جنوبی افریقہ: معاشی بحران کی تباہی اور سماجی دھماکوں سے بھرپور مستقبل

24 اگست کو ساؤتھ افریقن فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز اور کانگریس آف ساؤتھ افریقن ٹریڈ یونینز کے ہزاروں محنت کشوں نے افریقہ بھر میں سڑکوں پر نکل کر شدید مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا، جس نے محنت کش طبقے اور غرباء کو بالخصوص سخت متاثر کیا ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پریٹوریا، جوہانسبرگ، ڈربن اور کیپ ٹاؤن جیسے بڑے شہروں کے اندر احتجاج دیکھنے کو ملے۔ کرونا وباء کے بعد آنے والی شدید مہنگائی، کٹوتیوں، اجرتوں کی عدم ادائیگیوں اور جابرانہ عوام دشمن اقدامات کے خلاف محنت کش طبقے میں شدید غم و غصّہ پایا جا رہا ہے۔

مگر سچ یہ ہے کہ 24 اگست کے یہ احتجاج بہت چھوٹے پیمانے کے تھے اور معیشت کے چلنے پر کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہوئے، اس کے باوجود کہ یونینز نے اسے ”ملک گیر بندش“ کا نام دیا تھا۔

اس کی وجہ اس طریقے میں دیکھی جا سکتی ہے جس کے ذریعے یونینز پچھلے چند سالوں سے جدوجہد کر رہی ہیں۔ در حقیقت، یہ ایک روزہ عام ہڑتالوں کے سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی جو اس سے پہلے اکتوبر 2019ء اور فروری 2020ء میں بھی کی گئی تھی۔

مگر ایک روزہ ہڑتالوں کا سلسلہ عوام کے معیارِ زندگی پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس عرصے کے دوران، حالات پہلے سے مزید بد تر ہو گئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یونینز ایک روزہ عام ہڑتالوں کا سلسلہ استعمال کرتے ہوئے اتنے لوگوں کو متحرک نہیں کر پائی ہیں کہ جدوجہد آگے کی جانب بڑھائی جاسکے۔ اس کے باعث محنت کشوں کی صفوں میں مایوسی اور حوصلہ شکنی پھیل رہی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ محنت کش لڑائی کے لیے تیار نہیں۔ وہ بالکل تیار ہیں، ضرورت جدوجہد کے ایک حقیقی پروگرام کی ہے۔ محنت کش طبقے کی تحریک کوئی کٹھ پُتلی نہیں ہوتی، جسے ٹریڈ یونین افسران جب چاہیں اپنی انگلیوں پہ نچا سکیں۔

مہنگائی

عالمی سطح پر مہنگائی میں شدید اضافہ ہوتا نظر آیا ہے، جس کا ایک محرک کرونا وباء کی پابندیاں ہٹنے کے بعد سپلائی چین کی رکاوٹیں تھیں، جبکہ روس اور یوکرین جنگ کے بعد توانائی اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ بھی اس کی ایک وجہ تھی۔ جنوبی افریقہ کے اندر، اس کا نتیجہ خوراک، توانائی، تیل اور دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کی صورت نکلا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، جنوبی افریقہ میں 3 کروڑ لوگ اب غربت میں جی رہے ہیں، جبکہ 1 کروڑ 38 لاکھ کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے جسے روس یوکرین جنگ کے باعث اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے مزید شدید کیا ہے۔

لوگوں کا گزارہ بڑی مشکل سے ہو رہا ہے۔ جولائی میں افراطِ زر 13 سالوں کی بلند ترین شرح پر پہنچ گیا، جس کی بنیادی وجہ اشیائے خورد و نوش، ٹرانسپورٹ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ قومی شماریاتی ایجنسی ’سٹیٹس ایس اے‘ کے مطابق، بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتیں جون میں 7.4 فیصد بڑھنے کے بعد جولائی میں 7.8 فیصد تک بڑھ گئیں۔

محض پچھلے سال اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جون میں ڈبل روٹی اور اناج کی قیمتوں میں 11.2 فیصد جبکہ جولائی میں 13.7 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سفید ڈبل روٹی کے ایک پیکٹ کی قیمت اگر پچھلے سال 15.57 جنوبی افریقی رند تھی تو اب یہ 17.84 رند ہے۔ تیل کی قیمت میں یوکرین جنگ کے باعث پچھلے سال کی نسبت 56.2 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس کے باوجود کہ حکومت نے اس سال کے شروع میں تیل کے اوپر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ معطل کیا تھا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی عوام کو شدید متاثر کر رہی ہے، جبکہ بیروزگاری کی شرح 34 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔

