کینیڈا: خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سرمایہ داری ہے

نئے سال کے پہلے ہفتوں سے ہی بری خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک جانب اومیکرون نے پہلے سے ہی تباہی مچائی ہوئی تھی، جبکہ اب کینیڈا کے محنت کش گھرانے خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا بھی کریں گے۔ ڈلہاؤزی یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق، اس سال اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 6 سے 8 فیصد اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

2021ء میں پہلے ہی خوراک کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہو چکا تھا، اور اب چار افراد پر مشتمل اوسط گھرانے کو پچھلے سال کی نسبت خوراک پر 1 ہزار ڈالر زیادہ خرچ کرنے ہوں گے۔ اس دوران، بڑے جنرل سٹورز کے مالکان لاکھوں ڈالر کے ریکارڈ اضافی منافعے کما رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہی حقیقی فطرت ہے؛ امیروں کی چاندی اور غریبوں کی بربادی، یا جیسا کہ لینن نے ایک صدی قبل بجا طور پر کہا تھا، ”لا محدود وحشت“۔

غریب ترین سب سے زیادہ متاثر

خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کینیڈا میں ایسا دہائیوں سے ہوتا رہا ہے۔ ڈلہاؤزی رپورٹ کے مطابق، 2000ء اور 2020ء کے بیچ قیمتوں میں اضافہ 70 فیصد رہا ہے جو سالانہ اوسطاً 3.5 فیصد بنتا ہے، یہ افراطِ زر کی اوسط شرح سے کافی زیادہ ہے جبکہ اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ مگر وباء کے عرصے میں ان اقدامات میں بہت شدت آئی ہے۔ 2021ء میں خوراک کی قیمتوں میں 4.7 فیصد اضافہ ہوا، اور اگر ڈلہاؤزی رپورٹ کی پیش گوئی درست ہوئی تو اس سال پچھلے سال کی نسبت تقریباً دگنا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

بڑھتے ہوئے افراطِ زر نے معیشت کے سب شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ خوراک جیسی ضروری اشیاء، رہائش اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ بحران سماج کی غریب ترین پرت کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر کرے گا۔ کینیڈا کی غریب ترین 20 فیصد آبادی اپنی آمدنی کا آدھے سے زیادہ حصہ ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہے، اور آمدنی کا 15 فیصد محض خوراک پر خرچ کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں 20 فیصد امیر ترین آبادی اپنی آمدنی کا ایک تہائی سے کم حصہ ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہے، اور غریب آبادی کی نسبت آدھے سے بھی کم خوراک پر خرچ کرتی ہے۔

وباء شروع ہونے سے کافی پہلے ہی، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور جمود کا شکار اجرتوں کا تضاد لاکھوں کینیڈین افراد کی نہ ختم ہونے والی غربت اور اذیتوں کی وجہ رہی ہے۔ 2017ء میں، ملک بھر میں 44 لاکھ افراد ان گھرانوں کا حصہ تھے جو خوراک کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار تھے۔ قیمتوں میں تیز اضافہ حالات کو مزید بگاڑنے کی طرف جائے گا۔ لاکھوں مزید خطِ غربت سے نیچے دھکیلے جائیں گے۔ جبکہ غربت میں پہلے سے رہنے والے افراد کو مناسب کھانے اور سر کے اوپر چھت میں سے ایک کو چننے پر مجبور کیا جائے گا۔

پہلے سے ہی ملک بھر میں فوڈ بینک (لنگر خانہ) کا استعمال تیزی کے ساتھ بڑھ چکا ہے۔ کینیڈا کے شہریوں نے مارچ 2021ء میں 13 لاکھ دفعہ فوڈ بینک کا چکر لگایا، جو مارچ 2019ء کی نسبت 20 فیصد اضافہ تھا۔ محض ٹورنٹو کے فوڈ بینکوں میں اپریل 2020ء اور اپریل 2021ء کے بیچ یہ اضافہ 47 فیصد رہا، جہاں شہر کی تاریخ میں پہلی دفعہ فوڈ بینک جانے والے نئے افراد کی تعداد پہلے سے جانے والوں کی تعداد سے بڑھ گئی۔ ڈیلی بریڈ فوڈ بینک کے سی ای او نیل ہیدرنگٹن کا کہنا تھا کہ وباء سے پہلے بھی فوڈ بینکوں کو بحران کا سامنا تھا۔ خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ پہلے سے ہی محدود وسائل پر مزید دباؤ ڈالے گا۔

آئندہ مزید افراد کو فوڈ بینک کے استعمال پر مجبور کیا جائے گا۔ قبائلی علاقوں میں کئی سالوں سے خوراک کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ نوناوت کے علاقے میں دو افراد میں سے ایک کو خوراک کی مناسب مقدار نہیں ملتی۔ خوراک کے حوالے سے اس قسم کی غیر یقینی صورتحال قبائلی نوجوانوں کے بیچ خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی کلیدی وجہ مانی جاتی ہے۔

خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی کیا وجہ ہے؟

اگر آپ کسی بورژوا معیشت دان سے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ دریافت کرنا چاہیں تو آپ کو وہی پرانا جواب ملے گا: وباء کے نتیجے میں رسد اور مانگ کا توازن بگڑ گیا ہے۔

ایک جانب وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے لگائے جانے والے لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات نے پیداوار کو محدود کر کے تقسیم کو سست رو کر دیا۔ رسد میں کمی کے باعث خوراک کی پیداوار کے لیے درکار ضروری اشیاء جیسا کہ چارا، بجلی اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے پٹرول کی قیمتیں بھی متاثر ہو گئیں، جس کے نتیجے میں خوراک سپلائی کرنے کی قیمت بھی متاثر ہوئی۔

دوسری جانب، جب 2021ء کے دوسرے حصے میں وباء کی پابندیوں میں نرمی کی جانے لگی تو اخراجات میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا کیونکہ سماج کی امیر ترین پرتیں وباء کے دوران ہونے والی بچت کو خرچ کرنے لگیں، جس کے باعث محدود پیداوار پر مزید دباؤ پڑا۔

اگرچہ بورژوا معیشت دانوں کے ہاں یہی بنیادی وجوہات تھیں، مگر ان مسائل میں بے شمار اضافی عناصر بھی شامل کرنے ہوں گے؛ شدید موسمیاتی حادثات کے باعث کاشت پر پڑنے والے منفی اثرات سے لے کر کینیڈا کے خوراک کی صنعت میں مزدوروں کی قلت، اور مستقبل میں بڑھتی ہوئی مانگ کے تحت زیادہ منافعے کمانے کی امید پر بڑی کارپوریشنز کی ذخیرہ اندوزی تک۔ حتیٰ کہ خوراک سپلائی کرنے والوں اور جنرل سٹورز کے مالکان کے بیچ بھی لڑائی جاری ہے، جس میں آخر الذکر منافعے بڑھانے کی خاطر اپنے سپلائرز کی خوراک کی اشیاء رکھوانے کی فیسوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ نا گزیر طور پر اس خونخواری کے نتیجے میں خریدار متاثر ہوتے ہیں۔

ان تمام عناصر نے معیشت میں انتشار کی کیفیت پیدا کر دی ہے، فقط کینیڈا میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں۔ سپلائی چین، جو وباء سے پہلے ہی کمزور تھیں، ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں، جس سے ہر ملک اور ہر صنعت متاثر ہوئی ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں سپلائی کی رکاوٹ اور اشیاء کی قلت دیکھنے کو ملی ہے۔ پچھلے سال اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں وینکوور کے ساحل پر کارگو سمندری جہازوں کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی (اور یہ نومبر کے اواخر میں تباہ کن سیلاب آنے سے پہلے کا واقعہ تھا)۔ ٹرکوں کی قلت کے باعث خوراک سٹوروں میں نہیں پہنچ پا رہی، جس کے باعث جنرل سٹور خالی پڑے رہتے ہیں۔ یہ انتشار وحشت کے ایک ایسے گھن چکر کو جنم دیتا ہے جس سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

بہرحال، ہمارے بورژوا معیشت دانوں کو کوئی پریشانی نہیں۔ ان کے نزدیک یہ ساری صورتحال محض وباء کے لمبے عرصے کے اثرات کے علاوہ کچھ نہیں، محنت کش طبقے کو آرام سے بیٹھ کر تکالیف برداشت کرتے ہوئے رسد اور مانگ میں توازن کی واپسی کا انتظار کرنا ہوگا، اور آخرکار سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

البتہ یہ معیشت دان ایک اور عنصر کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں۔

بیل آؤٹ پیکیجز

وباء کے شروع میں متوقع تباہ کن مالیاتی و سیاسی بحران کا سامنا ہوتے ہوئے کینیڈا کے حکمران طبقے نے نام نہاد ”مقداری آسانی“ کے تاریخی پروگرام کا آغاز کر دیا۔ مقداری آسانی پیسے چھاپنے کا ہی دوسرا نام ہے جس کے ذریعے 2020ء اور 2021ء کے تقریباً ہر ہفتے کے دوران کینیڈا کی معیشت میں 5 ارب ڈالر انڈیلے جاتے رہے۔

اس پروگرام کا مقصد کینیڈا کے محنت کشوں (اور مجموعی طور پر معیشت) کو لاک ڈاؤن کے دوران تباہی سے بچانا بتایا گیا۔ مگر پھر بھی ایک نا معلوم قوت کی بدولت اس پیسے کی اکثریت ناکام ہوتی کارپوریشنز کو بیل آؤٹ کی شکل میں ہدیہ کی گئی! ایئر کینیڈا اور لیونز جیسی کمپنیوں کو حکومت کے 700 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ فنڈ میں سے بڑی مقدار میں رقم دی گئی۔ انہوں نے پیداوار میں سرمایہ کاری یا مناسب اجرتیں ادا کرنے کی بجائے اپنے محنت کشوں کو برطرف کر دیا اور سٹاک مارکیٹ اور پراپرٹیوں پر جوا کھیلنے لگے۔

