امریکہ،جنہیں سرمایہ داری پر بہت ناز تھاوہ بت ٹوٹ گئے

Urdu translation of 'World Capitalism in crisis' part one and part two (September 26 & 29, 2008).

 

تحریر،، ایلن وڈز،، ترجمہ، آدم پال،،۔02.10.2008۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم غیر معمولی عہد میں رہتے ہیں۔ امریکہ میں مالیاتی بے چینی کے باعث ایسا خوف پیدا ہو رہا ہے جس کا پوری دنیا پر چھا جانے کا خطرہ ہے۔اس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا شعور تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ کل نیو یارک کی سنٹرل لیبر کونسل کی طرف سے ایک مظاہرے کی کال دی گئی جس میں ایک ہزار کے قریب محنت کشوں نے شرکت کی۔ اس میں تعمیراتی کام کے محنت کش، لوہے کے کارخانوں کے مزدور، پائپ فٹر، پلمبر اور دوسرے مزدوروں نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ ٹیچرزاور دوسرے ملازمین بھی اس مظاہرے میں شریک تھے۔ اس مظاہرے کا مقصد، جسے دو دن سے کم نوٹس پر بلایا گیا تھا ، صدر کے اس منصوبے کے خلاف مظاہرہ کرنا تھا جس میں وال سٹریٹ کو سات ارب ڈالر کی سرکاری رقم دے کر بچانے کی کوشش کی جانی تھی۔ ’ رائٹرز ‘نامی خبر رساں ایجنسی نے یہ خبر کچھ اس طرح دی، ریل کے مزدور، مشینوں پر کام کرنے والے، سخت ہیٹ پہننے والے، ٹیچراور مزدور یونینوں کے دوسرے لوگوں نے نیو یارک اسٹاک ایکسچینج کے پاس جمعرات کو وال سٹریٹ کو بچانے کے امریکی حکومت کے منصوبے کے خلاف ریلی نکالی۔سینکڑوں مظاہرین نے اپنے یونین لیڈروں کی پر جوش حمایت کی جب انہوں نے قرضے کی منڈیوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور مالیاتی اداروں کو بحران سے نکالنے کے لئے سات ارب ڈالر کے منصوبے کو رد کیا۔ اے ایف ایل اورسی آئی او کے مرکزی صدرجان سوینی نے کہا کہ ”بش انتظامیہ چاہتی ہے کہ ہم وال سٹریٹ کو بچانے کی رقم ادا کریں اور ایسے منصوبے کی حمایت کریں جس میں ہمارے بحران کا کوئی حل نہیں۔ ہم اپنے ٹیکسوں میں دیئے جانے والے ڈالروں سے ان لاکھوں مزدوروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جو مین سٹریٹ پر رہتے ہیں ، نہ کہ ان مراعات یافتہ ایگزیکٹوکی جو ہو شربا تنخواہیں لے رہے ہیں“۔ پلے کارڈوں پر نعرے درج تھے،’وال سٹریٹ کے لئے کوئی بلینک چیک نہیں‘،’ہماری محنت سے کمائی گئی پنشن لوٹ کا مال نہیں‘۔ مظاہرین نے کہا کہ حکومت یہ پیسے تعلیم ، صحت اور رہائش کی سہولتیں بہتر بنانے کے لئے بھی اتنی ہی آسانی اور جلدی سے خرچ کرے جتنے وہ وال سٹریٹ کو بچانے کے لئے کر رہی ہے۔یونائیٹڈ فیڈریشن فار ٹیچرز کے صدر راندیوین گارٹن نے کہا ،’ہم جانتے ہیں کہ معاشی مسائل کو حل کرنا ہے۔ لیکن ہم ایک موقع پرستانہ بچاو¿ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بچاو¿ چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب اسی طرح ہے جیسے میرا باس مجھے ہر وقت کہتا ہے کہ ٹیچرز کا احتساب ہونا چاہئے، اسی طرح وال سٹریٹ کا بھی احتساب ہونا چاہئے“۔ مظاہرین بہت سخت غصے میں تھے۔جس بات پر سب سے زیادہ مثبت رد عمل سامنے آیا وہ یہ تھی کہ اگر یہ بچاو کی کوشش صرف امیروں کے لئے ہوئی تو عام ہڑتال کی جانی چاہئے۔ یہ محنت کش طبقے کے شعور میں ایک بہت بڑی تبدیلی کے آغاز کو ظاہر کرتی ہے ، اور ایسا صرف امریکہ میں ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”سو سال میں ایک دفعہ ہونے والا واقعہ“۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچھلے چند ماہ میں مالیاتی منڈیوں کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ہیں ان کی مثال ماضی قریب میں موجود نہیں۔ وہی بورژوا معیشت دان جو پہلے بحران کو ردکرتے تھے اب اگلے ساٹھ سال تک ایک شدید بحران کی باتیں کر رہے ہیں۔ امریکی فیڈرل ریزرو کے سابقہ چئیر مین ایلن گرین سپین نے موجودہ مالیاتی بحران کو ”سو سال میں ایک دفعہ ہونے والاواقعہ قرار دیا ہے“۔ وہ دراصل اناسی سال کی بات کر رہے ہیںکیونکہ انیس سو اڑتالیس میں قطعاً کوئی بحران نہیں تھا۔ لیکن معیشت دان وہمی لوگ ہوتے ہیں انیس سو بانویں کا ذکر کرنے سے خوفزدہ ہیں بالکل اسی طرح جیسے قدیم اسرائیل کے لوگ اپنے خدا کا نام نہیں لیتے تھے کہ کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ پیش آجائے۔ وہ منڈیوں پر لوگوں کااعتماد اٹھ جانے کی وجہ سے پریشان ہیںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی اعتماد ،، کے ہونے یا نہ ہونے ،، کی وجہ سے ہی عروج اور زوال آتے ہیں۔ لیکن درحقیقت عروج اور زوال کی بنیادیں معروضی حالات میں ہوتی ہیں۔ اعتماد کا ہونا یہ نہ ہونا، دراصل اصل صورتحال کی عکاسی کررہا ہوتا ہے گو یہ اعتماد بعد میں ان حالات کا حصہ بن جاتا ہے جو منڈی کو اوپر یا نیچے جانے میں مدددیتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں اے آئی جی،بئیر سٹرنز،فینی مے،فریڈی میک،لحمین برادرز اور میرل لنچنے یا تو دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے یا پھر انہیں نیشنلائز کر لیا گیا ہے یا حکومت نے انہیں”بچا“ لیا ہے۔ ان کمپنیوں کا حجم اتنا بڑا تھا کہ ان کی ناکامی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ جیسے جیسے لوگوں پر معاشی بحران کی سنجیدگی واضح ہوتی جا رہی ہے ویسے ہی ان کے شعور میں ایک ایسی تبدیلی آرہی ہے جسے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ چھبیس ستمبر کی صبح ایک اور خبر ملی کہ ایک اور بینک واشنگٹن میوچل جسے امریکی حکومت نے بند کر دیا تھا دیوالیہ ہو گیا ہے۔ اب تک یہ کسی امریکی بینک کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس بینک کے اثاثے جے پی مارگن چیز کو ایک اعشاریہ نو ارب ڈالر میں بیچ دئے گئے ہیں۔ یہ ایک سونامی کے برابر مالیاتی تباہی ہے ، اور ابھی یہ ختم نہیں ہوئی۔ معیشت دانوں کے اندازے دن بدن نیچے کی طرف جا رہے ہیں۔چھ ماہ پہلے آئی ایم ایف نے مالیاتی شعبے میں ایک ہزار ارب ڈالر کے نقصان اور عالمی معیشت میں سست روی کی پیشن گوئی کی تھی ۔ بہت سے معیشت دانوں نے اسے انتہائی مایوس کن تجزیہ قرار دیا تھا۔ لیکن اب وہ کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔ فنانشل ٹائمز میں سٹراس کاہن لکھتے ہیں، ”بہت سے نقصانات ہونا ابھی باقی ہیں۔ اور اب چونکہ مالیاتی بحران شدید ہو چکا ہے اس لئے واضح ہے کہ ایک بتدریج حل -جو موجودہ بحران کو حل کرنے کے لئے بھی جامع ہو اور بنیادی محرکات کو بھی درست کرے ہی امریکہ اور دنیا بھر کی وسیع تر معیشت کو نارمل طریقے پر واپس لا سکتا ہے“۔،،فنانشل ٹائمز، بائیس ستمبر دو ہزار آٹھ،، ہاں، بے شک یہ درست ہے کہ امریکی معیشت اب نارمل طریقے سے نہیں چل رہی۔بلکہ جہاں تک وال سٹریٹ کا تعلق ہے یہ در حقیقت رک چکی ہے۔جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت امریکہ میں مالیاتی منڈیاںمفلوج ہو چکی ہیں اور امریکی حکومت کی جانب سے اس پیکج کی منتظر ہیں جس کے بعد ان کا خیال ہے کہ منڈی پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو گا۔ صرف یہی حقیقت کہ ”آزاد منڈی“اپنی بقا کے لئے امریکہ کے ٹیکس گزاروں کی خطیر رقم کی مرہون منت ہے اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ وہ مکمل طو ر پر ”دیوالیہ “ہو چکی ہے، اس لفظ کے بالکل لغوی معنی کے مطابق۔ اب ”منڈی کے خفیہ ہاتھ“اور نجی کمپنیوں کے جذبے جیسے تمام سوالات کا انہیں جواب مل چکا ہے۔ اب حقیقی دنیا میں وال سٹریٹ اور لندن شہر کے جرات مند ، سچے اور کھرے کمپنیوں کے مالکان ہاتھ میں کاسہ لیے بھکاریوں کی طرح حکومت کے پاس جا رہے ہیں اور سوشل سکیورٹی کی درخواست کر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہ بھکاری ارب پتی ہیں اور دھمکی دے کر پیسے مانگ رہے ہیں۔ اس وقت کیا نارمل رہ جاتا ہے جب ری پبلکن انتظامیہ جس کی قیادت آزاد منڈی کا ایک جنونی ،، بش،، کر رہا ہو، اہم سرمایہ کار بینکوں کو نیشنلائز کر لے؟ یا جب امریکی وزارت خزانہ ان لوگوں کو ایک کھرب ڈالر کی خطیر سبسڈی دے؟ پچھلے اتوار کو’ مارگن سٹینلے‘ اور’ گولڈ مین ساچیز‘ نے اپنی سرمایہ کار بینک کی حیثیت ختم کر لی اوراپنے آپ کو ”بینک ہولڈنگ“ کمپنی میں تبدیل کر لیا تا کہ امریکی خزانے تک مستقل رسائی حاصل کر سکیں۔ وال سٹریٹ سے دو اہم اداروں کا ختم ہونا بحران کی شدت اور سنجیدگی کی طرف اہم اشارہ ہے۔ جس تیزی سے مارگن سٹینلے نے سرمائے کی تلاش میں ایشیا کا رخ کیا ہے ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح دولت امریکہ سے باہر رخ کر رہی ہے۔ امریکی کانگریس ہچکچا رہی ہے جبکہ وزیر خزانہ ہنری پالسن،، بعض لوگوں کے خیال میں اب وہ امریکہ کا صدر ہے،، غصے میں پیچ و تاب کھا رہا ہے۔اسی دوران منڈیاں زوال پذیر ہیں اور کوئی بھی انہیں نیچے گرنے سے نہیں روک سکتا۔ امریکی کانگریس میں سات سو ارب کے پیکج کے متعلق یہ دلیل با بار دہرائی جا رہی ہے کہ ،’تم چاہتے ہو ہم یہ اربوں روپیہ بغیر کسی روک ٹوک اور گارنٹی کے دے دیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ان بینکاروں کو ان کی بد انتظامی پر نوازا جائے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ اس رقم سے وہ منڈی کے زوال کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ ایک بہت اچھا سوال ہے جس کا ہنری پالسن ، جارج بش یا کسی اور کے پاس کوئی جواب نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد منڈی کے تقدس کی وکالت کرنے والے اب منڈی کو اپنے آپ سے بچانے کے لئے حکومتی مداخلت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ لیکن اب وہ اپنی ہی منطق کی بھینٹ چڑھی چکے ہیں، آزاد منڈی کی معیشت کی پاگل منطق۔ موجودہ مالیاتی بحران جس کی پیشن گوئی مارکسسٹوں نے بہت پہلے کر دی تھی در حقیقت اس بے ہنگم قیاس آرائیوں(speculation)کے ایک لمبے عرصے پر محیط ہے جس نے تاریخ کا سب سے بڑا بلبلہ پیدا کیا۔ جب جمعے کو امریکی حکومت نے مالیاتی شعبے کے لئے سات سو ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا تو منڈی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن یہ ساری خوشی دھری کی دھری رہ گئی جب کانگریس نے اس منصوبے میں تاخیر کا اعلان کر دیا۔سوموار تک امریکی ڈالر وال سٹریٹ کے بحران کے باوجود حیران کن حد تک مضبوطی سے کھڑا رہا۔ لیکن کانگریس کے اس فیصلے کے بعد اور امریکی بینکوں کی نازک صورتحال کی بدولت یہ تیزی سے نیچی کی جانب گرا جس کی وجہ سے وہ تمام اشیاءجن کی قیمتوں کا تعین امریکی ڈالر میں ہوتا ہے تیزی سے مہنگی ہوئیں۔ دنیا کی اہم کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں دو فیصد تک کمی واقع ہوئی ۔ یور و کی قدر میں دو اعشاریہ چھ فیصد تک اضافہ ہوا۔ تیل کی قیمتوں میں تیز ترین تبدیلی آرہی ہے۔ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کے بعد تیل کی قیمتوں میں پچھلے چند دنوںمیں ہونے والی تیز ترین کمی کا رجحان دوبارہ اضافے میں تبدیل ہو گیا اور تیل کی قیمتیں دوبارہ بڑھنے لگیں۔ سومواربائیس ستمبر کو تیل کی قیمتوں میں ستر افیصد اضافہ ، ایک دن میں ہونے والاتاریخ کا سب سے بڑا اضافہ تھا۔ یہ عراق میں امریکی مداخلت کے بعد کے اضافے سے بھی زیادہ تھا۔ منگل کو ایک مرتبہ پھر تیل کی قیمتیں تین ڈالر کمی کے بعد ایک سو چھ ڈالر پر آ گئیںاور آنے والے دنوں میں ان قیمتوں میںمزید کمی متوقع ہے۔ یہ شدید قلابازیاںجہاں ڈالر کی حرکت کی عکاسی کرتی ہیں وہیں پر ان لوگوں کی حرکات و سکنات کی بھی جو ان اشیاءکی تجارت میں شریک ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک سرمایہ دار مکانوں کی منڈی میںقیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ جب وہ زوال پذیر ہو گئی تو انہوں نے استحصال کرنے کے لئے دوسری اشیاءکیطرف توجہ مرکوز کر دی۔ کوئی بھی ایسی شے جس سے منافع کمایا جا سکے جیسے تیل، غذائی اشیائ، فن کے نمونے، کچھ بھی۔ قیاس آرائیوںکو کنٹرول اور ریگولیٹ کرنے کے تمام مطالبات کے باوجود اسے کنٹرول نہیں کیا جاسکا۔یہ بالکل ہائیڈرا کے پودے کی طرح ہے، اگر آپ اس کا ایک سر کاٹ دیں تو اس کے درجن بھر سر اور ابھر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امیروں کے لئے -سوشلزم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے باعث بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے کہ یہ کیسا معاشی نظام ہے جس میں اتنی بد انتظامی ہے۔ جب سرمایہ دارانہ ریاست مالیاتی اداروں کو خود ہی نیشنلائز کرنا شروع کر دے تو یہ خیال عمومی طور پر پروان چڑھتا ہے کہ ہمیں آخر نجی بینکاروں اور سرمایہ داروں کی کیا ضرورت ہے؟ اسی وجہ سے سیاست دان نیشنلائزیشن کے لفظ سے اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں جتنا شیطان مقدس پانیوںسے۔ وہ ہر قیمت پر ایسے رستے ڈھونڈنا چاہتے ہیں جس میں نیشنلائزیشن کئے بغیر ریاست بینکوں کو سرمایہ مہیا کر سکے۔ سرمائے کی ایسی نئی شکلیںایجاد کرنے کی کوشش جس میں ملکیت اور کنٹرول نجی ہاتھوں میں رہے۔ لیکن بالآخر وہ اپنی خواہشات کے بر عکس ان بینکوں کو قومیانے پر مجبور ہیں جو دھڑام سے گر رہے ہیں۔ یہ معیشت کے اہم شعبے کی نجی ملکیت کا خوفناک نتیجہ ہے۔ دیکھنے میں بالکل ایک حیران کن تضاد لگتا ہے کہ جس ملک میں منڈی کے جرائم اور سرمایہ کاروں کی لالچ کا واویلا کیا جا رہا ہے وہ ملک امریکہ ہے، یہ محض اتفاق نہیں۔ آزاد کمپنیوں کی سر زمین جہاں سرمایہ داری کی نفسیات کی عوام میں انتہائی گہری جڑیں ہیں ، یہ وہی وہ سر زمین ہے جہاںآج بڑے کاروباروں کے خلاف شدید ترین ر د عمل پایا جاتا ہے۔ یہ حقیقت سیاستدانوں کی تقریروں میں عیاں ہے ، خاص طور ہر صدارتی امیدواروں کی تقریروں میں۔ ریپبلکن پارٹی کاا میدوار ڈیموکریٹ امیدوار کے مقابلے میں زیادہ واویلا کر رہا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کیونکہ وہ الیکشن جیتنا چاہتاہے۔ جان میکین دیکھ رہا ہے کہ بڑی بڑی کمپنیوں کے دفاتر میں ہونے والے فیصلوں اور ان بد عنوان قیاس آرائیوں کے خلاف ایک رد عمل پایا جاتا ہے۔ اور وہ وہی کچھ کہہ رہا ہے جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ کیا یہ انتہائی غلط بات نہیں تھی کہ بئیر سٹرنز جو اب دیوالیہ ہو چکی ہے ، غلط حکمت عملی پر چلتے ہوئے دولت کے وسیع ذخائر اکٹھے کر رہی تھی ، جس حکمت عملی کی وجہ سے وہ اب تباہ ہوئی ہے۔ اور اب امریکی ٹیکس گزار ان مالیاتی اداروں کے جرائم کی سزا کیوں بھگتیں اور ان کو بچانے کے لئے سات سو ارب ڈالر کیوں ادا کریں۔ گزشتہ سال تیس ستمبر دو زہزار سات تک فیڈرل گورنمنٹ کو تریپن ارب ڈالر کا مالیاتی خسارہ تھا جو فی کس ایک سو پچہتر ہزار ڈالر اور فی خاندان چار سو پچپن ہزار ڈالر بنتے ہیں۔ یہ بوجھ ہر سال فی شخص چھ اعشاریہ چھ سو ڈالر سے نو اعشاریہ نو سو ڈالر تک بڑھ جاتا ہے۔ صحت کی انشورنس کے ادار ے میڈی کئیر کا اس خسارے میں حصہ چوتیس ہزار ارب ڈالر ہے اور اگلے دس سال میں میڈی کئیر کے پاس پیسے ختم ہو جائیں گے۔ سوشل سکیورٹی پروگرا م میں بھی اگلے دس سال تک پیسے ختم ہو جائیں گے۔ جو بھی صدارتی انتخاب جیتے اور جو بھی کانگریس کو کنٹرول کرے اسے عام شہریوں کے معیار زندگی میں شدیدکمی کرنی پڑے گی۔ وہی سرمایہ دار جنہوں نے فیڈرل ریزرو اور حکومت سے اربوں ڈالر لئے ہیں وہی اب بجٹ میں اخراجات میں شدید کمی کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ سرکاری اخراجات میں کمی اور صحت کے نظام میں اصلاحات کرنے کی بات کر رہے ہیں جس کا واضح مطلب صحت کے اخراجات میں کمی ہے۔ صحت پر خرچ کرنے کے لئے کوئی پیسے نہیں، نہ ہی تعلیم پریا بوڑھوں کی پنشن پر۔ لیکن ان موٹی بلیوںاور بڑے بینکوں کے لئے بہت پیسے ہیں۔ یہ واضح تضاد لاکھوں لوگوں کے شعور میں سرایت کر رہا ہے اوراس کے مستقبل میں شدید نتائج نکلیں گے۔ قرضوں کا بھاری بوجھ آنے والی نسلوں کے کندھوں پر ڈال دیا جائےگا۔ جنہیں معیار زندگی میں کمی اور دوسرے سماجی اخراجات میں کمی کی صورت میں ان قرضوں کی قیمت چکانی پڑے گی۔ اس سے ناگزیر طورپر شعور میں تیز ترین تبدیلیاں مرتب ہوں گی۔ امریکی عوام کو اس عمل سے تکلیف دہ اسباق حاصل ہوئے ہیں۔سکول جانے والے بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کے لئے کوئی پیسے نہیں لیکن بات جب بڑے کاروباروں اور بینکوں کی آئے تو حکومت خالی چیک بک لے کر فوراً پہنچ جاتی ہے۔ غریبوں کے پاس بش انتظامیہ کے لیے ماسوائے حقارت کے کچھ نہیں۔ اس آزاد سر زمین پر ہر ایک کو امیر ہونے کا حق ہے!اگر لوگ خود غریب رہنا چاہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی ہے!انہیں کچھ کوشش کرنی چاہئے یا پھر وہ خود ہی قبر میں جا کر مر جائیں۔ آزاد منڈی کے ریپبلکن پیامبروں کا یہی پیغام ہے۔ لیکن جب امیر ترین لوگوں کا مسئلہ آتا ہے تو جارج بش بہت نرم رویہ اختیار کرتا ہے۔کیونکہ یہ لکھا جا چکا ہے،”جس کے پاس پہلے سے ہے،اس کو اور بہت کچھ دیا جائے گا؛اور جس کے پاس کچھ نہیں ، تو جوکچھ اس کے پاس ہے وہ بھی چھین لیا جائے گا©“۔ ہم جانتے ہیں کہ جارج بش اچھی کتابوں پر ایمان رکھتا ہے۔لیکن ہمیں شک ہے کہ مالیاتی اداروں کو بچانے کی اس کی خواہش کا عیسائیت کے نظریہ خریات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق خوف اور پریشانی سے ہے۔ امریکی حکمران طبقات کو اپنے پیروں تلے ایک بہت بڑی کھائی بنتی ہوئی نظر آئی اور انہوں نے اس عالمی بحران کو بچانے کے لئے جلد بازی میں بہت سے قدم اٹھائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جنونی آزاد منڈی کا صدر ٹیکس گزاروں کے سات سو ارب ڈالر بینکوں کو دینے کے لئے بے تاب ہے۔ اس فیصلے کو ملکی اور عالمی منڈی میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ سات صنعتی ممالک کے ادارے جی سیون کے ممبران نے کہا کہ ”وہ امریکہ کے غیر معمولی اقدامات کو خوش آمدید کہتے ہیں“۔ لیکن دوسرے ممالک نے کہا کہ وہ فوری طور پر ان دیوالیہ اثاثوں پر رقم خرچ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یورپ اور دوسرے ممالک کے سرمایہ دار بیٹھ کر امریکی سرمایہ داروں کے کرتب دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ اس تمام خرابی کی ذمہ داری بھی انہی پر ہے۔ یہی سوال امریکہ کے ہر گلی کوچے میں اٹھایا جا رہا ہے، اور کیپٹل حل میں بھی یہی سوال در پیش ہے۔ امریکی کانگریس کی شکل میں صدر کو فوری طور پر ایک مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کانگریس کے مرد اور خواتین بش کی طرح سرمایہ داری کو بچانا نہیں چاہتے یا ان کی سرمایہ دارانہ نظام کی وفاداری میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن وہ اپنی بقا سے زیادہ وفادار ہیں۔ وہ سرمایہ داری، منڈی،بینکاروں ، وال سٹریٹ اور دوسرے اداروں کے خلاف ایک شدید رد عمل محسوس کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے دی جانے والی خطیر رقم اس بات کا ثبوت ہے۔ بش کے اس منصوبے پر عملدرآمد کا مطلب ہے کہ ہر امریکی ٹیکس دینے والے شخص کی جیب سے نو ہزار چار سو ڈالر نکا ل کر ان لوگو ںکو دئے جائیں جنہوں نے یہ بحران پیدا کیا ہے۔ کانگریس کے اراکین اس حقیقت پر سوچ رہے ہیں اور انتخابات بھی زیادہ دور نہیں ہیں۔ ڈیموکریٹ امریکی معیشت کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اقدامات کی دوسری طرز کی بات کر رہے ہیں۔ وہ بنیادی سماجی ڈھانچے میںبہتری، گھروں کو گرم رکھنے کے لئے مدد اور دوسرے ٹیکسوں میں چھوٹ کی بات کر رہے ہیں جس سے صارف کا فائدہ ہو۔ لیکن انتظامیہ اور ری پبلکن مزاحمت کر رہے ہیں۔ بینکاروں کے لئے پیسے؟ ہاں کیوں نہیں۔عام امریکیوں کے لئے پیسے ؟ معذرت، تجوری خالی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو اب حقیقت بن کر عام لوگوں کو ڈس رہی ہیں۔ جیسا کہ خیال کیا جا سکتا ہے ، ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار بارک اوبامانے اپنی ایک تقریر میں مالیاتی کنٹرول(ریگولیشن) کو جدید بنانے کی ضرورت پر زور دیا جس میں اداروں کی مداخلت زیادہ ہو اور بینکوں اور ادھار کا کام کرنے والی کمپنیاں شامل نہ ہوں۔ اس نے کہا کہ،” ہم واشنگٹن کو بغیر کسی احتساب اور شرائط کے بلینک چیک نہیں دے سکتے جبکہ آج جو بحران ہے اس کی وجہ ہی احتساب کی کمی اور چیک ایند بیلنس کا نہ ہونا تھا“۔ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کا رد عمل زیادہ حیران کن تھا کیونکہ وہ بھی اپنے مد مقابل سے پیچھے نہیں رہ سکتا،ظاہر ہے یہ الیکشن کا سال ہے اور الفاظ نہایت سستے ہوتے ہیں۔ جان میکین نے کہاکہ ”یہ منصوبہ مجھے بہت ہی بے چین کر رہا ہے۔ ہماری قوم کی تاریخ میں پہلے کبھی اتنی طاقت اور پیسہ ایک شخص میں مرتکز نہیں ہوا تھا۔ جب ہم ٹیکس گزاروں کے ایک کھرب ڈالر کی بات کرتے ہیں تو’ یقین جانیں‘ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا“۔ میکین نے ڈیموکریٹ پارٹی کے اس مطالبے کی حمایت بھی کی کہ جن کمپنیوں کو بچایا جا رہا ہے ان کے مالکان کی آمدنی کی بالائی حد چار لاکھ ڈالر سالانہ مقرر کی جائے۔ یہ بش کی پالیسیوں کے بالکل الٹ ہے جس کا کہنا ہے کہ بالائی حد مقرر کئے جانے سے بینکوںکی حوصلہ شکنی ہو گی۔ سینٹ اور کانگریس میں موجود بزرگ ڈیموکریٹ یہ تجاویز دے رہے ہیں کہ زیادہ کڑی نگرانی کی جائے،جو کمپنیاں اس اسکیم میں شامل ہو رہی ہیں ان میں حکومت کے شئیرز زیادہ مقرر کئے جائیں،قرضے معاف کرنے کاا ختیار متعلقہ عدالتوں کو دیا جائے ا ور جو کمپنیاں اپنے اثاثے حکومت کو فروخت کر رہی ہیں ان کے مالکان کی تنخواہ کی بالائی حد مقرر کی جائے۔ وزیر خزانہ پالسن اس بات کی مخالفت کر رہا ہے کہ متاثرہ کمپنیوںکو پیسے دینے سے پہلے ان کے اثاثے خریدکر حکومت کو منتقل کرنے کی شرط رکھی جائے۔ اس کے خیال میں ایسا کرنے سے صرف وہی بینک آگے آئیں گے جو دیوالیہ پن کے قریب ہیں۔ ڈیموکریٹ اراکین کے اس اختلاف کی وجہ سے کہ دئیے جانے والے پیسے پر زیادہ کنٹرول ہونا چاہئے، امدادی کاروائی میں تاخیر کر دی ہے جس سے منڈی میں مزید گراوٹ آئی ہے۔ آخر جب منڈی نے درخواست کی ہے تو اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے! صدر بش نے کانگریس کو کہا تھا کہ ” اس منصوبے کا مقصد صرف مالیاتی بحران کو فوری طور پر حل کرنا ہے“۔ لیکن جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کانگریس عوامی رائے کے دباو¿ میں ہے جس کی حدت میں تیز ی سے اضافہ ہو رہاہے۔ کانگریس کے اراکین کو بہت سی ای میل اور ٹیلی فون آر ہے ہیں جن میں ان کے حلقے کے لوگ امیرو ں کے لئے اس منصوبے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اس غم و غصے سے خوفزدہ ہیں اور اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ منصوبے پر دستخط کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ کانگریس تمام مسئلے کی ذمہ داری انتظامیہ پر ڈال رہی ہے۔ صدر کانگریس کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے کہ وہ مالیاتی بحران سے نمٹنے کے منصوبے میں تاخیر کر رہی ہے۔،، بش نے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں بالکل یہی الفاظ استعمال کئے تھے،، ۔ اجلاس کے دوران پارہ چڑھ جاتا ہے ۔ کانگریس کے اراکین ایک دوسرے پر چیختے ہیں اور لڑپڑتے ہیں۔ کیپٹل ہل میں اس سے پہلے ایسا کب ہوا تھا ، یاد نہیں! اور پہلے کب امریکہ اتنے بڑے مالیاتی بحران میں گھرا تھا! اورامریکی عوام پہلے کب اتنے باغی اور غصے میں کب آئے تھے!کانگریس کے اراکین کا یہ رویہ اس لئے ہے کیونکہ وہ اپنے پیروں کے نیچے آگ لگی دیکھ رہے ہیں۔ وہ اب جو بھی کریں گے غلط کریں گے۔ اگر وہ منصوبے پر دستخط کر دیتے ہیں تو وہ لاکھوں امریکیوں کی نفرت مول لیں گے۔ جب برطانوی ٹی وی پر ایک عورت سے انٹرویو کرتے ہوئے اسے اس منصوبے کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے نہایت غصے سے کہا،”میں ابھی گیارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کر کے آئی ہوں اور ہفتے میں ساٹھ گھنٹے کام کرتی ہوں۔ اب وہ میری تنخواہ میں سے دو ہزار تین سو ڈالر لے کر بینکاروں کو دینا چاہتے ہیں“۔ یہ امریکہ میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کا عمومی رویہ ہے۔ لیکن اگر وہ دستخط کرنے سے انکار کرتے ہیں تو امریکی سٹاک مارکیٹوں میں اور تیز گراوٹ آئے گی جس کے باعث انیس سو اناتیس کی طرز کا بحران آنے کا خطرہ ہے۔ وہ موت کی دو انتہاوں کے درمیان پھنس چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بورژوازی کی مایوسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرمایہ دار طبقہ پاگل پن کی انتہاو¿ں میں ہچکولے کھا رہا ہے۔ انتہا درجے کی رجائیت اور اچھے مستقبل کے خیالات سے اب وہ مایوسی کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب جہاں پہلے غیر منطقی خوشی تھی اب وہاں مایوسی اورغم ہے۔ پہلے بھی ایسے ہی ہوتا رہا ہے بورژوازی پاگل پن کی انتہاو¿ں میں گھری رہتی ہے۔ ایک منٹ پہلے تک دعوت چل رہی ہوتی ہے اور دولت کے بڑے بڑے ذخائر بنائے جا رہے ہوتے ہیں جبکہ دوسرے ہی لمحے سب ختم ہو جاتا ہے اور مایوسی چھا جاتی ہے۔ جب آخر کار بحران سر پر پہنچ جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ شراب نوشی کی رات کی محفل کے بعد صبح ہوئی ہے۔ رات تک تمام لوگ دنیا سے بے خبرجشن منا رہے تھے۔ لیکن صبح کی تیز روشنی میں ایک دوسری کہانی ہے۔ مرد و خواتین رات کے نشے کی وجہ سے سر درد محسوس کر رہے ہیں۔ وہ سچے دل سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ دوبارہ کبھی شراب نہیں پئیں گے لیکن ایسا صرف اگلی دعوت تک ہوتا ہے۔ قیاس آرائیوں کاموجودہ بحران اس عمومی اصول سے مختلف نہیں ۔ صرف مایوسی کی انتہا بہت زیادہ ہے اور اسی کی وجہ وہ بے تحاشہ بلندی ہے جہاں وہ پہنچ چکے تھے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا بلبلہ یا قیاس آرائیوں پر مبنی عروج تھا۔ یہ وال سٹریٹ کے اس سے پچھلے عروج کی نسبت بہت بڑا تھا۔ اتنے خراب حالات کے باوجود سرمایہ دار اپنے آپ کو تسلیاں دے رہے ہیں ہم ابھی بھی بچ گئے ہیں کیونکہ اس سے برا وقت بھی آسکتا تھا۔ فنانشل ٹائمز کچھ عرصہ پہلے لکھا ہے، ” گریٹ کریش کا آغاز اسی سال پہلے ہوا تھالیکن اب ہم کسی اور صدی میں رہ رہے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ موجودہ صدی کا بد ترین بحران ہے یا نہیں لیکن بہترین بات یہ ہے کہ انیس سو تیس سے لے کر اب تک کوئی برا سانحہ نہیں ہوا‘۔ یہ بات دو حوالوں سے دلچسپ ہے۔ جو لوگ عرصہ دراز سے یہ بات کرتے آرہے ہیں کہ گریٹ کریش جیسا واقعہ اب دوبارہ نہیں ہو سکتا اور ایسا کوئی امکان نہیں، آنکھ جھپکے بنانہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا ممکن ہے بلکہ یہ بہت اچھا ہوا کہ اب تک ایسا نہیں ہوا۔ ڈومینیک سٹراس کاہن لکھتا ہے، ”دیکھنا یہ ہے کہ کم از کم ابھی تک وسیع تر معیشت میں کیا نہیں ہوا۔- ایک بہت بڑے زوال کا آغازشاید زوال نہ ہونے کے باعث بہت سے لوگ ہاو¿سنگ کے بلبلے کے پھٹنے کی درستگی امریکہ میں قرضوں کی عدم ادائیگی کو بد قسمتی اور بڑے مالیاتی اداروں کے خاتمے کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ “ بحران کے دوران قیمتوں کی گراوٹ دراصل اس پہلے افراط زر میں ان قیمتوں کے اضافے کو متوازن کرتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے ”درستگی“ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم اس سے پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ بورژوا معیشت دان زوال کی اصطلاح کو تبدیل کرلیتے ہیں تا کہ یہ کم سنجیدہ لگے۔ پہلے وہ لفظ ،،بے چینی ،، استعمال کرتے تھے۔، پھر زوال،گراوٹ، سست روی اور اب درستگی۔ جب ہم منڈی کی اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی حیرت انگیز قوت کو مانتے ہیں، جو جادو کے ذریعے بغیر کسی انسانی مداخلت کے خود ہی ایسا کرتی ہے تو ہم منڈی کی اپنے آپ کو”درست“ کرنے کی کوشش پر کیوں اعتراض کریں گے؟ اس موضوع پر ہم نے عالمی تناظر دو ہزار آٹھ میں لکھا تھا، ”ایک زلزلے کو بھی ضروری ’درستگی‘ کے طور پر پیش کیا جاسکتاہے، جو زمین کی تہہ کو ایڈجسٹ کرتا ہے۔ آخر کار سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے اور زندگی دوبارہ معمول پر آجاتی ہے۔ لیکن یہ تجربہ اپنے پیچھے نقصان کے تکلیف دہ نشان چھوڑجاتا ہے، بہت سے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں،درخت اکھڑ جاتے ہیں،فصلیں تباہ ہو جاتی ہیںاور ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں اور زخمی ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ زلزلے کے بعد نارمل زندگی اتنی آسانی سے شروع نہیں ہوتی۔ کچھ زلزلے تو اتنے تباہ کن ہوتے ہیں اور اپنے پیچھے اتنی بربادی چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے اثرات کئی سالوں تک محسوس ہوتے رہتے ہیں“۔ مندرجہ بالا سطور ’درستگی‘کے نتائج کی درست وضاحت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مالیاتی سرمائے کی آمریت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا عہد اجارہ دارانہ سرمایہ داری کا عہد ہے۔ اس کا ایک پہلو مالیاتی سرمائے کا مکمل غلبہ ہے۔ برطانیہ جو پہلے دنیا کی ورکشاپ تھی اب ایک طفیلیہ معیشت میں تبدیل ہو چکا ہے، جو بہت کم پیدا کرتی ہے اور وہاںزیادہ غلبہ مالیاتی سرمائے اور سروسز،،خدمات،، کے شعبے کا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اسے مثبت انداز میں دیکھا جا رہا تھا اور کہا جا رہاتھا کہ اس طرح ہم عالمی معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن اس کے بالکل الٹ ہوا ہے۔ امریکی نمونے کی غلامانہ پیروی کرنے کی وجہ سے برطانیہ اب امریکی زوال کے پیچھے گھسٹ رہا ہے اور اس کے تباہ ہونے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ ایک طفیلیہ کیڑے کی طرح جو اپنے میزبان جانور کا خون چوس رہا ہوتا ہے،مالیاتی شعبہ حقیقی معیشت کی نسبت بہت بڑا ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے حقیقی معیشت کی طاقت کم ہوگئی تھی اوراب اس کے مکمل تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ ایک بنیادی بات ہے کہ جو چیز اوپر جاتی ہے اسے نیچے آنا ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے امریکی معیشت کشش ثقل کے اصولوں کی نفی کر رہی تھی۔ لیکن اب قیمت چکانی ہو گی۔ اب نیچے جانے کا وقت آگیا ہے اور یہ زیادہ تکلیف دہ اس لئے ہے کیونکہ اس سے پہلے کی بلندی جسے ہاو¿سنگ کے شعبے میں قیاس آرائیوں کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا بہت زیادہ تھی۔ یہ گریٹ کریش میں مکانات کی قیمتوں میں کمی کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ دو ہزار آٹھ کی پہلی سہ ماہی میں امریکہ میں مکانات کی قیمتوں میں چودہ اعشاریہ ایک فیصد کمی آئی۔ اس کے مقابلے میں انیس سو بتیس میں گریٹ کریش کا جب بد ترین زوال تھا اس وقت قیمتوں میں دس اعشاریہ پانچ فیصد کمی آئی تھی۔ لیکن یہ اعداد و شمار صورتحال کی اصل سنجیدگی واضح نہیں کرتے۔ کچھ معیشت دان پہلی سہ ماہی میں مکانات کی قیمتوں میں سو لہ فیصد تک گراوٹ ریکارڈ کر رہے ہیں۔ اور مکانوں کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ بینکاروں کو دی جانے والی خطیر رقم سے زوال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا یا پھر صرف اتنا ہو گا کہ ایک اور زیادہ بڑے زوال سے پہلے سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ یہ منڈی کی منطق ہے جو اپنے ہی قوانین پر چلتی ہے۔ اس منڈی کو متوازن کرنے کی تمام کوششیں فضول ہیں۔ منڈی کو ریگولیٹ کرنے کی بھی تمام باتیں بیکار ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت ہی بے ہنگم ہے۔ اس کو نہ ہی کسی منصوبے کے تحت چلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے۔ مالیاتی شعبے کو متوازن رکھنے کے لئے مزید پیسے دینے سے صرف امیروں کی امارت میں اضافہ ہو گالیکن اس کا منڈی پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔ بینکاروں کی بے صبری بہت حیران کن ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ان سے وہ قرضے خرید لے جو اب ادا نہیں ہو سکتے اور ان کے منافع بخش اثاثے ان کے پاس رہیں۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان اثاثوں کی حقیقی قدر کیا ہے۔ ایک پرانے محاورے کے مطابق بوری میں بند جانور کبھی نہیں خریدنا چاہئے۔ یہ ایک اچھا مشورہ ہے لیکن حکومت بوری کے اندر دیکھے بغیر ان بینکاروں کو خطیر رقم دینا چاہتی ہے۔ بینکنگ سسٹم کا بحران اس بہت بڑے دھوکے کا نتیجہ ہے جس میں تمام بینک پچھلی دو دھائیوں سے اپنی خوشی سے ملوث تھے۔ اس سے وہ حیران کن حد تک دولت مند ہوئے لیکن اب ان پر بہت بڑے قرضوں کے ساتھ ساتھ کھاتوں میں بڑی تعداد میںمصنوعی سرمایہ بھی موجود ہے۔ اس چھوٹے سے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ بہت آسان! تمام بوجھ ٹیکس گزاروں پر ڈال دو۔ حکومت ایک ادارہ بنائے جو یہ تمام اثاثے خرید لے اور جب تک وہ ’میچور‘نہیں ہو جاتے اپنے پاس رکھے اور اس کے بعد وہ نجی شعبے کو دوبارہ بیچ دے۔ دوسرے الفاظ میں نقصان کو نیشنلائز کر لیا جائے اور منافعوں کو پرائیویٹائز کر دیا جائے۔ یا پھر گورے ویڈال کے الفاظ میں ،”امیرو ں کے لئے سوشلزم اور غریبوں کے لئے آزاد منڈی کی معیشت“۔ سرمایہ دار دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ بھی قربانیاں دے رہے ہیں یعنی ان کا مطلب ہے کہ وہ اپنے منافعوں کا کچھ حصہ قربان کر دیں جبکہ محنت کش اپنی تمام زندگیاں اور مکان قربان کر دیں۔ بینکار جب درد سے چیخیں تو حکومت خالی چیک بک لے کر دوڑتی ہوئی ان کے پاس آجائے۔ بینکاروں کو اپنی بیماری دور کرنے کے لئے بڑی رقوم کے ٹیکے چاہیں۔ اسےliquidity provisionکہا جا تا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئیliquidityیعنی فروخت کرنے کے لئے اثاثے نہیں ہوتے۔ حکومت صرف ٹیکسوں کے ذریعے کیش اکٹھا کر سکتی ہے۔ لیکن ٹیکس بڑھانے سے طلب میں کمی ہوتی ہے ، جو امریکہ میں پہلے ہی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس عمل سے عارضی طور پر امراءکی تکلیف کم ہو گی لیکن اس کے ساتھ ہی لاکھوں غریب لوگوں کی تکلیفوں میں اضافہ ہو گا۔ لیکن اس کے متعلق تو پریشان نہیںہونا چاہئے کیونکہ بہت سے محب وطن امریکیوں کو منڈی کے وسیع تر مقاصد کے لئے یہ قربانی تو دینی پڑے گی۔ بد قسمتی سے اس کے معیشت پر کوئی بڑے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ طلب میں مزید کمی سے بے روزگاری بڑھے گی۔ مزید کمپنیاں دیوالیہ ہوں گی۔ مزید بہت سے لوگ اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ دوسرے لفظوں میں بحران مزید گہرا ہو گا اوراسے حل کرنا اتنا ہی پیچیدہ ہوگا ۔ اس کے علاوہ پچھلے چند سالوں میں امریکہ سب سے زیادہ قرضے دینے والے ملک تھا اب سب سے زیادہ قرضے لینے والا ملک بن چکا ہے۔حکومت اگر کم قیمت پر اثاثے خرید کر مالیاتی شعبے کو بچانے کے لئے بڑا سرمایہ خرچ کرتی ہے تو اس کے قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس طرح دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی واقع ہو گی اور اس سے روپے کی منڈی میں مزید ہیجان پیدا ہوگا۔ مرکزی بینکوں کا مقصد نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں میںروپے جمع کرانے والوں کو گارنٹی دینا ہوتا ہے کہ ان کی رقم محفوظ ہے اور وہ مالیاتی اداروں کو باہمی طور پر اچھے اثاثوں پر liquidity دیتے ہیں۔ لیکن مرکز ی بینک کی بھی حد ہوتی ہے جو تیزی سے قریب آتی جا رہی ہے۔ وہ اب تک جو کچھ کر سکتے تھے کر چکے ہیں۔ اگر بینکاری نظام کا ایک اور نیا بحران جنم لیتا ہے تو مرکزی بینک بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ کسی کوبھی اندازہ نہیں کہ ابھی تک مزید کتنے خراب قرضے مالیاتی نظام میں زہر بھر رہے ہیں اس لئے ایسے بحران مستقبل میں ناگزیر ہیں۔ جلد یا بدیر ان بڑے بینکوں کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں نکلے گا جس سے پوری دنیا کی معیشت کو جھٹکا لگا تھا۔ بالکل ایسے ہی مئی انیس سو اکیتیس میں ایک بہت بڑے آسٹرین بینک کریڈٹ انسٹالٹ کے خاتمے کے بعد ہوا تھا۔ یہ امریکی وال سٹریٹ کے کریش کے ڈھائی سال بعد ہوا تھا اورا سکے بعد وسطی یورپ اور دوسرے ممالک میں مالیاتی بحران شروع ہو گیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ اگلے عہد میں ہم یہی کچھ ہوتا ہوا دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارکس اور مصنوعی سرمایہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روپے کی کمی کی وجہ سے بحران پیدا نہیں ہوتا بلکہ بحران کی وجہ سے روپے کی کمی ہوتی ہے۔ بورژوا معیشت دان اپنی بینکارانہ ذہنیت کے ساتھ وجہ کو اثر بنا دیتے ہیں اور مظہر(appearance)کو جوہر(essence)۔ جب معیشت بحران میں داخل ہوتی ہے تو قرضے دینا بند ہو جاتے ہیںاور لوگوں کو کرنسی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بحران کے اثرات ہیں لیکن اپنی باری پریہ اس کے بر عکس یہ وجہ بن جاتی ہے جس سے طلب میں مزید کمی واقع ہوتی ہے اور معیشت کا نیچے کی جانب سفر شروع ہوتا ہے۔ بینکاروں اورحکومت میں موجود ان کے دوست یہ اصرار کر رہے ہیں کہ بحران اس لئے پیدا ہوا ہے کیونکہ مالیاتی نظام کے پاس بہت تھوڑے پیسے ہیں۔ یہ ایک حیران کن تجزیہ ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے بہت زیادہ دولت بنانے کا جشن چل رہا تھا جس میں بینکوں نے بہت بڑے منافع حاصل کئے۔ لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کافی سرمایہ نہیں ہے۔ درحقیقت عروج کے دوران جو سرمایہ گردش کر رہا تھا وہ قرضوں پر مبنی سرمایہ تھا اور سرمائے کا اتنا بڑا حجم ہی از خود سرمایہ دارانہ پیداوار کی حدود ظاہر کر رہا تھا۔ قیاس آرائیوں کے لئے بڑی تعداد میں سرمایہ موجود تھا جس کو پیداواری شعبے میں کوئی رستہ نہیں مل رہا تھا اور سرمایہ داروں کو اس کے استعمال کے دوسرے رستے ڈھونڈنا تھے۔ مارکس نے بہت پہلے کہا تھا کہ سرمایہ داروں کا خواب ہوتا ہے کہ وہ پیسے سے پیسہ بنائیں اور انہیں پیداوار کے تکلیف دہ عمل سے نہ گزرنا پڑے۔ پچھلے دور میں وہ اس خواب کی تعبیر کرنے میں کامیاب ہو گئے ،،سوائے چین کے جہاں پیداواری ذرائع کی حقیقی ترقی ہو رہی ہے،، امریکہ ، برطانیہ ، سپین ، آئر لینڈ اور دوسرے بہت سے ممالک میں بینکوں نے قیاس آرائیوں کے لئے کھربوں ڈالر خرچ کئے خاص طور پر ہاو¿سنگ کے شعبے میں۔ انہی بنیادوں پر قرضے بیچنے کا اسکینڈل شروع ہوااور حیران کن حد تک مصنوعی سرمایہ پیدا ہوا۔ مارکس کے دنوں میں ہی بہت بڑی تعداد میں سرمایہ گردش کر رہا تھا۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو مصنوعی سرمائے کی بنیاد بنتا ہے۔ ان دنوں میں بھی قرضوں کا دیوالیہ پن ہوتا تھا لیکن ان کا حجم آج کےderivativesیعنی قرضوں کے اوپر لئے گئے قرضوں کے حجم کے برابر ہوتا تھا۔ لیکن اگر آج کی حالت زار کو دیکھا جائے تو ماضی کی تمام قیاس آرائیاں بہت چھوٹی نظر آتی ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والی قیاس آرائیاں ہوش ربا ہیں۔ صرف ایک مثال لیں،دیوالیہ قرضوں کے تبادلے کی صنعت۔ یہ منڈی دو پارٹیوں کواس بات کے امکان پر شرط لگانے کی اجازت دیتی ہے کہ کیا وہ کمپنی اپنے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دیوالیہ ہو جائے گی۔ اس منڈی کا حجم نوئے کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی پوری دنیا کے مجموعی قرضوں کے دوگنا سے بھی زیادہ۔ لیکن یہ معاہدے صرف ان دو پارٹنرز کے کھاتوں میں لکھے ہوتے ہیںاس لئے کوئی بھی اس ہونے والی تجارت کا اصل حجم نہیں جان سکتاکہ عالمی معیشت کو کتنا بڑا خطرہ در پیش ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں وال سٹریٹ اور وائٹ ہاو¿س میں پریشانی نظر آتی ہے۔ وہ درست طور پر خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ کوئی بھی بڑا جھٹکا تمام مالیاتی اداروں کو دھڑام سے نیچے گرا دے گا جس کے نتائج کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ انیسویں صدی میں جب سرمایہ داری عروج پر تھی اور قرضہ لینا آسان تھا اور اعتماد بڑھ رہا تھا اس وقت بھی تمام لین دینا حقیقی روپوں کے بغیر ہوتا تھا۔ کسی بھی سرکل کے آغاز پر سرمائے کی فراوانی ہوتی ہے اور شرح سود انتہائی کم ۔ کم شرح سود سے چکر کے آغاز پر کمپنیوں کو بڑے منافع حاصل ہوتے ہیں اور پیداوار بڑھتی ہے۔ پھر ترقی کی بلندی پر شرح سود اوسط درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ قرضوں کی مزید طلب بڑھتی ہے عروج کی انتہا پر شرح سود بھی اپنی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن پچھلے عروج میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں سے امریکی فیڈرل ریزرو نے جان بوجھ کر شر ح سود کو کم رکھا تھا۔ افراط زر کی نسبت سے بعض مواقع پر تو شرح سود نفی میں تھا۔ سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے یہ غیر ذمہ دارانہ تھا۔ اس کی وجہ سے ہاو¿سنگ کا بلبلہ بنا اور اب موجودہ بحران پیدا ہوا۔ لیکن جب تک بڑے منافع پیدا ہو رہے تھے اور سرمایہ کار خوش تھے کسی کو پرواہ نہیں تھی۔ وہ اس پیسے بنانے کے پاگل پن کے جشن میں شریک تھے۔ تمام معتبر بینکار اور تعلیم یافتہ معیشت دان اس جشن میں ناچ رہے تھے اور کہہ رہے تھے،”کھاو¿ ، پیو اور خوش رہو، کل ہم نے مر جانا ہے“۔ آج اگر وہ ناکافی سرمائے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے اثاثوں کا بڑا حصہ مصنوعی ہے۔ جو کہ مالیاتی شعبے میں بڑی دھاندلی کے باعث ہوا ہے۔ جب تک عروج چلتا رہا کسی نے پرواہ نہیں کی۔ لیکن اب عروج ختم ہو چکا ہے اور ان اثاثوں کی پڑتال ہو گی۔ و ہ بینکار جو پچھلے عرصے میں ایک دوسرے سے بڑے پیمانے پر قرضے خرید رہے تھے اب ایسا نہیں کر رہے۔ بد اعتمادی اور شک ہر جگہ موجود ہے۔ پہلے والے خوش اعتقادی اور رجائیت کی جگہ لین دین میں کنجوسی نے لے لی ہے۔ پورے کا پورا بینکاری کا نظام جس پر سرمائے کی گردش انحصار کرتی ہے رک چکا ہے۔ جب تک جعلی اثاثہ جات موجود ہیں اس وقت تک بہت سے مالیاتی ادارے معیشت کو نئے قرضے نہیں دے سکتے۔ مارکس نے اس معاشی چکرمیں اس مرحلے کو بہت پہلے بیان کر دیا تھا، ”یہ واضح ہے کہ بحران کے عرصے کے دوران ادائیگی کے لئے ذرائع کی کمی ہوتی ہے۔ تبادلے کے بلوں کی جگہ اشیاءکا از خودتبادلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور اسی عرصے میں ہی فرم کا بڑا حصہ حقیقی قرضے پر چلتا ہے۔ بینکوں کے غلط اور جہالت پر مبنی بنائے گئے قوانین جیسا کہ آٹھارہ سو پنتالیس میں بنایا گیا تھا بحران کو مزید گہرا کرتے ہیں۔ لیکن بینکوں کے متعلق کوئی بھی قانون بحران ختم نہیں کر سکتا“۔ ” پیداواری نظام میں جہاں دوبارہ پیدوار کے تسلسل کا تمام انحصار قرضے پر ہووہاں بحران ضرور آئے گا۔ ادائیگی کے ذرائع کے لئے بہت زیادہ تیزی آئے گی ۔جب قرضے اچانک ختم ہو جائیں گے اور صرف کیش ادائیگیاں ہی ہو سکیں گی ۔ پہلی نظر میں سارا بحران قرضے کایا روپوں کابحران نظر آئے گا۔ اور درحقیقت سوال صرف تبادلے کے بلوں کا روپوں میں تبدیل ہونے کا ہے۔ لیکن ان بلوں کی اکثریت اس خرید و فروخت ظاہر کرتی ہے جو معاشرے کی ضرورتوں سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس تمام بحران کی بنیاد ہے۔ اسی وقت تبادلے کے یہ تمام بل سیدھا سادا دھوکہ ہیں جن کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے اور وہ ختم ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسروں کے پیسوں پر ناکام قیاس آرائیاں بھی۔ اور آخر میں اشیاءکا سرمایہ جس کی قدر میں کمی آئی ہے اور اب بیچنے کے قابل نہیں رہا یا جس کی حقیقی قیمت اب وصول نہیں کی جا سکتی۔ دوبارہ پیداوارکے زبردستی پھیلاو¿ کا یہ مصنوعی نظام اس طرح ٹھیک نہیں ہو سکتا کہ کوئی بینک مثلاً بینک آف انگلینڈقیاس آرئیوں میں ملوث تمام لوگوںکو کاغذ پر لکھے کہ وہ پیسے ادا کردے جن کی ان کو ضرورت ہے اور وہ اشیاءان کی اصل قیمتوں پر خرید لے جن کی قدر میں شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ اتفاق سے یہاں ہر چیز مسخ شدہ نظر آتی ہے کیونکہ کاغذ کی اس دنیا میں حقیقی قیمت اور حقیقی بنیاد کہیں نظر نہیں آتی بلکہ جو چیزیں نظر آتی ہیں وہ اسٹاک کے شئیرز، سکے، روپے، تبادلے کے بل اورسکیورٹیز ہیں۔ خاص طور پر وہ مراکز جہاںپورے ملک کے پیسے کاروبار مرتکز ہے جیسے لندن یہ مسخ شدہ چہرہ ظاہر ہوتا ہے تو پورا عمل سمجھ سے باہر ہو جاتا ہے۔ پیداواری مراکز میں ایسا کم ہوتا ہے۔“(سرمایہ ، جلد تین، باب تیس، صفحہ478-49)۔ سرمایہ داروں کو اب اس مصنوعی سرمائے کو نظام سے نچوڑ کر باہر نکالنا ہو گا۔ ایک ایسے شخص کی طرح جس کے جسم میں زہر بھر جائے یا نشے کا عادی انسان جو نشے کے اثرات کے خلاف لڑ رہا ہو، انہیں یا تو زیر نظام سے باہر نکالنا ہو گا یا وہ ختم ہو جائیں گے۔ لیکن یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے اور پورے جسم کو نئے خطرات سے لاحق کرتا ہے۔ جیسے ہی نظام سکڑتا ہے اور قرضے بند ہوتے ہیں سرمایہ دار اپنے قرضے واپس لیتے ہیں۔ جو ادائیگی نہیں کر سکتے وہ دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیروزگاری بڑھتی ہے جس سے طلب میں کمی ہوتی ہے۔ جس سے نئے لوگ دیوالیہ ہوتے ہیں اور ایسے مزید قرض دار آتے ہیں جواپنا قرضہ ادا نہیں کر سکتے۔ اس طرح وہ تمام عناصر جو پہلے معیشت کو اوپر دھکیل رہے تھے اب اس کے الٹ کام کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بورژوا معیشت کا دیوالیہ پن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معیشت دان اس خیال کو بار بار دہرا رہے ہیں کہ عالمی سطح پربحران اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور انہوں نے نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بحران امریکہ تک محدود رہے گا کیونکہ امریکی معیشت کو دنیا سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔،، اور اس طرح پہلے وہ جو گلوبلائزیشن کی بات کرتے تھے اب اس کے الٹ کہہ رہے ہیں،، اور یہ کہ چین اور یورپ دنیا کی نئی طاقت بنیں گے۔ یہ دلائل آج کتنے کھوکھلے لگتے ہیں۔ زمینوں کی قیمتیں آج پوری دنیا میں گر رہی ہیں۔ عالمی معیشت سست ہو رہی ہے۔ یورپی معیشت پہلے ہی سست روی کا شکار ہے اور مزید بینکوں کی ناکامی اور دیوالیہ پن جو ناگزیر ہے جس کی وجہ پیسے کی کمی ہو گی ، اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔یہ درست ہے کہ نئی بڑھتی ہوئی منڈیوں کے ممالک آگے بڑھ رہے ہیںلیکن ایسا سوچنا غلط ہو گا کہ وہ عمومی بحران سے علیحدہ رہیں گے کیونکہ سرمائے کی گردش سکڑ جائے گی اور اشیاءکی قیمتوں میں کمی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل کچھ عرصے پر محیط ہو گااور نا ہموار ہو گا۔ کچھ ممالک بحران میں جلد داخل ہو جائیں گے اور کچھ دیر سے۔ لیکن آخر میں وہ سب اس میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ بات اہم نہیں کہ کن ممالک میں بحران پہلے شروع ہو گا۔ اہم بات یہ ہے کہ جدید حالات میں یہ ناگزیر طور پر ایک ملک سے دوسرے میں اور ایک براعظم سے دوسرے میں داخل ہو گا۔ موجودہ صورتحال میں یہ امریکہ سے شروع ہوا ہے۔ ایسا ملک جہاں قیاس آرئیاں تمام حدیں عبور کر گئیں تھیں۔ اور اس کے بعد تمام معیشت دانوںکے خیالات کے بر عکس یہ آئرلینڈ، سپین ، برطانیہ ا ور یورپ کے دوسرے ممالک تک پھیل گیا۔ اس کے اثرات افریقہ، ایشا اور لاطینی امریکہ تک بھی پہنچیں گے۔ ایک کے بعد دوسرا ملک ریت کی دیوار کی طرح گرے گا۔ چین بھی بچ نہیں پائے گا، گو وہ ابھی تک آگے بڑھ رہا ہے۔ بحران کے دوران سرمایہ دار غیر معمولی اقدامات کرتے ہیں اور منڈی کے ایک حصے کو علیحدہ کرتے ہیں۔ وہ کم قیمتوں پر فروخت شروع کر دیتے ہیں اور اور اپنے مد مقابل کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے وہ بحران کو مزید گہرا کرتے ہیں اور افراط زر نیچے کی جانب پھیلتا ہے۔ لوگ اس خیال میں خریدار معطل کر دیتے ہیں کہ قیمتیں مزید نیچے آئیں گی۔ جس کی وجہ سے قیمتیں مزید گرتی ہیں۔ یہ عمل ہاو¿سنگ کی منڈی میں ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ مر ض وبا ءکی طرح ایک سے دوسرے ملک میں پھیلتا ہے۔ یہ ثابت ہو جائے گا کہ ہر ملک ضرورت سے زیادہ برآمد کر چکا ہے ،، یعنی پیدا کر چکا ہے،، اور زیادہ درآمد کر چکا ہے ،، یعنی زیادہ تجارت کر چکا ہے،، ۔ ،، اس کے لئے دیکھیں سرمایہ ، جلد تین، صفحہ چار سو اکاسی،،۔یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ وہ قرضوں کی حد سے بہت آگے نکل چکے ہیںاور افراط زرکی آگ کو بھڑکا چکے ہیں۔ جس کو بجھانا اب ضروری ہے خواہ اس کے لئے کتنی بھی تکلیف اٹھانی پڑے۔ یعنی معاملہ اب ایک یا دوسرے ملک کا ، کسی بینک یا فرد کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے۔ یہ درست ہے کہ کوئی بھی زوال ہمیشہ نہیں رہتا۔ ایک لمبے عرصے کے بعد توازن آجائے گا۔ قیمتیں مستحکم ہو جائیں گی، منافع خوری واپس آجائے گی اور ایک نیا سرکل دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ لیکن یہ ابھی تک دکھائی نہیں دے رہا۔ زوال ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس کا تو ابھی آغاز ہوا ہے۔ اور جیسا کہ کینز،، نے کہا تھاکہ ، ”اگر لمبے عرصے پر دیکھیں تو ہم سب نے مر جانا ہے“۔ واقعات کے بعد ذہین ہونا آسان ہوتا ہے۔ بورژوا معیشت دان ہو چکے واقعات کی بہت اچھی پیشن گوئی کر لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ پرانی وصیتوں کے مصنفین کی طرح ہیں جو ان تاریخی واقعات کی بالکل درست پیشن گوئی کرتے ہیں جو ہزاروں سال پہلے ہو گئے ہوتے ہیں۔ بے وقوف لوگ ان پیشن گوئیوں سے بہت خوش ہوتے ہیں لیکن سنجیدہ لوگ ان پر ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جو ہم مارکسسٹوں کا مذاق اڑاتے تھے کہ اب کوئی بحران نہیں آئے گا اب چھپنے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ انیس سو ساٹھ کے بعد سب سے بڑا بحران آیا ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی آج کی باتوں اور پچھلی باتوں میں اتنے بڑے تضاد پر توجہ نہ دے۔ سادی سی حقیقت یہ ہے کہ پچھلے بیس یا تیس سالوں میں بورژوا معیشت دانوں نے کچھ نہیں سیکھا،کوئی پیشن گوئی نہیں کی اور مستقبل کی کوئی تیاری نہیں کی۔ وہ اپنے عروج اور زوال کی پیشن گوئی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوںنے ہمیں باور کروانے میں دہائیاں صرف کر دی ہیں کہ عروج اور زوال ختم ہو چکے ہیں، بڑے پیمانے پر بیروزگاری ماضی کا حصہ بن چکی ہے، افراطِ زر کا دیو قابوکیا جا چکا ہے اور بہت کچھ۔ تمام اصلاح پسند سیاستدان ان باتوں پر یقین کرتے رہے۔ برطانیہ میں گورڈن براو¿ن بڑھکیں مار رہا تھا،”عروج اور زوال کا چکر ختم ہو چکا ہے“۔ اب جب وہ برطانوی معیشت زوال پذیر ہے تو وہ اپنی پیٹھ سہلا رہا ہے۔ یہ سب واضح کرتا ہے کہ بورژوا معیشت اس کے سوا کسی قابل نہیں کہ ایک زوال پذیراور دیوالیہ نظام کی توجیہہ پیش کی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے کیا پیشن گوئی کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئیں مارکسسٹوں کی پیشن گوئیوں کا بورژوا معیشت دانوں سے مقابلہ کریں۔ بورژوا معیشت دان اپنے ہی پراپیگنڈے پر یقین کر نے کی غلطی کرتے رہے تھے جبکہ مارکسی رجحان اصل حقائق بیان کر رہا تھا۔ انیس سو نینانویں میں لکھی گئی دستاویز ”چاقو کی نوک پر،عالمی معیشت کا تناظر“میں ہم نے یہ لکھا تھا، ”ماضی میں کہا جاتا تھا کہ فیڈرل ریزرو کا کردار یہ ہے کہ جب دعوت اپنے عروج پر پہنچ جائے تو وہ بجلی بند کر دے۔ لیکن اب ایسا نہیں۔ بظاہر عوام کے سامنے وہ مالیاتی معاملات سے دور رہنے کی بات کرتا ہے لیکن در حقیقت ایل گرین اسپین تاریخ کی سب سے بڑی مالیاتی قیاس آرائی کی بے ہودگی کو برداشت کرنے کی تیاری کر رہا ہے ۔ شاید اسے پتہ ہو کہ اس میں کتنا بڑا خطرہ پوشیدہ ہے۔ یہ اسی بادشاہ نیرو کی طرح ہے جو اس وقت بانسری بجا رہا تھا جب روم جل رہا تھا۔ صرف ایک چوتھائی فیصد یعنی صفر اعشاریہ پانچ شرح سود بڑھانے سے اس نے آگ پر تیل پھینکنے کا کام کیا ہے۔ اس لئے پرانا مقولہ درست لگتا ہے کہ ،” دیوتا جسے برباد کرنا چاہتے ہیں،اسے پہلے پاگل کر دیتے ہیں“۔ اسی دستاویز میں ہم نے لکھا تھا، ”جدید عہد میں ذرائع پیداوار کے لئے بنیادی رکاوٹ قومی ریاست اور ذرائع پیداوارکی نجی ملکیت ہے۔ لیکن کچھ عرصے کے لئے سرمایہ داری ان رکاوٹوں کو پھلانگ سکتی ہے اور اس کے لئے عالمی تجارت اور قرضوں کاجال وسیع کرنے کا طریقہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مارکس نے بہت پہلے سرمایہ دارانہ نظام میں قرضے کا کردار واضح کر دیا تھا۔ یہ ایسا ذریعہ ہے جو منڈی کو اس کی فطری حدود سے بہت آگے لے جاتا ہے۔ اسی طرح عالمی تجارت بھی کچھ عرصے کے لئے ایک رستہ بنتی ہے۔ لیکن اس کی قیمت مستقبل میں زیادہ بڑے بحران کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ ”سرمایہ دارانہ پیداوار ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔ لیکن یہ ان رکاوٹوں کو ایسے ذرائع سے عبور کرتی ہے جو اس کے لئے مستقبل میں وہی رکاوٹیں زیادہ بڑے حجم میں کھڑی کر دیتے ہیں۔“ ”سرمایہ دارانہ پیداوار کی اصل رکاوٹ خود سرمایہ ہے“ ۔ ،،مارکس، سرمایہ، جلد تین، باب پندرہ ، صفحہ دو ، تین۔ ”سرمایہ دارانہ پیداوار کی گردش دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ قرضے پر بھی انحصار کرتی ہے۔ زنجیر کی ایک کڑی کے حل کا انحصار دوسری کڑیوں کے حل پر ہوتا ہے۔ زنجیر بہت سے کڑیوں سے ٹوٹ سکتی ہے۔جلد یا بدیر ، قرضے کو کیش کی شکل میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ عروج کے دوران قرضے لینے والے لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ پھیلاو¿ کے پہلے مرحلے میں قرضہ پیداوار کو بڑھانے کا کام کرتا ہے۔’پیداواری عمل کی ترقی قرضے کو بڑھاتی ہے اور یہ قرضہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو بڑھاتا ہے‘۔ ،،مارکس ، سرمایہ ،جلدتین، صفحہ چار سو ستر۔ ”لیکن یہ سکے کا ایک رخ ہے ۔قرضے اور ادھار کا تیز پھیلاو¿منڈی کو اس کی فطری حدود سے باہر لے جاتا ہے۔ لیکن کسی خاص نقطے پر اسے واپس آنا ہوتا ہے۔ عروج کے دوران قرضہ لا محدود لگتا ہے، بالکل یونانی دیو مالاکی کارنوکوپیاکی طرح، جہاں کھانے پینے کی ہر چیز لا محدود تعداد میں موجود ہوتی تھی۔ لیکن جیسے ہی بحران کا آغاز ہوتا ہے یہ فریب کھل جاتا ہے۔ قرضوں کی واپسی میں تاخیر ہو جاتی ہے،گروی رکھی گئی اشیاءتباہ حال منڈی میں بیچی نہیں جا سکتیں اور قیمتیں گرنے لگ جاتی ہیں۔ عالمی منڈی کا وجود اس بنیادی عمل کو نہیں روک سکتا بلکہ اس عمل کو اپنا اظہار کرنے کے لئے بڑا اسٹیج دیتا ہے۔ آخری تجزئے میں قرضوں کا مجتمع ہونا بحران کو مزید گہرا اور لمبا کر دیتا ہے۔ جاپان کی حالیہ تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے۔ ایک دہائی کے عروج کے بعد جس میں اثاثوں اور شئیرز کی قیمتوں میں تیز ترین اضافہ ہوالیکن شرح سود میں اضافے کے بعد یہ بلبلہ پھٹ گیا۔ یہ صورتحال موجودہ امریکی صورتحال سے مشابہہ تھی۔ پچیس دسمبر انیس سو اننانویں کو بینک آف جاپان نے شرح سود بڑھائی جس سے شرح سود میں بڑی گراوٹ آئی۔ لیکن چونکہ زمین کی قیمتیں اس کے باوجود بڑھ رہیں تھیں اس لئے شرح سود کو مزید بڑھانا پڑا۔ آخر کار شرح سود چھ فیصد تک بڑھا دی گئی جس کے بعد شئیرزکی قیمتوں میں چالیس فیصد تک گراوٹ آئی۔ اس کے بعد سے بینک آف جاپان نے شرح سود میں کمی نہیں کی۔ اس وقت معیشت دان بینک آف جاپان کی ذہانت کی داد دے رہے تھے کہ انہوں نے معیشت کو بہتر انداز میں سنبھالا۔ لیکن اس کا نتیجہ ایک دہائی تک لمبے زوال کی شکل میں نکلا۔ ”گلوبلائزیشن اور قرضوں اور مالیاتی لین دین پر پابندیوں کے خاتمے کے بعد پھیلاو¿ کے مواقع اتنے بڑھ چکے ہیں جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ اور نہ ہی عالمی بحران کے مواقع پہلے اتنے تھے۔ لیکن ایسا نہیں کہ بحران مصنوعی سرمائے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں یا اسٹاک ایکسچینج کے فریب اور قرضوں کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے۔ مارکس سرمایہ کی تیسری جلدمیں اس کی وضاحت کرتا ہے۔ ”ہم ان قیاس آرائیوں اور تبادلوں کو بھی اہمیت نہیں دیتے جن کی قرضوں کا نظام حمایت کرتاہے۔ اس طرح ایک بحران کو اسی صورت بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ سرمایہ داروں کی کھپت اور ان کی دولت کے ارتکاز کے درمیان پیداوار کا عدم تناسب ہے۔ پیداواری شعبے میں لگائے گئے سرمائے کی جگہ دوسرا سرمایہ لانے کا زیادہ تر انحصارغیر پیداواری طبقوں کی قوت خرید پر ہے۔ کیونکہ محنت کشوں کی قوت خرید ان کی کم اجرتوں کی وجہ سے محدود ہوتی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ انہیں صرف اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جب وہ سرمایہ دار طبقے کے لئے منافع پیدا کر سکیں۔ تمام بحرانوں کی حتمی وجہ عوام کی غربت اور ان کی محدود قوت خرید ہی ہے نہ کہ سرمایہ داروں کی ذرائع پیداوار کو ترقی دینے کی کوشش، کیونکہ سماج کی حتمی قوت خرید ہی ان سرمایہ داروں کی آخری حد ہے“ مارکس، سرمایہ ، جلد تین، صفحہ چار سو باہتر،، عالمی تجارت کا پھیلاو¿ اورایشیا میں نئی منڈیوں کا آغازبھی عارضی عروج کا باعث بنا ہے لیکن اس کی قیمت مستقبل میں بڑے بحران کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔ آنے والے دنوں میں حالات اسی رخ پر مڑیں گے“۔ یہ سطور آج سے ایک دہائی پہلے لکھی گئیں تھیں۔ جب بورژوا معیشت دانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بحران کے امکانات کو رد کر رہی تھی۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں۔ کون عالمی معیشت کے عمل کو بہتر سمجھتا تھا، اور کس نے درست پیشن گوئیاں کی تھیں۔ بورژوا معیشت دانوں نے یا مارکسسٹوں نے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا چین دنیا کو بچا سکتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانا محاورہ ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ اس بحران میں گھرے بورژوا معیشت دان اور ان کے معذرت خواہ ڈوبنے سے بچنے کے لئے تنکا ڈھونڈ رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک ان کی امیدیں چین اور ایشیا کے دوسرے ممالک سے بندھی ہوئی تھیں۔ لیکن چین کی معیشت اب مکمل طور پر عالمی معیشت سے جڑ چکی ہے اور عالمی منڈی کی ہیجان انگیزی کے اثرات اس پر مرتب ہوں گے۔ جیف ڈائر کافنانشل ٹائمز میں حال ہی میں ایک مضمون آیا ہے جس کے عنوان میں ہدایت کی گئی ہے ،” بیجنگ کا بوجھ چین کی سست روی عالمی معیشت کے لئے برا شگون ہے“۔ امریکی زوال کے باوجود چین کی برآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیںاور دو ہزار آٹھ کے پہلے آٹھ ماہ میں ا ن میں بائیس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی کمپنیاں دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں مسلسل منڈیاں ڈھونڈ رہی ہیں۔ لیکن یہ ناگزیر کے ہونے میں تاخیر پیدا کر رہا ہے۔ وال سٹریٹ کے بحران کے بعد اور یورپ اور جاپان میں معیشت کے ٹھہراو¿ کے بعد اب سرمایہ کار پوچھ رہے ہیں کہ کیا چین بھی بحران میں داخل ہو گا۔ پانچ سال کی تیز ترین ترقی کے بعد اب چین واضح طور پر سست ہو رہا ہے۔ آٹھ فیصد سے کم کی شرح ترقی چین اور عالمی معیشت کے لئے نقصان کا باعث بنے گی۔ معیشت دان چین کے بینکاری کے شعبے کے بارے میں بھی پریشان ہیں۔ برآمدی منڈی میں مشکلات کا آغاز ہو چکا ہے۔ گوانگڈانگ کے صوبے میں گارمنٹ انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار ہے۔ صوبائی اعداد و شمار کے مطابق جنور ی سے جولائی تک گارمنٹ کی برآمدات میں پچھلے سال کی نسبت اکتیس فیصد کمی آئی جو اب تیرہ اعشاریہ تین ارب ڈالر ہے۔ پلاسٹک کی اشیاء، کھلونے،لیمپ اور دوسری اشیاءکی پیدوار میں بھی ٹھہراو¿ ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی امریکہ سے طلب کم ہو رہی ہے جہاں ریٹیل کی اشیاءکی فروخت میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گوانگڈانگ کی امریکہ میں برآمدات میں پھیلاو¿ میں اس سال کے پہلے سات ماہ میں چھ اعشاریہ تین فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں۔ یورو کی مضبوطی اور گوانگڈانگ سے یورپ برآمدات میں ستائیس فیصد اضافے کی وجہ سے امریکہ کی سکڑتی ہوئی منڈی کا متبادل ملا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں یورپ میں بھی منڈی سکڑے گی ، اور وہ بھی چین کی ایک بڑی منڈی ہے۔ اور پھر اس سے چین کی برآمدات اثر انداز ہوں گی۔ شنگھائی میں ایک معیشت دان اسٹیفن گرین کا کہنا ہے کہ ”یہ طوفان سے پہلے سکوت والی صورتحال ہے“۔ جائیداد کی منڈی کے بارے میں زیادہ سنجیدہ شبہات پائے جاتے ہیں۔ اور اسی منڈی میں بڑی سرمایہ کاری کی بدولت چین کی معیشت کو زیادہ تر عروج حاصل ہوا ہے۔ جائدا دکی فروخت میں کمی آئی ہے اور تعمیراتی کام بھی اگست میں کم ہوا ہے۔ جبکہ لوہے، سیمنٹ اور اے سی کی پیداوارمیں بھی کمی آئی ہے۔ ایسا عمل جو معیشت کی کمزور ی کی نشاندہی کرتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق قرضے جاری کرنے کی رفتار میں بھی کمی آئی ہے۔ شنگھائی میں مارگن سٹینلے کے تجزیہ نگار جیری لو کے مطابق ،” چین میں جائداد کے کاروبار میں تیز کمی کے امکانات بہت زیادہ ہیں“۔ اگر اگلے سال جائداد کی قیمتوں میں کمی آتی ہے تو بینکنگ کے شعبے کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر اگلے سال شرح ترقی آٹھ فیصد سے نیچے گرتی ہے تو مکانوں کی قیمتیں بھی تیزی سے گریں گی جس کی وجہ سے نجی سرمایہ کاری تباہ ہو جائے گی۔ اس کے شدید سماجی اور سیاسی نتائج نکلیں گے۔ معیشت کے دوسرے حصوں میں بھی خطرے کی وارننگ مل رہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کے کریش سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔ شہروں میں بسنے والے لوگوں کی آمدن میں اضافے کی شرح اس سال تیزی سے کم ہوئی ہے۔ پچھلے ماہ کاروں کی فروخت میں چھ فیصد کمی آئی ہے اور ان گرمیوں میں ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔ چین میں الیکٹرانکس کی اشیاءکی سب سے بڑی تاجرکمپنی گوم کے مطابق اس کی دوکانوں پر فی مربع میٹر اشیاءکی فروخت میں اس سال کی دوسری سہ ماہی میں تین فیصد کمی آئی ہے۔ حکومت نے شرح سود میں کمی کی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ انہیں ایک بحران کا خوف ہے ۔ وہ معاشی پالیسی میں ردوبدل اس لئے نہیں کر رہے کیونکہ انہیں افراط زر کا خوف ہے۔ فروری میں افراط زر آٹھ اعشاریہ سات فیصد تک جا پہنچا جو اگست میں واپس چار اعشاریہ نو فیصد تک آگیا۔ سینٹرل بینک کے سربراہ ژوژیاو¿چوان نے اس ماہ کہاکہ ،”بے شک افراط زر پچھلے کچھ ماہ میں کم ہوئی ہے، لیکن ہم سہولت نہیںدے سکتے کیونکہ یہ دوبارہ بڑھ سکتی ہے“۔ چین میں بحران یا پھر شرح ترقی میں گراوٹ کے عالمی منڈی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ جس کے افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے پیداواری ممالک پر سب سے پہلے اثرات مرتب ہو ںگے۔ مثال کے طور پر پچھلے دو ماہ میں تانبے کی قیمتوں میں تائیس فیصد کمی آئی ہے جس کی بڑی وجہ چین میں اس کی کھپت میں کمی کی قیاس آرائی ہے۔ اور یہ کھپت اس سال پہلے کی نسبت آدھی رہ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیاس آرائی کرنے والے اور کالی دولت والوں کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منڈی یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک غصہ اور نفرت بڑھ رہی ہے۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کا بورژوا سیاستدان الیک سالمنڈ لوگوں کے غم و غصے کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام سے ہٹا کر ایک مخصوص سرمایہ دار طبقے کی جانب کروانا چاہتا ہے۔ کالی دولت کا دھندہ کرنے والے اور قیاس آرائیاں کرنے والے۔ اچانک سیاستدانوں میں یہ بات فیشن بن گئی ہے کہ وہ اس پراسرارقسم کے لوگوں کی مذمت کریںجنہوں نے ابتدا میں بینک آف سکاٹ لینڈ بنایا تھا۔ اس بینک کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تین سو سال سے موجود ہیں اور نپولین کی جنگوں، وال سٹریٹ کے کریش اور پہلی جنگ عظیم کے باوجود قائم رہے او رصرف چند کالی عینکیں لگائے ہوئے لالچی لوگوں نے اسے تباہ کر دیا۔ اس قسم کی وضاحت کچھ واضح نہیں کرتی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ چند لالچی لوگ اتنی بڑی طاقت کو تباہ کر دیں؟یہ کون لوگ ہیں؟ان کے کیا نام ہیں؟وہ کہاں رہتے ہیں؟کوئی نہیں جانتا۔ لیکن بحران کے دوران کسی پر الزام دھرنا ہمیشہ فائدہ مند رہتا ہے اور جتنا ہی ملزم انجان ہو اور اسے ڈھونڈا نہ جا سکتا ہو، اتنا ہی بہتر ہے۔ اچانک یہ قیاس آرائی کرنے والے اور کالی دولت اکٹھے کرنے والے معیشت میں وہی کردار ادا کرنے لگے ہیں جو القاعدہ عالمی سیاست میں کر رہی ہے۔ حقیقت میں تمام بینکار اورسرمایہ دار کالی دولت اکٹھے کرنے والے اور قیاس آرائیاں کرنے والے ہیں۔ ان کو ایسا ہی ہونا چاہئے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی کالی دولت اور قیاس آرائی پر ہے۔ اس کی بنیاد لالچ پر بھی ہے۔ لالچ کو رد کرنے کا مطلب منڈی کی معیشت کو رد کرنا ہے جس کی بنیاد ہی منافع کے حصول اور لالچ پر ہے۔ منافع کا لالچ ہی سرمایہ دارانہ نظام کو اس کے جنم سے لے کر اب تک چلا رہا ہے۔ ہاں لیکن وہ اب بہت زیادہ لالچی ہو گئے ہیں اور بہت زیادہ پیسہ کما رہے ہیں۔ پیٹر جی پیٹرسن فاو¿نڈیشن کے صدراور سربراہ اور سابق امریکی کمپٹرولر جنرل ڈیوڈ واکر کا کہنا ہے۔ ’ ’کیا اس موجودہ بحران کے کچھ اسباق ہیں؟ جواب ہاں میں ہے۔ موجودہ اقدامات اس لئے کرنے پڑ رہے ہیں کیونکہ اس سے پہلے حکومت قرضوں کو، قرضوں پر لئے جانے والے قرضوں کو(derivatives) اور سیکیورٹیز کو ریگولیٹ نہیں کر سکی یا ان کے لئے خصوصی قانون سازی نہیں کر سکی۔ ہر طرف لالچ برپا تھی۔ فین مے اور فریڈی میک اپنے اصل عوامی مقصد سے ہٹ کر منافعوں کے حصول اور ذاتی مفادات میں گم ہو گئیں تھیں۔ وال سٹریٹ کی طاقتور لابی اور فریڈی میک اور فینی مے کی لابی نے قانون سازی نہیں ہونے دی“۔،، فنانشل ٹائمز بائیس ستمبر دو ہزار آٹھ،، ۔ یہ بالکل درست ہے۔ محنت کشوں کو اچھے نتائج دینے پر بونس دیا جاتا ہے لیکن مالکان اپنے آپ کو خود ہی بڑی مقدار میں بونس دئے جاتے ہیں خواہ نتائج کچھ ہی ہوں۔ جب کمپنی اچھی چل رہی ہو تو ملازم شاید تھوڑا بہت فائدہ منافع کی شکل میں حاصل کر لیں۔ لیکن مالکان اپنے آپ کو لاکھوں ادا کرتے ہیں۔ اور جب کمپنی ٹھیک نہ چل رہی ہو تو ملامین کو کچھ نہیں ملتا لیکن مالکان کی تنخواہیں اسی طرح برقرار رہتی ہیں۔ اور جب کمپنی دیوالیہ پن کے قریب پہنچ جائے تو تو ملازمین کو کچھ دئیے بغیر نکال دیا جاتاہے،، اکثر پنشن کے بغیر ہی،، جبکہ مالکان جنہوں نے کمپنی کو تباہ کیا ہے گولڈن شیک ہینڈ کے نتیجے میں بڑی رقوم حاصل کرتے ہیں۔ یہ حقائق عام ہیں۔ کئی سالوں سے ملازمین ناانصافی اور نا برابری کی شکایت کر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ معیشت آگے جا رہی تھی اور منڈی ہر ایک کو فائدہ دے رہی تھی اور اخبارات ، ٹی وی پر ان تجزیوں کی بوچھاڑ کی جا رہی تھی اور تمام جماعتوں کے سیاستدان اس بات پر متفق تھے اس لئے عوام نے یہ قبول کر لیا کہ ”جو کچھ دولت مندوں کے لئے اچھا ہے ان کے لئے بھی اچھا ہو گا“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ براو¿ن کی بے وقوفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بحر اوقاینوس کے دوسری طرف امریکہ میں ہونے والا عمل دہرایا جا رہا ہے لیکن ایک مزاحیہ شکل میں۔ لیبر پارٹی کی کانفرنس میں براو¿ن نے شہر کی ’غیر ذمہ داری‘ کی بات کی اور کہا کہ بونس’ناقابل قبول‘ ہیں۔چانسلر ایلسٹر ڈارلنگنے بھی یہی بات دہرائی۔ لیکن ان کے حملے ایسے ہی تھے جیسے کوئی شخص گینڈے پر جھاڑو لے کر حملہ کرے۔ جان میکین اور بارک اوباما کے وال سٹریٹ کے بارے میںسخت بیانات کے مقابلے میں یہ پانی کی طرح انتہائی نرم ہیں۔ براو¿ن اور ڈارلنگ کی لیبر پارٹی کی کانفرنس میں جھکی ہوئی کمر اور لٹکا ہوا منہ اس لئے تھا کیونکہ وہ پورے لندن شہر میں کاسہ لے کر گھومتے رہے ہیں اور انہیں کمر سیدھی کرنے کا وقت نہیں ملا۔ ایسی صورتحال میں جب لاکھوں لوگوں کی نوکریوں کو خطرہ ہے ، ان کے گھروں اور بچتوں کو خطرہ ہے ایک بے وقوف اصلاح پسند بھی بتا سکتا ہے کہ منافع خوروں اور فراڈکرنے والوں کے خلاف بات عوام کوپسند آئے گی۔ یہ لیبر پارٹی کے ان لیڈروں کی بے وقوفی اور جہالت کا ثبوت ہے کہ وہ بڑے کاروباریوں پر جعلی حملے بھی نہیں کر سکتے جیسا کہ اوباما اور میکین کر رہے ہیں۔ وہ چرچ آف انگلینڈ سے بھی کم تنقید کر رہے ہیں جس کی دو اہم شخصیات نے مالیاتی تاجروں کی بد عنوانی کی مذمت کی ہے۔ ،،جریدے تماشائی،، میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں آرچ بشپ آگ کینٹربری ڈاکٹر روون دلیمز نے لکھا ہے ، ”کاغذوں پر تجارت جس کا ٹھوس نتیجہ تاجروں کے لئے منافع کے سوا کچھ نہیں۔ جب یہ تجارت خراب ہوئی تو تو اس نے حقیقی اور تکلیف دہ نقصان پہنچایا©ہے©“۔ ڈاکٹر ولیمز ہماری توجہ مالیاتی صنعت میں قرضوں کی تجارت پر دلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ قرضے”بغیر احتساب کے ، گزشتہ کچھ سالوںمیں اقتصادی مفادات کے لئے بہت لوگوں کے لئے انجن کا کام کرتے رہے ہیں۔ موجودہ مالیاتی بحران صورتحال میں موجود بنیادی غیر حقیقی پن کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حیران کن حد کی افسانوی تجارت سے، کاغذوں کے تبادلے سے اور تاجروں کے لئے منافع کے سواکسی ٹھوس نتیجے کے بغیر حیران کن حدتک دولت پیدا کی گئی ۔اس عمل سے سماجی استحکام کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہو چکا ہے اس لئے مالیاتی دنیا اب بغیر کسی قانون اور ریگولیشن کے مزید نہیں چل سکتی “۔ یہاں ہمیں تمام معاملے کا نچوڑ ملتا ہے۔ سرمایہ داری کے نمائندے ،،جن میں مذہبی نمائندے بھی شامل ہیں،، اپنے پیروں تلے زمین کو کانپتا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ وہ اس بحران کے سیاسی اور سماجی نتائج سے خوفزدہ ہیں جو سماجی استحکام کو خطرے سے دوچار کر رہا ہے۔ اور وہ اب حکومت سے اورمالکان سے اپیل کر رہے ہیں کہ کچھ کرو اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ لیکن ڈاکٹر ولیمز کیا حل تجویز کرتے ہےں؟وہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات عوام کو’ غربت سے نکالنے کے لئے ، اور آزاد معیشت کو ترقی دینے کے لئے ’قانون سازی نرم ‘کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایک نیک خیال ہے جس کااس گناہگار دنیا میں پوراہونا ناممکن ہے۔ آرچ بشپ آف یارک ڈاکٹر سینٹامو نے اس سے زیادہ کڑی تنقید کی۔ گزشتہ ہفتے جب ایچ بی او ایس کے شئیر دھڑام سے گر گئے تو ایک بڑے برطانوی بینک ٹی ایس بی لائڈزنے اعلان کیا تھا کہ وہ ایچ بی او ایس کو بارہ اعشاریہ دو ارب پونڈ میں خرید لیں گے۔ اس خرید و فروخت کے بعد بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ یہ تاجر قرضوں کو ان کی موجودہ قیمت سے کم میں بیچ رہے ہیں۔ اور وہ یقین سے کہہ رہے ہیں کہ ان کی قیمت میں مزید کمی واقع ہو گی۔ ڈاکٹر سینٹامونے عالمی بینکاروں کے سالانہ ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کہا،”ہم ایک ایسی منڈی کے نظام میں آگئے ہیںجو اپنے قوانین افسانوی کہانیAlice in Wonderlandسے اخذ کرتی ہے۔ میرے جیسے عام شخص کے لئے وہ لوگ جنہوں نے ایچ بی او ایس کے شئیر کم قیمت پر فروخت کر کے انیس کروڑ پونڈ کمائے چور اور ڈاکو ہیں“۔ ایک مذہبی آدمی کی طرف سے اتنی سخت زبان غیر متوقع تھی اور عالمی بینکاروں کا سالانہ ڈنر یقیناً بد ذائقہ ہو گیا ہو گا۔ یہ بینکار بشپ کے امریکی حکومت کے سات سو ارب ڈالر کے منصوبے کے متعلق خیالات سن کر بھی کافی ناخوش ہوئے۔ بشپ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر غربت ختم کرنی ہے تو مالیاتی نظام مضبوط کرنا ہو گا۔ اس نے کہا،”مالیاتی بحران میں دلچسپ بات یہ ہے کہ غربت کے خاتمے کی بات ممکن نظر آتی ہے۔ ساٹھ لاکھ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لئے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ عالمی لیڈرز بینکنگ کے نظام کو بچانے کے لئے ایک ہفتے میں اس سے ایک سو چالیس گنا زیادہ رقم لے آئے ہیں۔ وہ ہمیں اب کیسے کہہ سکتے ہیں کہ غریبوں کے لئے کام کرنا بہت مہنگا ہے؟“ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت عالمی لیڈر امریکہ میں دو ہزار پندرہ تک غربت کے خاتمے اور معیار زندگی میں بہتری کے حوالے سے لئے گئے ٹارگٹ پر غور کر رہے ہوں گے۔ ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ آرچ بشپ کے سخت الفاظ کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے، لیکن ہمارا سار اتجربہ ہمیں شک میں مبتلا کر دیتاہے۔ فنانشل ٹائم لکھتا ہے، ”عروج کے دنوں میں بھی جب لوگ اپنی آمدن کا مقابلہ چند لوگوں کے بڑے بڑے بونس سے کرتے ہیں توبہت کم لوگ مسکراتے ہیں “۔ ’ ’عام حسد اب نفرت میںبدل رہا ہے۔ پہلے مالیاتی بحران کے جو نقصانات معصوم لوگوں کو اٹھانے پڑے اور اب وہ خالی چیک جو ٹیکس گزاروں کو ان بینکاروں کو دینے پڑ رہے ہیں۔ اس کے خلاف رد عمل شروع ہو چکا ہے۔ موٹی موٹی رقمیں صرف ان شئیر ہولڈرز کے لئے ہیںجو پہلے ہی امیر ہیں“۔ ” بہت سے سرمایہ کار مینجروں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی گئیں جو بظاہر تو اچھا کر رہے تھے لیکن اس میں ایک بحران کے بیج تھے۔ قیامت آچکی ہے، سرمایہ کار ختم ہو چکے ہیں، اب ٹیکس گزار لائن میں لگے ہیںاور ابھی بھی مینجر بڑے بڑے بونس لے رہے ہیں“۔ اور توازن درست کرنے کے لئے وہ آگے لکھتے ہیں، ”اس لئے مسٹر براو¿ن اور مسٹر ڈارلنگ نے بڑی تنخواہوں پر دھیان دینے کے بجائے ان اسکیموں پر غور کیا ہے جو جواریوں کو پیسے دیتی ہیں“۔ یہ حقیقت کہ جو لوگ شئیر خریدتے اور بیچتے ہیں جواری ہی ہیں اور اسٹاک مارکیٹ میں تجارت ایک جوا ہے، ہوشیاری سے نظر انداز کر دی گئی ہے۔ فنانشل ٹائمز کا صحافی لکھتا ہے ، ”اگلا قدم اب فنانشل سروس اتھارٹی ایف ایس اے کو لینا ہو گا۔ لیکن مسئلے کی نشاندہی کرناآسان ہے اسے حل کرنا مشکل۔ چیلنج یہ ہے کہ تاجروں اور سرمایہ کار مینجروں کو ان کی اصلی پرفارمنس پر نوازا جائے۔ اگر یہ اتنا آسان ہوتا تو شئیر ہولڈر پہلے ہی ایساکرتے۔ ایک غلط نقطہ نظر یہ ہے کہ لمبے عرصے کی پرفارمنس پر بونس دیا جائے۔ ادائیگی اس وقت کی جائے جب ساری گرد بیٹھ جائے یا اس بات پر اصرار کیا جائے کہ مینجر اپنی دولت کا کچھ حصہ بھی خطرے میں ڈالیں۔ لیکن سخت قانون بنانا ابھی بہت مشکل ہے۔ جو عملی قدم اٹھایا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ایف ایس اے کو کوئی پر کشش مو قع یا لالچ دے جس سے تمام مالیاتی کمپنیاں اپنے استحکام کا دوبارہ تجزیہ کریں۔ اس کوشش سے زیادہ خوش کن امیدیں تو نہیں لگائی جا سکتیں لیکن مینجروں کے بونس پر پابندی لگانے سے الٹا نقصان ہو گا۔ ایسے قوانین کو، رسک چھپا کر یا غیر ممالک میں بھیج کر، آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔ نیو لیبر کی پالیسیاںواضح طورپر فنانشل ٹائم کے حالیہ اداریے سے ہی بن رہی ہیں ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”مجتمع معیشت“ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لینن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ سیاست مجتمع شدہ معیشت ہوتی ہے۔ موجودہ معاشی بحران جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ، اس کے تمام طبقات کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جس کا آغاز خود سرمایہ داروں سے ہو رہا ہے۔ جب سرمایہ داری آگے کی جانب بڑھ رہی تھی اس وقت بورژوا نظریات کا دباو¿ محنت کش طبقے پر اور اس کی تنظیموں پر دگنا تھا۔ برطانیہ میں پچھلی دو دہائیوں سے کوئی سنجیدہ بحران نہیں آیا تھا۔ اس لئے بورژوا سیاستدانوں اور معیشت دانوں کے دلائل ،کہ ”آزاد منڈی “کرشماتی خصوصیات رکھتی ہے، کی گونج محنت کش طبقے خاص کر اس کی قیادت میں سنائی دے رہی تھی۔ یہ سوشل ڈیموکریسی اور پورے یورپ کی’کمیونسٹ‘ پارٹیوں اور ٹریڈ یونینز کی زوال پذیری کی مادی بنیادیں تھیں۔ برطانیہ جو پچھلی تین دہائیوںسے سرمایہ دارانہ رد انقلاب کی قیادت کر رہا ہے، وہ سر زمین ہے جہاں انتھونی بلئیر کی قیادت میں نیو لیبرازم کا جنم ہوا۔ مزدور تحریک کے کارکنان کے لئے یہ عہد ایک ڈراو¿نا خواب تھا جو ختم نہیں ہو رہا تھا۔ عوامی تنظیموں کی قیادتوں کی زوال پذیری تمام حدیں عبور کر چکی تھی۔ کوئی ایسی گہرائی نہیں تھی جس میں غرق نہ ہوئے ہوں۔ کوئی ایسا عمل نہیں رہ گیا تھا جو انہوں نے حکمران طبقے اور منڈی کو خوش کرنے کے لئے نہ کیا ہو۔ کارکنوں کی مایوسی کی وجہ سے لا تعلقی بڑھی اور روایتی عالمی تنظیمیں خالی ہونا شروع ہو گئیںجن میں درمیانے طبقے کے لوگ نوکریوں اور کیرئیر کے لالچ میں گھس گئے۔ اس کی وجہ سے وہ دائیں بازو کی جانب مزید جھکیںاور محنت کشوں کی بد اعتمادی اور بڑھی۔ یہ ایک گھناو¿نا چکر تھا جو اب تک چل رہا تھا۔ لیکن اب حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ انسانی شعور عام طور پر رجعتی ہوتا ہے۔ لوگ عموماً تبدیلی سے گھبراتے ہیں اور موجود چیزوں سے چپکے رہتے ہیں۔ عادت، روٹین اور روایات عوام کے شعور پر حاوی رہتی ہیں اوراس وجہ سے وہ بڑے واقعات سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں مخصوص لمحوں پر واقعات کی رفتار میں تیزی آتی ہے جسے شعورایک دھماکے کے ساتھ جکڑ لیتا ہے۔ ہم ایک ایسے ہی مخصوص لمحے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ جو بات صنعتی ممالک کے لئے درست ہے وہی بات ”تیسر ی دنیا“ کے ممالک کے لئے دس گنا زیادہ درست ہے۔ ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں انتہائی غربت میں رہنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میںرہنے والے ایک چوتھائی بچوںکا وزن اوسط سے کم ہے۔ ہر سال پانچ لاکھ سے زائد عورتیں زچگی کے مسائل کی وجہ سے مر جاتی ہیں۔ اور ترقی پذیر ممالک کی شہروں میں رہنے والی آبادی کا ایک تہائی جھونپڑ پٹیوں میں رہتا ہے۔ انٹر امریکن بینک کی اس سال کی ایک رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دو کروڑ ساٹھ لاکھ مزید لوگ غربت کی انتہاو¿ں میں غرق ہو جائیں گے۔ یہ اس وقت ہو رہا تھا جب پوری دنیا ایک معاشی عروج سے گزر رہی تھی۔ سرمایہ داری کے پاس دینے کے لئے یہ بہترین تھا۔ اب بحران کے حالات میں کیا ہو گا؟ ہم ایک عالمی عمل دیکھ رہے جو انقلابی صورتحال سے حاملہ ہے۔ لہٰذا گلوبلائزیشن کا مطلب سرمایہ داری کا عالمی بحران ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حل کیا ہے؟ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ یہ دلیل دی جارہی ہے کہ موجودہ بحران مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس میں مالیاتی نظام،، خاص کر امریکہ ،، کے بہت زیادہ رسک لینے کے اقدام کو کنٹرول نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد دلیل دی جاتی ہے کہ ہمیںیقینی بناناہو گاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ یہ بہت دلچسپ ہے!کیونکہ پچھلی تین دہائیوں سے بورژوا معیشت دان اور سیاستدان اس کے بر عکس دلیل دیتے تھے کہ مالیاتی نظام پر تمام پابندیاں غلط ہیں اور انہیں ختم ہونا چاہئے۔ انتہائی بڑے بڑے بونس کو ختم کرنے اور قانون سازی کرنے کی تمام باتیں دھوکہ اور فریب ہیں۔ یہ معجزے کیسے ہوتے ہیں؟اس کا میکانزم کیا ہوتا ہے؟بینکاروں کے پاس قانون سازی سے بچنے کے ہزاروں راستے ہیں۔ وہ تمام کھاتیں خفیہ رکھتے ہیں جسے قانون نافذ کرنے والوں کے لئے اس فراڈ کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی حکومت اپنا بجٹ خسارہ چھپانے کے لئے اسی قسم کے حربے استعمال کرتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹوں کی قانون سازی کی بات کرنا بالکل بے وقوفانہ ہے۔ جیسے ’کم بیچنے‘ پر ،،عارضی،، پابندی لگانے کا فیصلہ۔ منڈیوں کے کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ شئیرز کی خرید و فروخت کریں۔ اور یہ وہ اسی بنیاد پر کریں گے کہ کیا شئیر کی قیمت بڑھے گی یا کم ہو گی۔ یہ خیال کہ صرف اس بات کی اجازت دی جائے کہ شئیر صرف اس وقت خریدا جائے جب اس کی قیمت بڑھ رہی ہو بالکل بے وقوفانہ ہے۔ قرضوں کی ریٹنگ کرنے والی ایجنسیاں جن کا کام اچھے قرضوں کو خراب قرضوں سے علیحدہ کرنا تھا ، بنیادی خطرات کو نظر انداز کر کے ریٹنگ کر رہی تھیں۔ اسی طرح فینے مے اور فریڈی میک کے امریکی قرضے خریدنے والے اس بات پر خوش تھے کہ اس کی گارنٹی امریکی حکومت نے دے رکھی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج امریکی ٹیکس گزار کے سامنے پانچ ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ہے اور یہ کہنا ابھی مشکل ہے کے حتمی بل کیا ہوگا۔ نتیجہ واضح ہے۔ یا تو ایک آزاد منڈی کی معیشت ہو جس میں منافع حاصل کئے جائیں یا پھر ایک منصوبہ بند نیشنلائزد معیشت ہو۔ لیکن ”قانونی سرمایہ داری“ اصلاحات کا تضاد ہے۔ ایک اور مضمون میں فنانشل ٹائمز اس سوال کو واضح انداز میں سامنے لاتاہے۔ ”سیاست دان خواہ کتنے ہی روشن خیالات لے کر آئیں اور ان مینجروں کی تنخواہوں پر پابندی لگانے کے لئے قانون سازی کی جائے لیکن مالیاتی نظام کے روشن دماغ اس قانون کا توڑ نکال لیں گے یا پھر معیشت کے اس قانونی حصے کو خیر باد کہہ دیں گے“۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بھدے جوا خانوں کو بند کیا جائے جو لاکھوں لوگوں کی قسمتوں کا فیصلہ کرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ انتشار کی جگہ منصوبہ بند معیشت پر مبنی ایک معاشرہ قائم کیا جائے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ براو¿ن اور بش کے اقدامات نیشنلائزیشن ہیں۔ لیکن اس بات کا نیشنلائزیشن کے سوشلسٹ تصور سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے ۔ ہمارا مقصد ایسی نیشنلائزیشن ہے جو معاشی طاقت ،، دولت مند جونکوں ،، سے لے لی جائے جو سماج پر بوجھ ہیں اور اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس کے بر عکس یہ لوگ ان جونکوں کو سبسڈی دے کر ان کو تحفظ دینا چاہتے ہیں اور اس کے لئے تمام رقم محنت کش اور درمیانے طبقے کی جیبوں سے نکالی جائے گی۔ سوشلسٹ ان پالیسیوں کو رد کرتے ہیں جن کا حقیقی نیشنلائزیشن سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ریاستی سرمایہ داری کی ایک قسم ہے جس کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینا ہے۔ اس سے ناگزیر طور پر اجارہ داریوں میں اضافہ ہو گا،بڑے پیمانے پر بیروزگاری بڑھے گی،بینک بند ہوں گے اور مزید مزدور دشمن اقدامات کئے جائیں گے۔ حکومت بینکاروں کو ان کی مجرمانہ سرگرمیوں پر نوازتی ہے۔ ان کے تمام نقصان کو خرید لیتی ہے اور ٹیکس گزروں کی رقم خرچ کر کے ان کے نقصان کو فائدے میں بدل دیتی ہے۔ اور جب یہ مکمل ہو جاتا ہے تو انہیں واپس بینکاروں کو دے دیتی ہے جو اس سے سماج کا دگنا قتل عام کریں گے۔ وہ اپنی چوری اور قیاس آرئی دوبارہ شروع کر دیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کے بڑے اداروں کو نجی ہاتھوں سے نکالا جائے، بینکوں اور انشورنس کمپنیوںکو بغیر کچھ ادا کئے نیشنلائز کیا جائے۔ جب ذرائع پیداوار سماج کے ہاتھوں میں ہوں گے صرف اس وقت ہی ایک منطقی سوشلسٹ منصوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں فیصلے چند دولت مند جونکوں اور قیاس آرائی کرنے والوں کے لئے نہیں بلکہ پورے سماج کے مفاد میں کئے جائیں گے۔ یہی سوشلزم کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جسے پہلے انجان کہا جارہاتھا لیکن اب اسے لاکھوں لوگ سمجھیں گے ۔ نیویارک کی سڑکوں پر بش کے منصوبے کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ سوشلسٹ نہیں تھے۔ ایک سال پہلے یہ شاید آزاد منڈی کے محافظ تھے۔ انہوں نے کبھی بھی مارکس کو نہیں پڑھا اور ان کی حب الوطنی پر بھی کسی کو شک نہیں۔ لیکن زندگی سکھاتی ہے اور ان حالات میں لوگ اتنا سیکھتے ہیں جتنا شاید پوری زندگی میں نہیں سیکھ پاتے۔ امریکہ کے محنت کش لوگ تیزی سے سیکھ رہے ہیں۔ اور جیسا کہ وکٹر ہیوگو نے ایک دفعہ کہا تھا،”کوئی بھی فوج اس نظریے سے زیادہ طاقتور نہیں جس کا وقت آپہنچا ہو“۔ لندن پچیس دسمبر دو ہزار آٹھ ۔ ................ عالمی معیشت کی طفیل خوری

 

Source: www.chingaree.com

See also the article here in inpage format.