست میں اب تک مرکزیت کی حامل رہی ہے۔ اس کا پہلا ثبوت تو یہ ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کی سیاسی اشرافیہ وہ افراد ہیں جو اس مسئلے کا حصہ رہے ہیں یا پھر ناگورو-کاراباخ سے براہِ راست تعلق میں ہیں جیسے کہ آرمینیا کے سابق اور موجودہ وزرائے اعظم۔ اور دوسرا یہ کہ عسکری لفاظی کو استعمال کرتے ہوئے سماجی و سیاسی بربریت کو تقویت دی جا رہی ہے۔

اس جنگ کو اور وسیع نسلی اور عسکری جنگوں کے خطرے کو ختم کرنے کا واحد راستہ سوشلزم کی جدوجہد اور پرولتاری عالمگیریت ہے۔ اس جدوجہد کو ناگزیر طور پر سٹالن ازم کے خلاف ٹراٹسکی ازم کی جدوجہد کے اسباق کی بنیادوں پر منظم کرنا ہو گا۔

اس خونی قتلِ عام کی روک تھام کے لئے صرف عالمگیریت پر مبنی واحد حل موجود ہے جس میں ٹرانس کاکیشیا کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن تعمیر کی جائے جو مہاجرین کی واپسی اور وسیع تر نسلی وثقافتی حقِ خودارادیت کی ضامن ہو۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں اطراف کے سپاہی سمجھیں کہ کسی اور کے مفادات کے لئے ایک دوسرے کو قتل کرنے کی بجائے انہیں اپنے محنت کش بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ منظم ہونا ہو گا اور اپنے ہتھیار وں کا رخ اپنے حقیقی دشمنوں یعنی اپنے سرمایہ داروں اور غیر ملکی سامراجیوں کی طرف موڑنا ہو گا۔

جب تک سوشلسٹ انقلاب قوم پرستی کی گتھی کو کاٹ نہیں دیتا اس وقت تک عوام مرتی رہے گی اور سٹیپاناکرٹ اور گانجا پر مسلسل بم گرتے رہیں گے۔

کاکیشیا کی عوامی سوشلسٹ فیڈریشن زندہ باد!
محنت کش طبقے کا بھائی چارہ اور امن زندہ باد!
مزدور جمہوریت اور عالمی سوشلزم زندہ باد!