لینن کی شہرہ آفاق تصنیف”سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل“ آج بھی کیوں ضروری ہے

سال 1916ء میں عین عالمی جنگ کے بیچ لکھی گئی لینن کی تصنیف ”سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل“ آج کے عہد میں جنگ اور سامراج کے مظاہر کو سمجھنے کیلئے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

لینن واضح کرتا ہے کہ جدید سامراج، سرمایہ داری کے تحت پیداواری قوتوں کی ترقی کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ سامراج عسکری یا قومی روایات، نظریات یا پالیسیوں کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ ٹھوس معاشی لازمے کی پیداوار ہے۔

بین الاقوامی سیاست کی سمجھ بوجھ کے لیے سامراج کے مظہر کو سمجھنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یوکرین میں جاری جنگ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ اس لیے نہیں کیا کہ پیوٹن کوئی ”برا شخص“ ہے، یا پھر مغرب کی نام نہاد ”جمہوری روایات“ کے برعکس روس کی سماجی روایات قوم پرستی یا تسلط پر مبنی ہیں۔ نظریات، ثقافت اور سیاسی روایات یقینی طور پر واقعات پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن آخری تجزیے میں فیصلہ کن عنصر مادی ہی ہوتا ہے جوکہ معاشی حقیقت ہے۔

روس اور امریکہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی غرض سے پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کسی ’اچھائی‘ اور ’برائی‘ یا پھر جمہوریت اور آمریت کے مابین جنگ نہیں ہے۔ بلکہ یوکرین جنگ، دو سامراجی گروہوں کے مابین ایک جنگ ہے، جوکہ ایک ملک کے وسائل اور منڈیوں پر قبضے کے لیے لڑی جارہی ہے، جس کا مقصد محض خام مال کا حصول ہی نہیں بلکہ اس کا مقصد خطے میں اپنی اجناس اور سرمائے کو برآمد کرنا بھی ہے۔

قدیم سلطنتیں، جن کا مقصد محض علاقے فتح کرکے لوٹ مار کرنا ہوتا تھا، لینن کے بقول جدید سامراج کا کردار بس یہیں تک ہی محدود نہیں ہے۔ جدید سامراج، پیداواری قوتوں کے پھیلاؤ، اجناس کی پیداوار اور سرمائے کے ارتکاز کا نتیجہ ہے جوکہ اپنی ترقی کی ایک خاص نہج تک پہنچ کر منڈی کی حدود اور قومی ریاست کے ساتھ تضاد میں آجاتے ہیں۔ اس تضاد سے نئی منڈیوں پر قبضہ کرنے کی ضرورت جنم لیتی ہے جوکہ برآمدات کو آسان بناتی ہے۔

سرمایہ دارانہ توسیع کے عمومی حالات میں بڑی قوتیں، سفارتکاری اور مذاکرات کے ذریعے عالمی منڈی کی آپسی تقسیم کا انتظام کیا کرتی ہیں۔ لیکن معاشی بحران کے وقتوں میں جب منڈی سکڑتی ہے تو سفارتکاری بیکار ہو جاتی ہے اور پھر جنگ ہی، دیگر ذرائع کے طور پر سیاست کے تسلسل راستہ بن جاتی ہے۔

اگرچہ یہ سچ ہے کہ سرمایہ دارانہ بحران کے وقتوں میں جنگ میں شدت بڑھ جاتی ہے، لیکن یہ مکمل طور پر کبھی بھی ختم نہیں ہوتی، کیونکہ جنگ خود سرمایہ دارانہ نظام کی میراث ہے۔ اگرچہ سامراجی قوتیں عموماً اپنی کالونیوں اور زیر تسلط ممالک کو مفلسی کا شکار بنائے رکھتی ہیں، لیکن یہ تعلق کافی حد تک بہت پیچیدہ اور متضاد نوعیت کا حامل ہے۔