گہرا بحران

جنوبی افریقی معیشت کے حالات 2009ء سے بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ تب سے اس کی معاشی بڑھوتری قبل از 2008ء والے درجے پر کبھی نہیں پہنچی۔ 2009ء میں آنے والے بحران کے باعث تقریباً 10 لاکھ افراد بیروزگار ہوئے تھے۔ مزید برآں، 2011ء کے بعد سے معاشی گراوٹ میں اضافہ ہوتا چلا گیا، جبکہ اشیاء کی قیمتیں مانگ کم ہونے کی وجہ سے گِر رہی تھیں۔

کرونا وباء سے پہلے ہی جنوبی افریقہ کی کساد بازاری شروع ہو گئی تھی۔ 2019ء کی تیسری سہ ماہی کے دوران جی ڈی پی میں 0.6 فیصد گراوٹ آئی، اور چوتھی سہ ماہی میں یہ گراوٹ 1.4 فیصد تک پہنچ گئی۔ کم بڑھوتری کا سلسلہ جاری رہا، جو کرونا آنے کے بعد مزید شدید ہوا۔

مزید برآں خوراک اور بجلی کی قیمتوں اور شرحِ سود میں شدید اضافے کے باعث صارفین کی قوتِ خرید روزانہ کی بنیاد پر کم ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ 2018ء سے افراطِ زر میں بھی شدید اضافہ ہو رہا ہے، جس کی اوسط شرح 5.9 فیصد تھی اور اب 7.8 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔

تقریباً 1 کروڑ 40 لاکھ جنوبی افریقی، جو آبادی کا تقریباً 24 فیصد بنتے ہیں، وباء سے قبل ہی غربت میں جی رہے تھے۔ پھر ان محرومیوں اور عدم مساوات میں مزید اضافہ ہوا جب صدر سیرل رامافوسا نے مارچ 2020ء میں دنیا کی سخت ترین لاک ڈاؤن پابندیاں نافذ کیں۔ لاک ڈاؤن میں سختی اور نرمی آتی رہی مگر اگلے دو سالوں کے زیادہ تر حصے میں اس کا سلسلہ جاری رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2020ء کے آخر تک، 20 لاکھ جنوبی افریقی اپنا روزگار کھو چکے تھے، اور بیروزگاری کی شرح 35 فیصد تک پہنچ گئی۔ ایک سروے کے مطابق 47 فیصد گھرانوں کے پاس اپریل 2020ء میں خوراک خریدنے تک کے پیسے ختم ہو گئے تھے۔

سرمایہ داری کا بحران

جنوبی افریقہ کی معیشت ابھی تک کرونا کے اثرات کے باعث ڈگمگا رہی ہے، جس کو یوکرین جنگ نے مزید متاثر کیا ہے۔ مہنگائی کے علاوہ لوڈشیڈنگ بھی جاری ہے کیونکہ ریاستی پاور کمپنی ایسکوم مناسب مقدار میں بجلی پیدا نہیں کر پا رہی۔ زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے، ایسکوم نے صنعتوں اور گھرانوں کو بجلی کی درکار مقدار فراہم نہ کرنے کے باوجود بجلی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔

سرمایہ داری کا بحران بالخصوص جنوبی افریقہ کے اندر شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ یہ غریبوں اور محنت کش طبقے کی وسیع اکثریت ہی ہے جو بحران کے بد ترین اثرات یعنی بڑے پیمانے کی بیروزگاری، مناسب رہائش کے فقدان، نا مناسب تعلیم، زمین کی محرومی اور تیزی کے ساتھ گرتی ہوئی معیارِ زندگی سے متاثر ہو رہی ہے۔ ان حالات کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جو محنت کشوں اور غریبوں کو کم ترین رعایتیں تک دینے کا اہل نہیں۔

معیشت کا بحران معیارِ زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔ محنت کش طبقے کے حالات دس سال پہلے کی نسبت مزید بد تر ہو گئے ہیں۔ بیروزگاریوں کی حقیقی تعداد 1 کروڑ 2 لاکھ ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران روزگار کھونے والے لاکھوں افراد اس کے علاوہ ہیں۔ غیر مستقل روزگار کرنے والے محنت کش شدید متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 30 لاکھ نے راتوں رات اپنا روزگار کھو دیا۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ یہاں پر ہے۔ 15 سے 24 سال تک کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 59 فیصد ہے۔ ملک کے 2 کروڑ 5 لاکھ نوجوانوں میں سے 80 لاکھ کے پاس نہ کوئی روزگار ہے اور نہ ہی وہ کوئی تعلیم یا تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ایک پوری نسل انہی حالات کا شکار ہو کر جوان ہوئی ہے۔

