عالمی معیشت: شرح سود میں اضافے کے باوجود گہرا ہوتا بحران

پچھلے چند مہینوں میں کئی ممالک کے مرکزی بینکوں نے افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے تیزی سے شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ پرسوں فیڈرل ریزرو (امریکی مرکزی بینک) نے شرح سود میں 0.75 فیصد اضافہ کیا اور گزشتہ روز بینک آف انگلینڈ نے بھی اضافہ کر دیا ہے۔ شرح سود میں ہیجانی اضافے نے مارٹگیج شرح (گھر رہن کی شرح) اور حکومتی قرضوں کے حصول کی شرح میں اضافہ جبکہ عالمی کساد بازاری کے خطرات کو تیز تر کر دیا ہے۔ یہ ساری صورتحال عام عوام کے لئے بہت تکلیف دہ ہے لیکن کیا حکمران طبقات اپنے مقاصد حاصل کر سکیں گے؟

[Source]

ڈھائی سال پہلے پوری دنیا کے مرکزی بینکوں نے ملکی معیشتوں میں تاریخی پیسہ چھاپ چھاپ کر پھینکا۔ کورونا وباء کے دباؤ میں کساد بازاری کے منڈلاتے خطرات سے نمٹنے کے لئے قرضوں میں تاریخی اضافہ کیا گیا۔ الیکٹرانک پیسوں کا حجم بے نظیر سطح تک پھیلا دیا گیا۔ اس میں سے زیادہ تر پیسہ دیو ہیکل حکومتی خساروں کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔

اب بوئی فصل کاٹنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ پچھلے اٹھارہ مہینوں میں لاک ڈاؤن ختم ہونے اور متمول محنت کشوں کے خرچے بڑھنے کے ساتھ افراط زر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امریکہ میں محنت کشوں کو وباء کے دوران حکومت کی جانب سے ملنے والی فی کس 2 ہزار ڈالر امداد خرچ کرنے کا موقع مل گیا۔ امریکہ کی مثال سب سے زیادہ واضح ہے لیکن دیگر ممالک میں بھی کم و بیش یہی صورتحال رہی۔

دیو ہیکل مسائل کا امتزاج

سپلائی چین مسائل، مسلسل چینی لاک ڈاؤن اور مانگ میں اضافہ دیوہیکل مسائل کا امتزاج بن چکے ہیں۔ لیکن پچھلے موسم خزاں تک مرکزی بینکوں نے مالیاتی پالیسی انتہائی ڈھیلی رکھی۔ درحقیقت انہیں مالیاتی پالیسی سخت کرنے پر ناگزیر نتائج کا خوف تھا کہ کساد بازاری اور دیو ہیکل سیاسی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔

پھر یوکرین جنگ کا آغاز ہوا جس نے تمام زائچوں کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے۔ اشیائے خوردونوش، لکڑی، معدنیات اور کئی اجناس کی قیمتیں بے قابو ہو گئیں۔ روس کے خلاف معاشی جنگ نے خام مال کی سپلائی پر سنجیدہ اثرات مرتب کئے جس کے نتیجے میں معیشت کے کئی سیکٹروں میں قیمتیں تیزی سے بڑھ گئیں۔ الام و مصائب کی اس ہنڈیا میں ماحولیاتی تبدیلی کو بھی شامل کر لیا جائے جو مسلسل فصلوں کو برباد کر رہی ہے اور اب دریائی رسد میں دشواریاں پیدا کر کے لاجسٹک مسائل بھی پیدا کر رہی ہے۔