کیا اربوں ڈالر کی نئی کرنسی کا چھاپنا قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے؟ اس مشکل مسئلے پر ہمارے معیشت دان خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔ در حقیقت بینک آف کینیڈا کے سابقہ گورنر سٹیفن پولوز نے صاف طور پر اس بات کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ افراطِ زر کا حکومت کے سٹیمولس پیکج سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں جناب پولوز کو یہ خبر دیتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ معیشت کے قوانین محض ذاتی خواہشات کی بنیاد پر رد نہیں کیے جا سکتے۔ چاہے کوئی لاکھ دفعہ امید کرے کہ ایسا نہ ہو، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پیسوں کے بڑھ جانے کی صورت بالآخر ہر شے کی قیمت میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ حقیقت ہمارے معیشت دانوں کے لیے قبول کرنا مشکل ہوگا۔ فرض کریں یہ خبر پھیل گئی کہ محنت کش طبقے کی اذیتوں میں اس لیے اضافہ ہوا ہے کیونکہ مرکزی بینک نے اپنے امیر دوستوں کی مدد کے لیے اربوں ڈالر چھاپ دیے ہیں تو یہ ایک بڑا سکینڈل بن کر سامنے آئے گا۔

اس دوران خوراک سے منافعے کمانے والے جدید دور کی میری انطونیا (ملکہ فرانس) جیسی زندگی گزار رہے ہیں جنہیں لوگوں کی بھوک کی کوئی پرواہ نہیں۔ جنرل سٹورز نے 2021ء میں ریکارڈ منافعے کمائے، جبکہ سوبیس کمپنی کے سی ای او نے ”سخت محنت کرنے کے بدلے“ خود کو 27 لاکھ 10 ہزار امریکی ڈالر کا بونس دے دیا، جو اس بونس سے تقریباً دگنا تھا جو پچھلے سال اس نے خود کو دیا تھا۔ عقل سے پیدل یہی مالکان اس پرانی کہانی کو دہراتے رہنا پسند کرتے ہیں کہ افراطِ زر کی وجہ اجرتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اجرتوں میں اضافے سے قیمتیں بڑھتی ہیں تو پھر ان مالکان کا باقاعدگی سے خود کو دیوہیکل بونس دینے سے ایسا کیوں نہیں ہوتا؟

خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ہمیں بھی آگے بڑھنا ہوگا

ایک کے اوپر دوسرا بحران آتا جا رہا ہے۔ سرمایہ داری نے ایسی صورتحال کو جنم دیا ہے جو نا قابلِ برداشت ہو چکی ہے۔ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ بے تحاشا مسائل کا محض ایک رُخ ہے۔ ہم تحقیر آمیز اذیتوں میں مزید اسی طرح زندہ نہیں رہ سکتے جبکہ ہمارا معیارِ زندگی تباہ ہوتا جا رہا ہے۔

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ محنت کشوں کی اجرت اتنی ہونی چاہیے جس سے ان کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں! مزدور تحریک کو مطالبہ کرنا ہوگا کہ کم از کم اجرت اوسط اجرت کا دو تہائی مقرر کرنا ہوگی۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں سالانہ اضافے کے تعین کا اختیار محنت کشوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل کمیٹی، ٹریڈ یونینز اور بیروزگاروں کے پاس ہونا چاہیے۔

خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا طبقاتی جدوجہد کی تاریخ میں ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ عظیم انقلابِ فرانس کی ابتدائی چنگاری ڈبل روٹی کی قلت تھی، جس نے عوام کو صدیوں پرانی بادشاہت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر جرات مند جدوجہد کرنے پر مجبور کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب جرأت مند انقلابیوں نے 1789ء میں باستیل قلعے پر ہلہ بول دیا تو انہوں نے پہلے ڈبل روٹی پر قبضہ کیا اور اس کے بعد ہتھیار پر۔

جدید دور میں محنت کشوں کے سامنے قزاقستان کی حالیہ شاندار عوامی تحریک کی مثال موجود ہے، جس کا آغاز تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ہوا، مگر جو پھیلتے پھیلتے عوامی بغاوت میں تبدیل ہو گئی جس نے چند دنوں کے اندر حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ قزاقستانی محنت کشوں کی تحریک، جس سے دنیا بھر کے محنت کشوں کو سیکھنا چاہیے، سے بحران کی حقیقی شکل اور اس کے خاتمے کے طریقے، دونوں کا اظہار ہوتا ہے۔

حتمی تجزیے میں خوراک کی قیمتوں کا بحران سرمایہ داری کا بحران ہے۔ منڈی کا انتشار اور اس سے جنم لینے والی شدید حرص دونوں بحران کی وجوہات ہیں اور بحران کے حل میں بنیادی رکاوٹیں ہیں۔ نظام کے دائرے کے اندر ہی گھومتے رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ محنت کش طبقے اور اس کی قیادت کا فریضہ اس بوسیدہ نظام کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ اس فریضے کی تکمیل کے بعد سوشلسٹ مستقبل کے لیے راہیں کھل جائیں گی جس میں بے مثال خوشحالی اور ترقی دیکھنے کو ملے گی۔

(یہ مضمون 14 جنوری کو marxist.ca ویب سائٹ پر شائع ہوا۔)