انتہائی عدم مساوات والے ممالک میں سے ایک

آمدن اور دولت دونوں کے حوالے سے جنوبی افریقہ دنیا کے انتہائی عدم مساوات والے ممالک میں سے ایک ہے۔ اوپری 1 فیصد کا 20 فیصد آمدن پر قبضہ ہے، جبکہ اوپری 10 فیصد کا 65 فیصد آمدن پر۔ 2011ء اور 2015ء کے درمیان نچلی 10 فیصد کی حقیقی اجرتوں میں 25 فیصد کمی آئی۔ اس کے برعکس، اسی عرصے کے دوران اوپری 2 فیصد کی آمدن میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ اوپری 1 فیصد کی آمدن میں 48 فیصد کا دیوہیکل اضافہ ہوا۔

جنوبی افریقہ نسبتاً ترقی یافتہ معیشت اور بہتر انفراسٹرکچر رکھتا ہے۔ جو دنیا میں سونا، پلیٹینم اور دیگر قدرتی وسائل بڑے پیمانے پر برآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے؛ اس کی مینوفیکچرنگ، مالیاتی، توانائی اور مواصلات کے شعبے بھی اچھے خاصے قائم ہیں۔ اس کے باوجود، لوگوں کی اکثریت غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہے۔

آدھی آبادی غربت میں جی رہی ہے۔ ایک شخص کے ایک مہینے کی غذائیت والی خوراک پر 530 سے 670 رند آتے ہیں۔ بچوں کے لیے دیا جانے والا 440 رند کا ماہانہ وظیفہ بچے کی غذائی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا، جبکہ بڑی عمر کے لیے 1 ہزار 860 رند کا وظیفہ خاندان کے اخراجات پورا کرنے کے لیے بالکل کافی نہیں ہوتا۔ یہ تو صرف خوراک کی صورتحال ہے، ٹرانسپورٹ، کرایہ، بجلی، تعلیم اور کپڑوں وغیرہ کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ 3 ہزار 500 کی کم از کم اجرت اس رقم کی تقریباً آدھی ہے جو کسی گھرانے کے ایک مہینے کے بنیادی اخراجات کے لیے درکار ہوتے ہیں۔

انقلابی متبادل کی ضرورت

کم از کم 1950ء کی دہائی کے بعد سے، افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) نے سیاہ فام محنت کشوں کی حمایت پر تقریباً اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے۔ اب، 1994ء میں اس کے انتخابات جیتنے کے دہائیوں بعد، سابقہ تحریکِ آزادی کو تباہ کن بحران کا سامنا ہے۔ سالہا سال کے کرپشن سکینڈلز اور محنت کش طبقے پر حملوں کے بعد، اس کے اخلاقی جواز کا انہدام سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حکومت کرنے کا حتمی نتیجہ ہے۔ پارٹی کے اندر بڑے پیمانے پر طبقاتی تضادات موجود ہیں۔ اے این سی قیادت حکمران طبقے کی صفوں میں شامل ہوئی ہے، جو پُر تعیش زندگی گزار رہی ہے اور لوٹ مار اور چوری کا بازار گرم کر رکھا ہے، جبکہ محنت کش عوام کے حالات پہلے جیسے ہی ہیں یا مزید بگڑ گئے ہیں جن کے لیے پارٹی روایتی طور پر سیاسی ہتھیار کی حیثیت رکھتی تھی۔

پارٹی کے بحران سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ان دو قوتوں کے بیچ مفاہمت ممکن نہیں ہے۔ طبقاتی تضادات پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے اندر ابھی تک کوئی حقیقی انقلابی پارٹی موجود نہیں ہے، جو محنت کش طبقے اور مظلوموں کو اس دلدل نے باہر نکال سکے۔ اس قسم کے انقلابی رجحان کا قیام آج جنوبی افریقہ کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔

جنوبی افریقی سماج کے اندر پنپنے والے دباؤ بڑے دیوہیکل ہیں۔ کسی ایک یا دوسری صورت میں اس کا اظہار ہو کر رہے گا۔ جلد یا بدیر، جب ایسا ہوگا تو محنت کش دوبارہ متحرک ہوں گے۔ جب وہ متحرک ہو جائیں تو تمام تنظیمیں، گروہ، رجحانات اور قائدین کے امتحان کی گھڑی آ جائے گی۔

سرمایہ دارانہ نظام لوگوں کو بہتر معیارِ زندگی فراہم کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر نا اہل ثابت ہوا ہے۔ یہ ایک وحشیانہ نظام ہے جو سرمایہ داروں کی چھوٹی سی اقلیت کی دولت میں اضافہ کرتا جاتا ہے اور عام لوگوں کی اکثریت کو کچلتا رہتا ہے۔ محنت کش طبقے اور مظلوموں کے لیے آگے کا واحد راستہ اس نظام کا تختہ الٹنے ہی ہے۔