اس مرحلے پر چھ ماہ پہلے امریکی افراط زر کی شرح 8 فیصد تک پہنچ گئی اور یہ واضح ہو گیا کہ افراط زر کا مسئلہ عارضی نہیں ہے۔ مجبوراً مرکزی بینک حرکت میں آ گئے۔ لیکن ان کی جانب سے لیت و لعل نے مسئلے کو بہت زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ آج وہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی صورتحال میں پھنس چکے ہیں۔ اگر افراط زر کو قابو نہیں کیا جاتا تو وہ مزید بے قابو ہو کر معاشی مسائل میں اور زیادہ اضافہ کرتے ہوئے سماجی انتشار کو جنم دے سکتی ہے اور مستقبل میں شرح سود کا بڑھاوا بھی زیادہ بڑا اور تیز ہو گا۔ لیکن اس وقت موجودہ سطح پر بھی افراط زر کے نتیجے میں دہائیوں بعد ہڑتالوں اور صنعتی جدوجہد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ صنعتیں بند ہو رہی ہیں کیونکہ توانائی اور خام مال کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ چکی ہیں۔

جن افراد نے کچھ جمع پونجی بچا رکھی تھی، پیسوں کی قدر میں گراوٹ ان کی بچت تیزی سے کھا رہی ہے۔ چھوٹے کاروباروں کے لئے قیمتیں بڑھانا محال ہو گا جبکہ اخراجات میں دیو ہیکل اضافہ اور محنت کشوں کی بچت کرنے کی کوششوں سے ان کے مسائل میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔ افراط زر سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

لیکن کچھ کرنا بھی خطرناک ہو چکا ہے۔ شرح سود میں اضافہ منڈی میں پیسے کو گردش سے باہر کھینچ لیتا ہے اور مانگ کو کاٹ کھاتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی بمشکل سانسیں لے رہی ہے اور کئی کمپنیاں، گھرانے اور حکومتیں مکمل طور پر انتہائی کم شرح سود پر منحصر ہیں تاکہ معاملات چلائے جا سکیں۔ اس لئے شرح سود میں اضافہ ناگزیر طور پر دیوالیوں اور بندشوں کو جنم دے گا اگرچہ یہ صورتحال کس حد تک بڑھ سکتی ہے اس پر قیاس آرائی کرنا قبل از وقت ہے۔

بورژوا پارٹیوں کی سماج میں عمومی حمایت محنت کشوں کی متمول پرتوں اور متوسط طبقے میں ہوتی ہے۔ ان کے لئے آنے والا دور بہت تکلیف دہ ہے، خاص طور پر ان کے لئے جن پر مارٹگیج یا توانائی بلوں کا بوجھ زیادہ ہے۔

اس لئے تقریباً تمام مرکزی بینک پچھلے سال سانسیں روک کر بیٹھے تھے کہ اقدامات کرنے کے خوفناک نتائج نہ نکل آئیں۔ لیکن افراط زر کی ہٹ دھرمی اور مسلسل بڑھوتری نے انہیں متحرک ہونے پر مجبور کر دیا۔ جس چیز نے انہیں خوفزدہ کر دیا وہ کم ہیجانی مرکزی افراط زر (Core Inflation) میں اضافہ تھا جس میں توانائی اور اشیائے خوردونوش شامل نہیں ہوتے۔ امریکہ میں جنوری میں یہ 6 فیصد اور مارچ میں 6.5 فیصد تھی۔

اس جھٹکے کے بعد 1981ء کے بعد سے اب تک شرح سود میں تیز ترین اضافہ کیا گیا ہے جب فیڈرل ریزرو چیئرمین پال وولکر نے افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے دوسری مرتبہ شرح سود میں ہوشرباء اضافہ کر دیا تھا۔ پوری دنیا کے مرکزی بینک اب امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ (وولکر کی) تقلید کر کے ایک خفیف کساد بازاری پیدا کر کے افراط زر کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ کیا وہ کامیاب ہوں گے؟

افراط زر کی وجوہات

ایک طرف یہ درست ہے کہ شرح سود میں تیز اضافے کے افراط زر پر خاطر خواہ نتائج ہوں گے۔ دوسری طرف کئی عوامل مرکزی بینکوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ ہم نے ان پر مئی میں تفصیلی بات کی تھی لیکن یہاں ایک مرتبہ پھر مرکزی نکات دہرانے ضروری ہیں۔