لینن کے زمانے میں فرانسیسی، انگریزی اور جرمن سرمائے نے زار روس میں جدید صنعت کو پروان چڑھایا، جو اس کے باوجود بھی مغربی یورپ کے مقابلے میں نسبتاً پسماندہ ملک ہی رہا۔ یہی عمل ٹراٹسکی کے ”مشترکہ اور ناہموار ترقی“ کے قانون کی بہترین مثال تھا۔ اس وقت کے روس میں سب سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی، قدیم ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ وجود رکھتی تھی۔ کچھ صنعتوں میں تیز ترین ترقی بھی ہوئی لیکن اس کے باوجود، معاشی ترقی کے لحاظ سے روس زیادہ ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے رہا۔

چین کو کئی دہائیوں پر مشتمل سرمائے کی درآمد نے، اب آکر تیزی سے ترقی کرنے کا اہل بنایا ہے، جس ترقی نے اسے جدید صنعتیں اور ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔ اگرچہ چین مختلف تکنیکی شعبوں میں باقی ممالک سے آگے ہے، لیکن اس کی اوسط پیداواری صلاحیت اب بھی کئی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ اسی لیے یہ ترقی ناہموار ہے کیونکہ معیشت کے جدید ترین شعبے، ترقی میں پیچھے رہ جانے والے شعبوں کے ہمراہ موجود ہیں۔

سامراج سرمایہ دارانہ نظام کو وسعت دیتا ہے، لیکن یہ ترقی ناہموار ہونے کے سبب، ناگزیر طور پر مختلف ممالک کے درمیان طاقت کے تعلقات کو غیر متوازن کردیتی ہے۔ جیسا کہ لینن نے وضاحت کی تھی کہ:

”نصف صدی قبل جرمنی کی سرمایہ دارانہ صلاحیت کا موازنہ اس وقت کے برطانیہ سے کیا جائے تو یہ ایک قابل رحم اور غیر اہم ملک تھا، یہی حالات جاپان اور روس کا موازنہ کرنے پر سامنے آتے تھے۔ کیا یہ ’سوچا‘ بھی جا سکتا ہے کہ دس یا بیس سال کے عرصے میں سامراجی قوتوں کی نسبتی طاقت میں کوئی بھی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوئی تھی؟ یہ ناقابلِ فہم بات ہے۔“

جیسے لینن کے وقتوں میں برطانیہ کے سامراجی تسلط کو نئی طاقتوں کے ابھار سے خطرات لاحق ہوئے اور جس کے نتیجے میں دو عالمی جنگیں ہوئیں جوکہ عالمی منڈی کے کنٹرول کو از سرنو تقسیم کرنے کا باعث بنیں۔ اسی طرح آج چین اور روس کے ابھار سے امریکہ کی بالادستی کو چیلنجز درپیش ہیں۔

جوہری ہتھیاروں کی ترقی کی سبب آج بڑی طاقتوں کے درمیان براہ راست تصادم کا امکان زیادہ نہیں ہے، لیکن اس نے یوکرین، یمن، تائیوان اور دیگر ممالک میں پراکسی جنگوں کے بڑھنے کے امکانات مزید بڑھا دیئے ہیں۔

چین کا کردار

کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتوں، جیسا کہ پرتگال کی کمیونسٹ پارٹی کی یہ غلطی ہے کہ روس اور چین جیسے ممالک کو سامراج تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

یہ یقیناً ایک سچ ہے کہ آج دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت امریکہ ہے، جو دنیا کی سب سے زیادہ جابر، جنگجو اور رجعتی قوت ہے۔ اسی وجہ سے کمیونسٹ، امریکی سامراج کے سخت مخالف ہیں۔ تاہم، ایک بہتر دنیا کی تعمیر کی جدوجہد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم چین اور روس کی حکومتوں کا ساتھ محض اس لیے دیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تنازعات حل کرسکیں۔

لینن نے سامراج کی پانچ بنیادی خصوصیات کی تھیں:

