لیون ٹراٹسکی اور قومی سوال
عالمی سرمایہ داری کا حالیہ بحران انتشار، تذبذب، معاشی و سفارتی ہیجان اور سب سے بڑھ کر عوام کے روزمرہ پر تباہ کن اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے ماضی کے تمام بحرانوں پر سبقت لے گیا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت، دانشور اور پروفیسر صاحبان بحران کا کوئی حل پیش کرنے کی بجائے بحران کی تما م تر ذمہ داری کرونا وائرس پر لاد کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ بحران کے نتیجے میں پھیلنے والی بیروزگاری، افلاس اور بھوک کو تقدیر کا لکھا قرار دے کر ممکنہ عوامی غیض و غضب سے محفوظ رہا جا سکے۔ لیکن دوسری طرف اسی بحران کے دوران ارب پتیوں کے اثاثوں اور بینک بیلنس میں ہونے والے ہوشربا اضافوں اور قومی اور سامراجی ریاستوں کی طرف سے نظام کو بچانے کے لیے سرمایہ داروں کو دیئے جانے والے کھربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکجز نے بالخصوص ترقی یافتہ دنیا اور بالعموم سارے کرۂ ارض کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ شعور سماجی وجود کا تعین نہیں کرتا بلکہ سماجی وجود ہی شعور کا تعین کرتا ہے۔ حاوی دانش جتنا بھی زور لگاتی رہے عوا م اپنے ارد گرد ہونے والی بے وقت کی اموات، اشیائے ضرورت کی نایابی، ادویات کی قلت اور بیروزگاری کے سیلاب سے اہم اسباق اخذ کر رہے ہیں۔ انہیں اب ایک قطب پر دولت اور دوسری پر غربت کے انبار صاف دکھائی دے رہے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ ان دونوں قطبین کے باہمی لازمی تعلق کو بھی سمجھ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ریاست کے ننگے جبر نے پوری کر دی ہے۔ تہذیب اوربردباری کا گہوارہ سمجھے جانے والے یورپ اور امریکہ میں ریاست اپنے تمام تر خونی پنجوں اور جبڑوں کے ساتھ بے نقاب ہو چکی ہے۔ چھوٹی چھوٹی مزاحمتی تحریکیں انقلابات کی صورت اختیار کر رہی ہیں۔ قیادت کے بغیر ان میں سے زیادہ ترکا ردِ انقلاب میں بدلنا بھی اٹل ہے۔ حکمران طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ عوام لا امتناعی وقت تک تحریکوں میں سرگرم نہیں رہ سکتے، اس لیے وہ جتنا زور تحریکوں کو کچلنے پر لگاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ زور سرمایہ داری کے درست متبادل نظریات کو غیر فطری، فروعی اور یوٹوپیائی ثابت کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلزم کے خلاف پروپیگنڈا ایک دفعہ پھر شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایک طرف عوام میں سوشلزم کی پیاس بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف حکمران انہیں یہ باور کروا رہے ہیں کہ پیاس جتنی بھی ہو یہ مشروب زہر آلود ہے، پیو گے تو مر جاؤ گے۔ بھوک اور کرونا سے مرتے ہوئے عوام کے لیے یہ پروپیگنڈا مضحکہ خیز شکل اختیار کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو خود کئی دفعہ سوشلزم کے خلاف بات کرنی پڑی۔ آنے والے دنوں میں دیگر عالمی رہنما بھی ایک دوسرے سے بڑھ کر سوشلزم کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ عوام ان سے اتنی شدید نفرت کرتے ہیں کہ ان کا پروپیگنڈا عوام کو سوشلزم سے دور کرنے کی بجائے اور نزدیک کر رہا ہے۔