افراط زرکی ایک وجہ معیشت میں مصنوعی پیسوں کی گردش میں دیو ہیکل اضافہ ہے۔ اس مسئلے پر مرکزی بینکوں اور حکومتوں کا کنٹرول ہے کیونکہ ظاہر ہے ایک یا دوسرے طریقے سے وہی اس پیسے کے دیو ہیکل حصے کا ذریعہ ہیں۔ لیکن افراط زر کے دیگر عوامل ان کے کنٹرول سے باہر ہیں۔

سپلائی چینز کے لاجسٹک مسائل کو جزوی طور پر حل کیا گیا ہے۔ امریکی مغربی بندرگاہوں پر اب سامان بردار بحری جہازوں کی طویل قطاریں موجود نہیں ہیں۔ اس کے برعکس وباء کو قابو کرنے کے لئے مسلسل چینی لاک ڈاؤن لاگو کرنے اور کھولنے سے بے تحاشہ انتشار پھیل رہا ہے۔ ان کی وجہ سے شنگھائی کی کلیدی بندرگاہ مسلسل غیر فعال رہتی ہے جبکہ چین میں پیداوار پر بھی سنجیدہ اثرات پڑتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی مسلسل درد سر بنی ہوئی ہے جو انفراسٹرکچر، صنعتوں اور اجناس کی رسد کو برباد کر رہی ہے۔ جس طرح سے فوسل فیول سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے لئے نئی گاڑیوں، ٹیکنالوجی اور توانائی پیداوار میں دیو ہیکل سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے کہیں سے پیسے پیدا کرنے ہوں گے جیسے سیلابوں وغیرہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی کا ازالہ کرنے کے لئے پیسے چاہئیں۔

ہڑتالیں اور احتجاج، جن میں سے کئی افراط زر کا نتیجہ ہیں، قیمتوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ فرانس میں آئل ریفائنریوں کی بندش سے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی تجارت میں ڈیزل گردشی خون کا کردار ادا کرتا ہے۔

یوکرین میں جنگ اور اس کی وجہ سے (روس) لاگو ہونے والی معاشی پابندیاں تاحال جاری ہیں اور موجودہ جارحیت کے خاتمے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے برعکس مغرب یوکرین کو اسلحے کی بھاری کمک پہنچا رہا ہے جو یوکرینی فوج کو توانائی بخشتے ہوئے جنگ کو طویل کر رہا ہے۔ اس لئے روس اور یوکرین سے کلیدی خام مال، توانائی اور اشیائے خوردونوش کی سپلائی متاثر رہے گی۔

اگر جنگ ختم ہو بھی جاتی ہے تو اب واضح ہو چکا ہے کہ یورپی یونین روسی توانائی سپلائی سے آزادی حاصل کرنے کا ارادہ کر چکی ہے جس کے لئے کئی گنا زیادہ مہنگی مائع قدرتی گیس (LNG) حاصل کی جا رہی ہے۔ اس فیصلے کے نتائج پچھلے چند مہینوں میں واضح ہونے شروع ہوئے ہیں کیونکہ پیداواری لاگت میں اضافہ سپلائی چین میں سے گزر کر کچھ عرصے بعد اثر انداز ہوتا ہے۔

عالمی تعلقات کا بکھرتا شیرازہ

مغرب اور روس سمیت مغرب اور چین میں بڑھتے تناؤ سے عسکری اخراجات میں بھی تیزی سے دیو ہیکل اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمنی اپنے عسکری اخراجات کو تقریباً دگنا کر کے جی ڈی پی (کل قومی پیداوار) کے 2 فیصد تک بڑھانے کا عندیہ دے رہا ہے۔