1) اجناس کی پیداوار اور سرمائے کے ارتکاز کا اجارہ داریوں کی صورت اختیار کرنا

2) بینکوں کے سرمائے کا صنعتی سرمائے کے ساتھ ادغام، اسی کی بنیاد پر ’مالیاتی سرمائے‘ کا جنم

3) سرمائے کی برآمد جوکہ اشیا کی برآمد سے مختلف ہو

4) بین الاقوامی سطح پر سرمایہ داروں کی انجمنوں کی تشکیل، جو دنیا کو آپس میں تقسیم کرتی ہو

5) سب سے بڑی سرمایہ دارانہ قوتوں کے مابین پوری دنیا کی علاقائی تقسیم

کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ یہ پانچوں خصوصیات روس یا چینی سرمایہ داری میں موجود نہیں ہیں؟

کچھ لوگ یہ دلیل دیں گے کہ چین میں تو چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے لہٰذا وہ سرمایہ دارانہ ملک نہیں ہے۔ لیکن یہ دلیل حقائق کا سامنا نہیں کرسکتی۔ چین میں کئی دہائیوں سے نجکاری، بیرونی سرمایہ کاری کا عمل جاری ہے جس نے سرمایہ دار طبقے اور نجی سرمائے کے ابھار کو جنم دیا جوکہ چین کی معیشت کے جی ڈی پی کا 60 فیصد، سرمایہ کاری کا 60 فیصد، کاروبار کا 80 فیصد اور نئی نوکریوں کے 80 فیصد پر مشتمل ہے۔

چین ایک سرمایہ دارانہ معیشت ہے جہاں شدید مرکزیت پر مبنی ریاست موجود ہے جس نے عوامی اداروں اور معاشی عناصر کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے، جوکہ 1949ء کے چینی انقلاب کی باقیات ہیں۔ مرکزیت کے عناصر کے موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چین ایک سرمایہ دارانہ ملک نہیں ہے۔ مثلاً پرتگال میں معیشت کے حصوں کو قومی ملکیت میں لیے جانے کے باوجود بھی وہ کبھی ”سوشلسٹ“ معیشت نہیں رہی۔ عوامی کمپنیاں، زرعی کارپوریشنز اور خودکار طریقے سے چلنے والی کمپنیوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے قوانین کے تحت ہی کام جاری رکھا ہوا ہے۔

کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس کے حکمران طبقے کے مفادات کی عکاس ہوتی ہے۔ چین دیگر ممالک میں اپنے ’نیو سلک روڈ‘ منصوبے کے تحت بندرگاہوں، سڑکوں، ہوائی اڈوں اور ریلویز کی تعمیر کا منصوبہ رکھتا ہے جوکہ کسی طور بھی نہ تو کوئی نئی چیز ہے اور نہ ہی یہ کسی طرح کا خیراتی عمل ہے۔ یہ سیدھا سا سرمائے کی برآمد کا عمل ہے۔ 19ویں صدی میں برطانوی سامراج نے ہندوستان میں ایسا ہی کیا تھا۔ البتہ چین نے اگر ابھی تک امریکہ کے مقابلے کی سامراجی جارحیت کا اظہار اس لیے نہیں کیا کیونکہ اس کا کرادار ابھی چھوٹا اور ابھرتی ہوئی سامراجی قوت ہے۔

امریکہ، دنیا کے تھانے دار کا کردار ادا کررہا ہے اور چین اور امریکہ کی فوجی طاقت کے مابین موجود فرق کی وجہ اولالذکر نے تجارت، سفارت کاری اور نام نہاد سافٹ پاور کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کو ترجیح دی ہے۔

لیکن اس عمل نے چین کو اپنی عسکری طاقت کو بڑے پیمانے پر پھیلانے سے نہیں روکا۔ چین دنیا کا دوسرا بڑا فوجی بجٹ رکھتا ہے۔ جلد یا بدیر، جو بہت بڑی فوجی طاقت تیار ہوئی ہے، اسے چین کے ”قومی مفادات“ کے دفاع میں استعمال کیا جائے گا یعنی اس کے حکمران طبقے کے مفادات کے دفاع میں۔