اٹلی اور دیگر نیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن: دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین کے خلاف بننے والا بین الیورپی عسکری الحاق جسے دہائیوں امریکی سامراج نے پالا ہے) ممالک بھی ایک دہائی میں اپنے عسکری اخراجات جی ڈی پی کا 2 فیصد تک کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ جاپان بھی چین کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے عسکری اخراجات دگنے کرنے کا خواہاں ہے جو (چین) پہلے ہی اپنے عسکری اخراجات میں سالانہ 4-5 فیصد اضافہ کر رہا ہے۔ مغرب اور روس اپنا گولہ بارود بہت حد تک استعمال کر چکے ہیں اور انہیں دوبارہ ذخیرہ کرنے پر مجبور ہیں۔ نیٹو نے حال ہی میں اسلحہ ساز کمپنیوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی ہے کہ پیدوار کو کیسے تیزی سے بڑھایا جا سکتا ہے۔

عسکری اخراجات میں تیز تر اضافہ افراط زر کو مزید بھڑکائے گا۔ اسلحہ سازی کے لئے درکار کئی اجزاء (اور کئی اخراجات اسلحوں کی مد میں ہیں) ابھی سے کمی کا شکار ہیں۔ آج سے ساٹھ سال پہلے ٹیڈ گرانٹ نے نشاندہی کی تھی کہ اسلحوں پر اخراجات معیشت پر دیو ہیکل بوجھ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ سرمایہ کاری کو کھا جاتے ہیں (موجودہ برطانوی بجٹ بحث پر نظر ثانی کافی ہے)۔ اس سے مشینری مہنگی ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے لئے وہی خام مال درکار ہوتا ہے جو معیشت کے دیگر سیکٹر کے لئے درکار ہوتا ہے اور یہ سڑکوں اور ریلوے لائنز جیسے حکومتی اخراجات کو کھا جاتے ہیں۔

اورآخر میں سب سے اہم، عالمی تعلقات کا شیرازہ بکھرنے پر تمام سپلائی چینز کا از سر نو نظم ناگزیر ہو گا جس کے نتیجے میں فیکٹریاں منتقل ہوں گی اور پیداوار گرے گی۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی کیا قیمت ہے اور نہ ہی کسی کو پتا ہے کہ اس کے افراط زر پر کیا اثرات ہوں گے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارا کام انتہائی گراں قدر ہو گا۔

چین عالمی معیشت کا کلیدی حصہ بن چکا ہے اور کئی سپلائی چینز میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اس وقت عالمی معیشت کا مرکز بحر اوقیانوس کے برعکس جنوبی چینی سمندر ہے۔ چین کو عالمی معیشت سے علیحدہ کرنے کی کوششیں قیمتوں میں اضافہ کریں گی کیونکہ مغربی سرمایہ داروں کو نئی فیکٹریاں تعمیر کرنی پڑیں گی اور خام مال اور اجزاء کی رسد اور پراسیسنگ کے لئے فاصلے بڑھ جائیں گے جس کی پھر اپنی لاگت ہے۔ اس کے لئے ایک نیا لفظ ”فرینڈ شورنگ“ بھی تخلیق کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے تزویراتی اتحادیوں میں سپلائی چینز قائم اور مستحکم کی جائیں۔

مسئلہ صرف چین کے ساتھ تضادات کا نہیں ہے۔ بائیڈن نے ٹرمپ حکومت کی کئی محصولات کو جاری رکھا ہے جن میں سے ایک مثال یورپی اور کینیڈین ایلومینیم پر محصولات ہیں۔ بائیڈن ڈبلیو ٹی او (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن: عالمی ادارہ جو ممالک کے درمیان تجارت کے قوانین کو وضع اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے) کے قوانین کو ازسرنو تشکیل دینا چاہتا ہے تاکہ تحفظاتی پالیسیوں کا دائرہ کار بڑھایا جا سکے اور ابھی سے وہ ”امریکی اشیاء خریدو“ پالیسی کو مضبوط کر رہا ہے جس کے ردعمل میں میکرون نے یورپی یونین کی ایک ”یورپی اشیاء خریدو“ پالیسی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان تمام تحفظاتی پالیسیوں کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا۔

نظام کا بحران

اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد عقل سمجھنے سے قاصر ہے کہ مرکزی بینک کیسے افراط زر کو قبل از کورونا وباء سطح تک لے جانے کا ہدف پورا کریں گے۔ حکمران طبقات تقسیم ہیں کہ کتنا آگے بڑھنا ہے۔ اس پالیسی کو کہاں تک پہنچایا جا سکتا ہے؟ افراط زر کو دوبارہ 2-4 فیصد تک واپس لانے کے لئے شرح سود میں کتنا اضافہ کیا جائے، حکومتی اخراجات کتنے کم کئے جائیں اور کتنے خطرناک معاشی بحران کا خطرہ مول لیا جائے؟ اس دوران تجارتی اور خارجہ پالیسیاں مسلسل ان کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔

شرح سود میں تیز تر اضافے کے حوالے سے اب معیشت دانوں کی قابل ذکر تعداد کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ فنانشل ٹائمز جریدے کے مطابق:

”شدید معاشی سکڑاؤ کے منڈلاتے بھوت کے سامنے فیڈرل ریزرو کے ناقدین نے اپنی تنقید شدید کر دی ہے۔ ڈیموکریٹس خبردار کر رہے ہیں کہ مرکزی بینک معیشت کو کساد بازاری میں دھکیلتے ہوئے کروڑوں امریکیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ معیشت دانوں کی بڑھتی تعداد حد سے زیادہ تصحیح کے خلاف خبردار کر رہی ہے اور تیزی سے بڑھنے اور کچھ تباہ کردینے کے خطرات کی نشاندہی کر رہی ہے“۔

فنانشل ٹائمز سے فیڈرل ریزرو کے بورڈ آف گورنرز کی سابق 25 سالہ ممبر ایلن میڈ نے خدشات کا اظہار کیا کہ ”(شرح سود میں) ہر 0.75 فیصد اضافے سے مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہوائی جہاز آرام سے اترنے کے برعکس گر کر تباہ ہو جائے گا“۔

بائیڈن کے سابق مشیر دَلیپ سنگھ نے کہا ہے کہ فیڈرل ریزرو ”انتہائی مشکل مسئلے میں پھنسا ہوا ہے۔ درحقیقت پوری دنیا میں ہر مرکزی بینکار گھبرایا ہوا، پریشان اور خوفزدہ ہے کہ وہ افراط زر کا مقابلہ کرنے کی دہائیوں میں بنائی گئی ساکھ برباد کر بیٹھے گا“۔

مرکزی بینکار طوفانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اب تمام راستے تباہی کی طرف جاتے ہیں۔ وہ ایک مسئلے کو حل کرنے کے جو بھی قدم اٹھاتے ہیں وہ دوسرے مسئلے کو زیادہ گھمبیر کر دیتا ہے۔ غالب امکانات یہی ہیں کہ آخر میں ہمیں موجودہ صورتحال کے تمام مسائل کا مجموعہ درپیش ہو گا۔۔۔افراط زر، کساد بازاری، بلند شرح سود۔

ایک ایسی صورتحال جس میں کوئی بھی قدم غلط ہی ہو گا، غیر متحرک رہنا یا تذبذب کا شکار ہونا معمول ہے۔ مرکزی بینکوں اور حکومتوں کا اصل امتحان اس وقت شروع ہو گا جب سب کی امیدوں کے عین مطابق معیشت تیزی سے بحران کا شکار ہو گی۔ وہ کچھ بھی کریں، قیمت محنت کش طبقہ ہی ادا کرے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ داری کا بحران مسلسل عالمی معیشت کو تباہ و برباد کر رہا ہے اور بورژوازی کے پاس اس کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