سرمائے کا ارتکاز

سرمائے کے ارتکاز، اجارہ داریوں کی تشکیل، مالیاتی سرمائے کا پھیلاؤ اور سرمایہ داروں کی بین الاقوامی انجمنوں کا ابھار، یہ سب جدید سامراجیت کی مرکزی خصوصیات ہیں۔

سرمایہ داری کے آغاز میں بہت سی چھوٹی کمپنیوں نے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے آپس میں مقابلہ کیا۔ جس کی وجہ سے کچھ کمپنیاں مضبوط ہوئیں جو باقی کچھ کمپنیوں کو ہڑپ کر گئیں اور کچھ بڑی کمپنیوں کے ساتھ ادغام میں آگئیں اور کئی ساری کمپنیاں غائب ہی ہوگئیں۔ جب سو سال پہلے لینن نے ”سامراجیت، سرمایہ داری کی آخری منزل“ تحریر کی تھی، اجارہ داریاں اس وقت بھی غالب تھیں۔

ایک دوسرے کے ساتھ ”آزاد منڈی“ میں مقابلہ کرنے کی بجائے، ان اجارہ داریوں نے منڈی کو ہی اپنے مفادات کے لیے توڑ مروڑ کر اور سازشوں کے ذریعے اپنے مطابق ہی ڈھال لیا۔

سرمائے کے ارتکاز کے سبب جس طرح بینک محض درمیانے دلال کا کردار ادا کرنے سے مبرا ہوگئے اور یہ اجناس کی پیداوار اور سرمایہ کاری کو بھی کنٹرول کرنے لگے، اسی طرح ملکی ریاستوں پر بھی مالیاتی سرمائے کی جکڑ مضبوط ہوگئی ہے۔

عالمگیریت اور سرمایہ داروں کی بین الاقوامی انجمنوں کی تشکیل کے سبب، قومی ریاستیں اپنے تحفظ کی غرض سے، ان انجمنوں کو خدمات فراہم کرتی اور ان سے قریبی تعلقات استوار رکھتی ہیں۔ اور وہ ان کے لیے لڑنے کو بھی تیار ہیں، چاہے وہ لڑائی تجارتی پابندیوں کی صورت میں ہو (جیسا کہ روس کے خلاف لگنے والی پابندیاں)، چاہے وہ تجارتی رکاوٹوں اور کسٹم ڈیوٹیوں کی صورت میں ہو (جیسا کہ چین پر لگائی گئیں) یا پھر بھلے یہ کھلے مسلح تصادم کی صورت میں ہو۔

پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے کچھ ہی وقت قبل، کاوتسکی نے (سوشل ڈیموکریسی کے رہنماؤں میں سے ایک) یہ دلیل دی تھی کہ سرمایہ داروں کے بین الاقوامی سطح کے ان طاقتور گروہوں کے قیام سے عالمی سرمایہ داری میں موجود عدم مساوات اور اس کو وراثت میں ملے تضادات میں کمی آئے گی۔ پہلی عالمی جنگ نے اس بات کو عملاً غلط ثابت کردیا، جبکہ لینن کی ”سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل“ نے اسے تھیوری میں بھی غلط ثابت کردیا تھا۔ گزشتہ 100 سالوں کے تجربات نے یہ واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ مالیاتی سرمائے نے صرف عالمی معیشت کے مختلف حصوں کے مابین نابرابری کو بڑھا دیا ہے، اس نے سامراجی دشمنیاں اور نہ ختم ہونے والی جنگوں کو جنم دیا ہے۔

سرمائے کا ارتکاز اور مالیاتی سرمائے کا غلبہ، لینن کے سرمایہ داری کے سامراجی مرحلے کے بنیادی ستون تھے، لیکن وہ خود بھی آج ان کی بے لگام حدود دیکھ کر حیران رہ جاتا۔

بارہ سال پہلے، سوئز انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے تین ماہرینِ تعلیم نے 37 ملین کمپنیوں اور 43 ہزار بین الاقوامی کارپوریشنوں کا ڈیٹا بیس ایک ساتھ رکھا، جس میں یہ نوٹ کیا گیا کہ دوسری کمپنیوں میں کن کمپنیوں کے حصص موجود ہیں۔ انہوں نے سراغ لگایا کہ مختلف کمپنیوں کی آمدن کہاں سے آتی ہے اور پوری عالمی معیشت کا نقشہ کھینچا۔ وہ اس حیران کن نتیجے پر پہنچے کہ ان میں سے صرف 147 کمپنیوں کو کرہ ارض کی کل دولت کے 40 فیصد کا کنڑول حاصل ہے۔ اس کے علاوہ صرف 737 کمپنیاں عالمی معیشت کا 80 فیصد کنٹرول کرتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی جن خصوصیات کو لینن نے واشگاف کیا تھا، آج 100 سال بعد وہ مزید نمایاں ہوچکی ہیں۔

اپنی تصنیف میں لینن نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ سامراجی تسلط کی وجہ سے بڑے سامراجی ممالک خون چوسنے والی جونک جیسا کردار اپنا لیتے ہیں، جہاں آبادیوں کے حصے بیرون ملک کی گئی سرمایہ کاری سے حاصل کردہ منافعوں پر زندہ رہتے ہیں۔

چند ممالک میں یہ بڑے بڑے منافعے، سامراجی حکمران طبقے کو اس قابل کردیتے ہیں کہ یہ محنت کش طبقے کی سب سے زیادہ مراعات یافتہ پرتوں کو رشوت دے کر خرید سکیں، جس سے ”مزدور اشرافیہ“ کا جنم ہوتا ہے۔ اس عمل سے حکمران طبقہ ایک خاص وقت تک سماجی امن قائم رکھ پاتا ہے اور سامراج مخالفت پر مبنی نفرت کے دھوئیں کو ”جمہوری“ اور ”امن پسند“ راستوں سے ذائل کیا جاتا ہے۔

اسی عمل کی مماثلت آج بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے کہ جہاں کچھ بائیں بازو کے لوگ اسی طرح کی سامراج مخالفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لینن نے واضح کیا تھا کہ سوشلزم ہی سامراجیت کا واحد متبادل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس قدر بوسیدہ ہوچکا ہے کہ اب یہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ”مزدور اشرافیہ“ کو رشوت دینے کے قابل نہیں رہا۔ اس کے باوجود ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے ماضی میں محنت کش طبقے کی جانب سے جیتے گئے حقوق اور حاصلات پر مسلسل حملے کیے جارہے ہیں۔ جو کچھ ہم اب دیکھ رہے ہیں وہ محنت کش طبقے کی ایک نئی نسل ہے جسے اپنے والدین اور پچھلے نسلوں کی نسبت تاریک مستقبل نظر آرہا ہے۔

”سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل“ آج بھی مکمل افادیت کے ساتھ موجود ہے، جوکہ نہ صرف لینن کی ذہانت کا بلکہ یہ مارکسزم کے نظریات کی درستگی کا بھی شاہکار نمونہ ہے۔ بہر حال، دنیا کی تشریح کرنا ہی کافی نہیں ہے، مقصد اسے بدلنا ہے!

یہ درست ہے کہ سرمایہ داری کی اصلاح نہیں کی جاسکتی، لیکن یہ بھی درست ہے کہ یہ خون آشام نظام خود بخود بھی ختم نہیں ہوگا۔ اس کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ اگر سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو یہ عارضی طور پر اپنے بحرانوں اور تضادات پر قابو پاتا رہے گا جس کی قیمت محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے استحصال، نابرابری، سامراج اور جنگ کی صورت میں چکانی پڑے گی۔

سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے ہمیں منظم ہونا پڑے گا اور ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنا ہوگی۔